قبر کا طواف

Egypt's Dar Al-Ifta

قبر کا طواف

Question

شدہ درخواست پر ہم مطلع ہوۓ جو زیر نمبر ١١١٣ بابت سال ٢٠٠٦ رجسٹرڈ ہے جو حسب ذیل سوال پر مشتمل ہے :
ہمارے پاس کویت میں الرای نامی اخبار میں بتاریخ ٢٠ مارچ ٢٠٠٦ موافق ٢٠ صفرالخیر ١٤٢٧ھ ایک انٹرویو شائع ہوا جو انٹرویو ہمارے معزز مشائخ میں سے ایک کے ساتھ عمل میں آیا تھا ، وہ شیخ کچھ وقت کے لئے کویت یونیورسٹی کے شریعت کالج کے ڈین بھی رہ چکے ، شرک کے بارے میں کئے گئے ایک سوال کے بارے میں انکے جواب میں حسب ذیل کلام آیا :"جہاں تک قبروں کے اطراف چکر لگانے (طواف) کی بات ہے تو یہ عمل تمام مسلمان علمائے کرام بشمول صوفی حضرات کے ناجائز ہے ، البتہ ان کا اس بارے میں اختلاف ہے ایا یہ عمل حرام ہے یا مکروہ لیکن کسی نے بھی اسے شرک نہیں قرار دیا سواۓ کچھ لوگوں کے جو انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں اور جو علم کی طرف منسوب ہیں ." اس پر ہنگامہ کھڑا ہوگیا اور کئی مضامین لکھے گئے اورکچھ مضامین تو شریعت کالج کے پروفیسرز کے بھی تھے جن میں اس کلام پر حملہ کیا گیا اور صاحب انٹرویو کو برابھلا کہا گیا بلکہ شرک کو فروغ دینے کا بھی ان پر الزام رکھا گیا ، اور کیونکہ آپ کا ہمارے دلوں میں ایک مقام ہے اور آپ کی بات کی ایک وقعت اور حیثیت ہے ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس مسئلے کے بارے میں حکم الہی کی وضاحت میں کچھ ارشاد فرمائیں تاکہ یہ اس طوفان و ہنگامہ کا خاتمہ ہوسکے جس کا نامناسب اثر مرتب ہو رہا ہے .
 

Answer

اس طرح کے مسائل میں گفتگو سے پہلے تین اہم اصولوں کی رعایت ضروری ہے انہیں پر پہلے روشنی ڈالتے ہیں.
• پہلا: بنیادی طور پر کسی بھی مسلمان سے صادر ہونے والے افعال کو ایسے پہلوؤں پر محمول کیا جائےگا جو توحید کی بنیاد کے منافی نہ ہو اور مسلمان پر کفر وشرک کے الزام تراشی میں جلد بازی سے کام نہیں لیا جائے گا کیونکہ مسلمان کا اسلام ایک مضبوط قرینہ ہے جو ہم پر اس بات کو واجب کرتا ہے کہ ہم اس کے افعال کو کفر پر محمول نہ کریں اور یہ ایک عام قاعدہ ہے جسے مسلمانوں کوان کے مسلمان بھائیوں کے تمام افعال کے حق میں لاگو کرنا چاہئے . اس سلسلے میں دار ہجرت کے امام حضرت امام مالک رحمت اللہ تعالی علیہ نے فرمایا: "من صدر عنه ما يحتمل الكفر من تسعة وتسعين وجهًا ويحتمل الإيمان من وجه حُمِل أمره على الإيمان"(اگر اس سے کوئی ایسی بات صادرہوجاےٴجو نناوے پہلوؤں سے کفر کا احتمال رکھے اور صرف ایک پہلو سے ایمان کا احتمال رکھے تو اس کا معاملہ ایمان پر محمول ہوگا.).
اس پر ایک عملی اور ایک قولی مثال بھی لیتے چلئے، مثال کے طور پر ایک مسلمان یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ حضرت عیسی مسیح علیہ السلام مردوں کو زندہ کرتے تھے لیکن اس کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ عمل اللہ تعالیٰ کی اجازت سے ہوتا تھا ، ان میں از خود اس بات کی قدرت نہیں تھی ، بلکہ وہ تو خدا کی طاقت وقدرت سے وقوع پذیر ہوتا تھا ، جبکہ ایک نصرانی بھی یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وہ مردوں کو زندہ کرتے تھے لیکن نصرانی یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وہ ان کی ذاتی قوت سے ہوا کرتا تھا اور وہی خدا تھے یا خدا کے بیٹا تھے یا پھر یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ معبود کے تینوں اقانیم میں سے ایک اقنوم ہیں لہذا اگر ہم کسی وحدانیت کے قائل مسلمان کو یہ کہتے سنیں کہ "مجھے یقین ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام مردوں کو زندہ فرماتے تھے" – اوربعینہ یہی الفاظ کوئی عیسائی بھی کہے تو پھر ہمیں یہ ہرگز گمان کرنے کی اجازت نہیں ہے کہ وہ الفاظ کہنے کی وجہ سے وہ مسلمان عیسائی ہوگیا ، اسی طرح ایک مسلمان یہ بھی عقیدہ رکھتا ہے کہ عبادت صرف خدا ہی کے لئے ہے لہٰذا اسے ایسے معنی پر محمول کیا جائےگا جو اس کے اسلام سے وابستگی اور اس کے عقیدہٴ توحید کے ساتھ میل کھاتا ہے کیونکہ کوئی مسلمان اللہ وحدہ لاشریک کے سوا کسی کی عبادت کو جائز نہیں سمجھتا ہے جبکہ ایک مشرک تو غیر اللہ کی عبادت کو جائز سمجھتا ہے اس لئے اگر ہم کسی مسلمان کو دیکھیں کہ اس سے کسی کے حق میں کوئی ایسا فعل صادر ہوا ہے جس میں عبادت کے احتمال کے ساتھ اور بھی کوئی احتمال قائم ہے تو پھر اسی احتمال پر اسے محمول کیا جائے گا جو اس کے مسلمان ہونے اور اس کے اسلامی عقیدے کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے ، کیونکہ جس کا مسلمان ہونا یقین کے ساتھ معلوم ہو چکا اس کا اسلام شک اور احتمال کی وجہ سے زائل نہیں ہوگا . اس لئے جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سجدہ کیا تھا –جیسا کہ ابن ماجہ نے روایت کی اورابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا- تو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل سے انہیں روک دیا لیکن انہوں نے انہیں کفر وشرک کا الزام نہیں دیا اوریہ تو خود واضح ہے - خصوصا وہ پوری امت مسلمہ میں حلال و حرام کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے- کہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات سے لا علم نہیں تھے کہ سجدہ ایک عبادت ہے اور غیر اللہ کی طرف عبادت کو پھیرنا درست نہیں ہے لیکن جب سجدہ میں مسجود لہ کی عبادت کے علاوہ بھی احتمال قائم ہے اس لئے اسے عبادت پر محمول کرنا جائز نہیں ہوا خصوصا جب کسی مسلمان سے صادر ہوا ہو یا اس کی وجہ سے اسے کافر قرار دینا ناجائز ہوا اس سلسلے میں حافظ ذہبی کہتے ہیں : "ألا ترى الصحابة من فرط حبهم للنبي صلَّى الله عليه وآله وسلَّم قالوا: ألا نسجد لك؟ فقال: لا. فلو أذن لهم لسجدوا سجود إجلال وتوقير لا سجود عبادة، كما قد سجد إخوة يوسف علنه السلام ليوسف، وكذلك القول في سجود المسلم لقبر النبي صلَّى الله عليه وآله وسلَّم على سبيل التعظيم والتبجيل لا يكفر به أصلاً، بل يكون عاصيًا، فلْـيُعَرَّفْ أن هذا منهيٌّ عنه، وكذلك الصلاة إلى القبر." ( اهـ من معجم الشيوخ للإمام الذهبي ص56.) (کیا آپ صحابہ کرام کو نہیں دیکھتے کہ وہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ سے فرط محبت سے یہ کہہ پڑے تھے (الا نسجد لک) کیا ہم آپ کے لئے سجدہ نہ کیا کریں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : نہیں . اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اجازت دئے ہوتے تو وہ انہیں تعظیمی اور اکرامی سجدہ ہی کرتے نہ کہ سجدۂ عبادت جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے سجدہ کیا تھا اور یہی بات اس مسلمان کے حق میں کہی جائے گی جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ کے قبر مبارک کے سامنے تعظیم و توقیر کے لئے سجدہ میں گر جاتے ہیں اس سے بھی ہرگز وہ کافر نہیں ہوگا ، ہاں گنہگار ہوگا ، اور اسے یہ بات بتائی جائے گی کہ یہ کام ممنوع ہے اور یہی حکم قبر کی طرف نماز پڑھنے کا بھی ہے . ) ( ملاحظہ فرمائیں معجم الشيوخ للإمام الذهبي ص56.)
در حقیقت اس بنیادی اصول کی خلاف ورزی خوارج کا شیوہ رہا ہے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے واضح فرما دیا کہ یہی ان لوگوں کی گمراہی کا راستہ ہے چنانچہ وہ ارشاد فرماتے ہیں : "إِنَّهُمْ انْطَلَقُوا إِلَى آيَاتٍ نَزَلَتْ فِي الْكُفَّارِ فَجَعَلُوهَا عَلَى الْمُؤْمِنِينَ" (علقه البخاري في صحيحه ووصله ابن جرير الطبري في "تهذيب الآثار" بسند صحيح.") (یہ لوگ ایسی آیتوں کو پکڑ لئے جو کافروں کے حق میں نازل ہوئیں اور پھر مسلمانوں پر چسپاں کر دئے ." (امام بخاری رحمت اللہ تعالی علیہ نے اسے اپنی صحیح میں معلق روایت کی جبکہ ابن جریر طبری نے تهذیب الآثار میں صحیح سند سے موصول قرار دیا .)
* دوسرا: شرک اور توسل میں بہت بڑا فرق ہے بلکہ آسمان و زمین کا فرق ہے ، وسیلہ لینے کا تو شریعت میں حکم ہے ، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : "﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾ [المائدة: 35] ( اے ایمان والو! الله سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ.) (سورہ مائدہ:٣٥) اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود اپنے مقبول بندوں کے اوصاف میں ارشاد فرمایا کہ وہ اس کی طرف وسیلہ لیا کرتے تھے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :" أُوْلَئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلى رَبِّهِمُ الوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا" [الإسراء: 57] ( وہ مقبول بندے جنہیں یہ پوجتے ہیں وہ خود اپنے رب کی طرف وسیلہ ڈھونڈتے ہیں کہ ان میں کون زیادہ مقرب ہے اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں بیشک تمہارے رب کا عذاب ڈر کی چیز ہے.)(سورہ بنی اسرائیل:٥٧) .
وسیله لغت میں مرتبہ ، ذریعہ اور نزدیکی کو کہتے ہیں اور اس کے سارے معنوں کا نچوڑ یہ ہے کہ : ہر اس چیز کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جائے جسے شریعت نے جائز قرار دیا ہے اس میں ہر اس چیز کی تعظیم شامل ہے جسے اللہ تعالیٰ نے عظمت دی ہے چاہے وہ مقامات اور جگہوں کی صورت میں ہوں یا زمانوں اور اوقات کی صورت میں ہوں یا شخصیات اور کیفیات کے شکل میں ہوں ، مثال کے طور پر ایک مسلمان مسجد حرام میں نماز کی اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہٴ اطہر اور ملتزم کے پاس دعا کی کوشش کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی عظمت بیان فرمائی ہے اسی طرح شب قدر میں نفل کا اہتمام کرتا ہے اور جمعہ کے روز قبولیت کی گھڑی میں دعا کی کوشش کرتا ہے اور رات کے آخری تہائی حصہ میں دعا اور نماز کا خیال رکھتا ہے کیونکہ ان گھڑیوں کی عظمت اللہ تعالیٰ نے واضح فرمادی ہے نیز مسلمان اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں انبیائے کرام اور اولیائے عظام اور بزرگان دین سے وابستگی اور محبت کے ذریعہ تقرب حاصل کرتا ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالی نے اس طرح کی شخصیتوں کی عظمت واضح فرمادی ہے اسی طرح ایک مسلمان سفر کی حالت میں اور بارش ہوتے وقت وغیرہ وغیرہ وقتوں میں دعا کا اہتمام کرتا ہے کیونکہ ایسی حالتوں کو اللہ تعالیٰ نے برتری دی ہے . اور دوسری چیزوں کو بھی اسی کی روشنی میں سمجھ لیجئے ، یہ سب کے سب اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس ارشاد مبارک میں داخل ہے :" ذَلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى القُلُوبِ [الحج: 32].( بات یہ ہے، اور جو الله کے نشانوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیزگاری سے ہے)(سورہ حج:٣٢) . جہاں تک شرک کا سوال ہے تو شرک کا مطلب ہے کسی بھی عبادت کو اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف پھیرنا اس طور پر کہ اللہ کے علاوہ کے لئے وہ سزاوار نہ ہو یہاں تک کہ اگر اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں تقرب کی نیت سے ہی کیوں نہ ہو، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :" ﴿وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلاَّ لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللهِ زُلْفَى﴾(الزمر:٣)( اور وہ جنہوں نے اس کے سوا اور والی بنالیے کہتے ہیں ہم تو انہیں صرف اتنی بات کے لیے پوجتے ہیں کہ یہ ہمیں الله کے پاس نزدیک کردیں.) (سورہ زمر:٣) . یاد رہے یہاں ہم نے یہ قید " اس طور پر کہ اللہ کے علاوہ کے لئے سزاوار نہ ہو" اس لئے لگائی تاکہ وہ چیزیں شرک کی تعریف سے خارج رہیں جو ظاہری اسم میں تو شرک لگتے ہیں لیکن حقیقت میں شرک نہیں ہیں جیسے دعا جو کبھی مدعو کی عبادت ہوتی ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : "إِن يَدْعُونَ مِن دُونِهِ إِلاَّ إِنَاثًا وَإِن يَدْعُونَ إِلاَّ شَيْطَانًا مَّرِيدًا" [النساء: 117] (یہ شرک والے الله کے سوا نہیں پوجتے مگر کچھ زنانی چیزوں کو اور نہیں پوجتے مگر سرکش شیطان کو.) اور کبھی عبادت نہیں ہوتی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے : "لاَ تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا" [النور: 63]( رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے)(سورہ نور:٦٣) اسی طرح مانگنا کبھی مانگے جانے والے کی عبادت ہوگا ، جیسا کہ اس آیت مبارکہ میں ہے :" وَاسْأَلُوا اللهَ مِن فَضْلِهِ" [ النساء: 32 ] (اور الله سے اس کا فضل مانگو) (سورہ نساء:٣٢) اور کبھی مانگنا عبادت نہیں ہوگا جیسا کہ قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ میں ہے :" ﴿لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ﴾ [المعارج: 25] (اس کے لیے جو مانگے اور جو مانگ بھی نہ سکے تو محروم رہے) (سورہ معارج:٢٥) اور استعانت (طلب امداد) کبھی مستعان بہ(جس سے مدد مانگی جا رہی ہے) کی عبادت ہوگی جیساکہ اس آیت مبارکہ میں ہے ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ [الفاتحة: 5]( ہم تجھی کو پوجیں اور تجھی سے مدد چاہیں) (سورہ فاتحہ:٥) اور کبھی استعانت عبادت نہیں ہوگی جیساکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس ارشاد میں ہے :" ﴿وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ﴾ [البقرة: 45] (اور صبر اور نماز سے مدد چاہو) (سورہ بقرہ :٤٥) اسی طرح استغاثہ (طلب دستگیری) کبھی مستغاث بہ (جس سے دستگیری کی درخواست کی جائے ) کی عبادت ہوگا جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے اس ارشاد میں ہے :"إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّى مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ المَلائِكَةِ مُرْدِفِينَ" [الأنفال: 9]( جب تم اپنے رب سے فریاد کرتے تھے تو اس نے تمہاری سن لی کہ میں تمہیں مدد دینے والا ہوں ہزاروں فرشتوں کی قطار سے)(سورہ انفال :٩) اور کبھی استغاثہ عبادت نہیں ہوگا جیسا کہ اس آیت مبارکہ میں ہے :" فَاسْتَغَاثَهُ الذي مِن شِيعَتِهِ عَلَى الذي مِنْ عَدُوِّهِ فَوَكَزَهُ مُوسَى فَقَضَى عَلَيْهِ قَالَ هَذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِينٌ﴾ [القصص:١٥)( اور اس نے موسیٰ سے مدد مانگی، اس پر جو اس کے دشمنوں سے تھا، تو موسیٰ نے اسے گھونسا مارا تو اس کا کام تمام کردیا کہا یہ کام شیطان کی طرف سے ہوا بیشک وہ دشمن ہے کھلا گمراہ کرنے والا.) (سورہ قصص:١٥) اسی طرح محبت کبھی محبوب کی عبادت ہوگی اور کبھی نہیں ہوگی جیساکہ یہ دونوں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں موجود ہیں :" أَحِبُّوا اللهَ لِمَا يَغْذُوكُمْ مِنْ نِعَمِهِ، وَأَحِبُّونِي بِحُبِّ اللهِ، وَأَحِبُّوا أَهْلَ بَيْتِي بِحُبِّي" (رواه الترمذي وصححه الحاكم)(اللہ تعالیٰ سے محبت رکھو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے اور اللہ کی مجھ سے محبت کی وجہ سے مجھ سے محبت رکھو اور میرے اہل بیت سے میری محبت کی وجہ سے محبت رکھو .) (اسے امام ترمذی نے روایت کی اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا .) اور آگے اسی طرح سمجھتے چلئے . الغرض شرک صرف اور صرف اسی تعظیم میں ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی تعظیم کی طرح ہو، چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا :" فَلاَ تَجْعَلُوا للهِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ" (البقرة: 22)( تو اللہ کے لئے جان بوجھ کر برابر والے نہ ٹھہراؤ)(سورہ بقرہ:٢٢)اور جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے دوسری جگہ ارشاد فرمایا :" وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللهِ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًا لِّلَّهِ" (البقرة: 165) ( اور کچھ لوگ اللہ کے سوا اور معبود بنالیتے ہیں کہ انہیں اللہ کی طرح محبوب رکھتے ہیں اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں.) (سورہ بقرہ:١٦٥). اس سے شرک اور وسیله کے درمیان فرق واضح ہوگیا ، وسیله میں اسی کی تعظیم ہوتی ہے جسکو اللہ تعالیٰ نے عظمت دی ہے ، دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کے ذریعہ ہی تعظیم ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے ذریعہ تعظیم در حقیقت اللہ تعالیٰ کی ہی تعظیم ہے ، اسی وجہ سے فرشتوں کا حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ عین ایمان وتوحید ٹھہرا جبکہ مشرکوں کا اپنے بتوں کو سجدہ عین کفر و شرک ٹھہرا جبکہ مسجود دونوں صورتوں میں مخلوق ہے، لیکن کیونکہ فرشتوں کا حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ درحقیقت اس چیز کی تعظیم کے لئے تھا جسکو اللہ تعالیٰ نے خود حکم دیکر معظم کیا ، یہاں اللہ کا امر تھا اور جائز وسیله تھا اس لئے اس کا کرنے والا ثواب کا مستحق قرار پایا لیکن مشرکوں کا بتوں کو سجدہ ایسی تعظیم تھا جیسے اللہ تعالیٰ کی تعظیم ہے اس لئے وہ عمل قابل مذمت اور شرک قرار پایا جس کا مرتکب سزا کا مستحق ہوتا ہے . شرک اور وسیله کے درمیان اسی فرق کی بنیاد پر علماء کرام کی ایک جماعت نے ایسی ذات یا ایسی چیز کی قسم کھانے کو جائز قرار دیا ہے جو شریعت میں معظم ہیں جیسے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کی قسم یا اسلام کی قسم یا کعبہ شریف کی قسم ، انہیں علماء کرام میں انکے ایک قول کے مطابق حضرت امام احمد رحمت اللہ تعالی علیہ بھی شامل ہیں ، جس میں انہوں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کھانے کی اجازت دی ہے، اس میں ان کی حجت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو کلمہء شہادت کے ایک جز ہیں جن کے بغیر شہادت ہی مکمل نہیں ہوتی ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ مشابہت کی کوئی بات نہیں ہے بلکہ ان کی تعظیم تو اللہ تبارک و تعالیٰ کی ان کی تعظیم کرنے سے وابستہ ہے، ان علمائے کرام نے غیر اللہ کی قسم کھانے کی ممانعت والی حدیثوں کو اس معنی پر محمول کیا ہے جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ مشابہت پائی جاتی ہو . تاہم جمہور علماءے کرام کی راۓ غیر اللہ کی قسم کی ممانعت پر ہے کیونکہ وہ ممانعت کے عموم کے ظاہری معنی پر چلتے ہیں. دونوں رائیوں کے دلائل اور ان کے درمیان ترجیح کے متعلق ابن المنذر رحمت اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں : "اِخْتَلَفَ أَهْل الْعِلْم فِي مَعْنَى النَّهْي عَنْ الْحَلِف بِغَيْرِ الله، فَقَالَتْ طَائِفَة: هُوَ خَاصّ بِالْأَيْمَانِ الَّتِي كَانَ أَهْل الجَاهِلِيَّة يَحْلِفُونَ بِهِ تَعْظِيمًا لِغَيْرِ الله تَعَالى كَاللاتِ وَالْعُزَّى وَالآبَاء، فَهَذِهِ يَأْثَم الحَالِف بِهَا وَلا كَفَّارَة فِيهَا، وَأَمَّا مَا كَانَ يَؤُولُ إِلَى تَعْظِيم الله كَقَوْلِهِ: وَحَقّ النَّبِيّ، وَالإِسْلام، وَالْحَجّ، وَالْعُمْرَة، وَالْهَدْي، وَالصَّدَقَة، وَالْعِتْق، وَنَحْوهَا مِمَّا يُرَاد بِهِ تَعْظِيم الله وَالْقُرْبَة إِلَيْهِ فَلَيْسَ دَاخِلا فِي النَّهْي، وَمِمَّنْ قَالَ بِذَلِكَ أَبُو عُبَيْد وَطَائِفَة مِمَّنْ لَقِينَاهُ، وَاحْتَجُّوا بِمَا جَاءَ عَنْ الصَّحَابَة مِنْ إِيجَابهمْ عَلَى الحَالِف بِالْعِتْقِ وَالْهَدْي وَالصَّدَقَة مَا أَوْجَبُوهُ مَعَ كَوْنهمْ رَأَوْا النَّهْي المَذْكُور، فَدَلَّ عَلَى أَنَّ ذَلِكَ عِنْدهمْ لَيْسَ عَلَى عُمُومه؛ إِذْ لَوْ كَانَ عَامًّا لَنهوا عَنْ ذَلِكَ وَلَمْ يُوجِبُوا فِيهِ شَيْئًا"اِهـ نقلاً من فتح الباري لابن حجر (11/535). (اہل علم کے درمیان غیر اللہ کی قسم کھانے کی ممانعت کے بارے میں اختلاف ہے ، ایک جماعت کا خیال ہے کہ وہ ممانعت ان قسموں سے متعلق ہے جو اہل جاہلیت کے طریقے پر ہوں جو غیر اللہ لات و عزی اور آباء و اجداد کی تعظیم کے لئے قسم کھایا کرتے تھے اس طرح کی قسمیں کھانے والا گنہگار ہوگا لیکن اس میں کوئی کفارہ نہیں ہے ، لیکن جو قسم اللہ تعالیٰ کی ہی تعظیم پر مشتمل ہو جیسے حضرت نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حق کی قسم یا اسلام کی قسم یا حج کی قسم یا عمرہ کی قسم یا قربانی کی قسم یا صدقه کی قسم یا آزادی کی قسم وغیرہ وغیرہ جس سے اللہ تعالیٰ کی ہی تعظیم اور اسکا ہی تقرب مقصود ہوتا ہے تو وہ چیزیں اس ممانعت میں شامل نہیں ہیں اور جنہوں نے یہ قول کیا ہے اس میں ابو عبید اور جن سے ہماری ملاقات رہی ایسی بھی ایک جماعت ان میں شامل ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ صحابہ کرام نے آزادی یا قربانی یا صدقه کی قسم کھانے والوں پر ان امور کو واجب قرار دیا ہے جبکہ وہ ممانعت کی حدیثوں سے بے خبر نہیں تھے اس سے پتہ چلا کہ وہ ممانعت ان کے نزدیک اپنے عمومی معنی پر محمول نہیں ہے اس لئے کہ اگر وہ عمومی ہوتی تو ان قسموں سے سرے سے ہی منع فرما دیتے اور اس پر کچھ واجب نہ کئے ہوتے ." (ختم شد ، فتح الباری تالیف ابن حجر (١١/٥٣٥) سے نقل کیا گیا ). الغرض جب وسیله کی کچھ صورتوں میں جیسے بزرگان دین کا توسل یا ان کی قبروں کے سامنے سجدہ میں اختلاف واقع ہوگیا تو یہ جائز نہیں کہ اس کے وسیلہ ہونے میں غلطی یا اختلاف کے دائرے سے نکال کر کفر اور شرک کے زمرے میں شامل کیا جائے ورنہ گویا ہم نے مسائل میں خلط ملط کردیا اور اللہ تعالیٰ کے واسطے تعظیم اور اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں تعظیم دونوں میں گڈمڈ کردیا . اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :" أَفَنَجْعَلُ المُسْلِمِينَ كَالمُجْرِمِينَ مَا لَكُمْ كَيْف تَحْكُمُونَ ﴾ [القلم: 35–36].( کیا ہم مسلمانوں کو مجرموں کا سا کردیں، تمہیں کیا ہوا کیسا حکم لگاتے ہو.) (سورہ القلم:٣٥-٣٦)
• تیسرا: کسی چیز کی سببیت کے اعتقاد اور اسے خالق اور بذات خود مؤثر خیال کرنے کے درمیان آسمان اور زمین کا فرق ہے اس کی مثال میں وہ ساری مثالیں منطبق ہوتی ہیں جو ہم نے پہلے اصول کے تحت میں ذکر کیں ہیں چنانچہ ایک مسلمان یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی اجازت سے معجزہٴ تخلیق طیر میں ایک سبب تھے جبکہ ایک نصرانی یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام وہ کام از خود کیا کرتے تھے اس لئے اگر ہم کسی مسلمان کو دیکھیں کہ کسی چیز کی غیر اللہ سے درخواست کررہا ہے یا مانگ رہا ہے یا مدد طلب کر رہا ہے یا نفع یا نقصان کی امید رکھ رہا ہے تو ہم پر یہ حتمی اور ضروری ہے کھ اس کے فعل کو سببیت کے اعتقاد پر محمول کریں نہ کھ ذاتی تاثیر اور تخلیق پر محمول کریں کیونکہ ہم پہلے سے جانتے ہیں کھ ہر مسلمان یہی عقیدہ رکھتا ہے کھ ذاتی طور پر نفع و نقصان تو صرف اور صرف اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے . اور مخلوقات میں کچھ مخلوق ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی اجازت سے نفع اور نقصان پہنچا سکتی ہیں ، اس کے بعد بات اس بارے میں رہ جاتی ہے ایا وہ مخلوق واقعتا اس کا سبب ہے یا نہیں ؟ جب یہ تینوں اصول پایہٴ ثبوت کو پہنچ گئے تو اولیائے کرام اور بزرگان دین سے - چاہے وہ اس دنیا میں ہوں یا اس دنیا سے کوچ کر گئے ہوں- امداد طلب کرنے یا استغاثہ (فریاد کرنے ) کے بارے میں گفتگو کے دوران انہیں ذہن میں رکھنا ضروری ہے ، پھرجب ہم یہ جانتے ہیں کھ ہم ایسے افعال و اقوال کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو مسلمانوں سے صادر ہوئے ہیں اور یہ مسلمان صاحب مزار کی بزرگی اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں ان کی قربت کی عقیدت کے تحت ان مزاروں اور قبروں کی زیارت کرتا ہے اور یہ عقیدت رکھتا ہے کہ قبروں کی زیارت ایک نیک کام ہے جو باعث تقرب الہی ہے اور جس کے وسیلے سے ایک مسلمان اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں باریابی چاہتا ہے خصوصا جب صاحب مزار نیک اور بزرگ ہوں . اب بات صرف اس قدر میں محصور ہو جاتی ہے کہ ان مسلمانوں سے صادر ہونے والے یہ افعال جائز ہیں یا ناجائز ؟ ان افعال میں سے کچھ میں تو علمائے کرام کے درمیان اختلاف ہے اور بعض تو بالکل غلط ہیں جن میں اختلاف ہی نہیں ہے جب یہ ساری باتیں بالکل واضح طور پر معلوم ہوگئیں تو یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ ان مسلمانوں کے افعال و اقوال کے حکم کا کفر اور شرک کے مسئلے سے دور دور تک بلکہ سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ کچھ وسیلوں کے بارے میں اختلاف ہے اور کچھ وسیلے بالکل غلط ہیں لیکن یہ کسی ایسے شخص کے کفر کا باعث نہیں ہو سکتا ہے جس کا اسلام یقینی طور پر ثابت ہو چکا ہے. لہٰذا کسی مسلمان کا استغاثہ یا اولیائے کرام اور بزرگان دین سے مدد طلب کرنا –خواہ وہ اس دنیا میں ہوں یا پردہ فرما چکے ہوں- سببیت پر ہی محمول ہوگا نہ کہ تخلیق اور ذاتی تاثیر پر کیونکہ مسلمانوں کے افعال و اقوال کو بنیادی طورپر سلامتی پر ہی محمول کیا جائے گا جیسا کہ اوپر مذکور ہوا. واضح رہے کہ (ندا، توسل، استغاثہ اور استعانت وغیرہ) ان میں سے اس دنیا سے پردہ فرمائے ہوئے کے حق میں طلب دعا وغیرہ امور پر محمول ہونگے جن کی انہیں اجازت ہے جیسا کہ انبیاء کرام وغیرہم کے حق میں عبادت، دعا اور برزخی زندگی میں تصرفات وغیرہ ثابت ہیں ، چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام کا اپنی قبر شریف میں نماز پڑھنا ثابت ہے اور اسراء و معراج کے موقع پر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سارے انبیاءے کرام اور رسولان عظام کی امامت فرمانا بھی ثابت ہے . یہاں وہ حدیث پاک بھی قابل ذکر ہے جس میں وارد ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نابینا کو یہ دعا سکھائی : "اللهم إني أسألك وأتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة، يا محمد إني قد توجهت بك إلى ربي في حاجتي هذه لتقضى لي، اللهم شفعه فيَّ." (رواه الترمذي وابن ماجه والنسائي وصححه جمع من الحفاظ) (اے اللہ! میں تیرا سوالی ہوں اور تیری بارگاہ میں تیرے نبی حضرت محمد، رحمت والے نبی کے ذریعہ متوجہ ہوں ، اے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بے شک میں آپکے واسطے سے میری اس ضرورت کی تکمیل کے لئے متوجہ ہوں، اے اللہ ! انہیں میرے حق میں سفارشی بنا .) (اسے ترمذی ، ابن ماجہ اور نسائی نے روایت کی ہے اور حافظین حدیث کی ایک جماعت نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور طبرانی وغیرہ کی روایت میں ہے کہ اس حدیث کے راوی عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ دعا ایک آدمی کو سکھائی تھی جس نے ان سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک ضرورت کی تکمیل کے لئے سفارش کرنے کی گزارش کی تھی اوریہ بات حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد پیش آئی تھی . مزید برآں، ابن ابو شیبہ نے ابو صالح السمان کی سند سے مالک الدار –حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خزانچی- سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ قحط سے دوچار ہوئے تھے تو ایک شخص حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہٴ اطہر کے پاس آیا اور عرض کی : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنی امت کے لئے بارش کی دعا فرمائیے تو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس خواب میں تشریف لائے اور ارشاد فرمایا : عمر کے پاس جاؤ اور انہیں میرا سلام کہو اور بتا دو کہ تم لوگ بارش سے نوازے جاؤگے، اور انہیں کہہ دو کہ ہوشیاری سے چلیں ، راوی کہتے ہیں کہ وہ شخص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور انہیں بتایا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور بولے اے میرے پروردگار! کوئی کوتاہی نہیں کروں گا مگر جو میرے بس میں نہیں ہے. اس کی سند صحیح ہے جیساکہ ابن حجر نے فتح الباری میں ذکر کیا ہے اور طبری نے اپنی تاریخ میں یمامہ کی جنگ پر گفتگو کے ضمن میں ذکر کیا ہے کہ حضرت خالد بن الولید رضی اللہ عنہ دونوں صفوں کے درمیان ٹھہرے اور مقابلہ کی دعوت دی اور کہا : میں بہادر ولید کا بیٹا ہوں ، میں عامر اور زید کی نسل سے ہوں ، اس کے بعد وہ مسلمانوں کا نعرہ بلند کئے ، اس دن ان کا نعرہ "یا محمداہ" (اے ہمارے محمد لاج رکھ) تھا پھر ہوا یہ کہ جو بھی ان کے سامنے آتا تھا اسے وہیں ڈھیر کر دیتے تھے . واضح رہے کہ یہاں خصوصیت کا دعوی اصل کے خلاف ہے بلکہ عدم خصوصیت کے قرائن موجود ہیں .
اس کے علاوہ ابن عبد البر وغیرہ کے پاس مرفوع حدیث میں وارد ہے :" ما من مسلم يمر على قبر أخيه كان يعرفه في الدنيا فيسلم عليه إلا رد الله عليه روحه حتى يرد عليه السلام."(کوئی بھی مسلمان اپنے (دینی) بھائی کی قبر کے پاس سے نہیں گزرتا ہے جو اسے دنیا میں پہچانتا تھا اور اسے سلام کرتا ہے مگر اللہ تعالیٰ اس کی روح کو اسے واپس کردیا ہوا ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ اس کے سلام کا جواب دیتا ہے .) اور یہ بات تو معلوم ہی ہے کہ سلام بھی ایک قسم کی دعا ہے . اسی طرح حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :"إِذَا أَضَلَّ أَحَدُكُمْ شَيْئًا أَوْ أَرَادَ أَحَدُكُمْ عَوْنًا وَهُوَ بِأَرْضٍ لَيْسَ بِهَا أَنِيسٌ، فَلْيَقُلْ: يَا عِبَادَ اللهِ أَغِيثُونِي، يَا عِبَادَ اللهِ أَغِيثُونِي، فَإِنَّ للهِ عِبَادًا لا نَرَاهُمْ." (أخرجه الطبراني وأبو يعلى) (جب تم میں سے کوئی کسی چیز کو کھوئے یا تم سے کسی کو کسی مدد کی ضرورت ہو اور وہ ایسی زمین پر ہو جہاں کوئی یار ومددگار نہ ہو تو یہ کہے " يَا عِبَادَ اللهِ أَغِيثُونِي، يَا عِبَادَ اللهِ أَغِيثُونِي" اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو . اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو . کیونکہ اللہ کے بہت سارے بندے ایسے موجود ہیں جنھیں ہم نہیں دیکھ پاتے ہیں.) (اسے طبرانی اور ابو یعلی نے روایت کی ہے .) اسی طرح کی ایک روایت بزار کے پاس بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی سند سے موجود ہے جس کے الفاظ یوں ہیں :" إن لله ملائكة في الأرض سوى الحفظة يكتبون ما يسقط من ورق الشجر، فإذا أصاب أحدكم عرجة بأرض فلاة فليناد: أعينوا عباد الله."( بے شک اللہ تعالیٰ کے "حفظہ "(نگہبان) فرشتوں کے علاوہ بھی زمین پر دوسرے فرشتے ہیں جو درخت سے جھڑتے پتوں کو لکھا کرتے ہیں تو اگر آپ میں سے کسی کو کسی بیابان کی سرزمین پر کوئی پریشانی کا سامنا ہو تو یہ کہہ کر ندا کرے " أعينوا عباد الله " (اللہ کے بندو! مدد کرو) (اسے طبراني نے روایت کی اور حافظ ابن حجر نے أمالي الأذكار نامی کتاب میں حسن (عمدہ) قرار دیا ، اور طبرانی نے اسے روایت کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ عمل مجرب اور آزمودہ ہے .
اور ابن القیم رحمہ اللہ نے کتاب "الروح" میں اس پر سیر حاصل گفتگو کی ہے اور سلف صالحین کی عبارتوں سے تائیدیں پیش کی ہیں انہیں وہاں ملاحظہ فرمائیں . ان سب کے بعد بھی مدد کا حصول تو صرف اور صرف امر الہی پر موقوف ہے جو وہ عطا فرمائے اسے کوئی روک نہیں سکتا اور اسکے فضل کو کوئی ٹالنے والا نہیں ہے ، اس کے فیصلے کے سامنے کوئی دم مارنے والا نہیں ، وہ پاک ہے ، عظمت وبزرگی والا ہے ، اس کی شان جلیل ہے ، اور اس کا نام برکتوں والا ہے .
قبر کے طواف کے متعلق اہل علم کے اقوال کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے اقوال حرمت وکراہت کے درمیان دائر ہیں یعنی بعض کا خیال ہے کہ طواف قبر ایک حرام وسیله ہے جس کے کرنے والے کو گناہ ہوتا ہے اور بعض کا خیال ہے کہ اس سے مسلمان کو پرہیز کرنا ہی پسندیدہ ہے لیکن اگر کر بھی لیا تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے اور کراہت کا قول ہی حنبلی حضرات کے پاس قابل اعتماد ہے جیسا کہ ان کے خاتم المحققین علامہ بھوتی کی کتاب کشف القناع میں مذکور ہے اور حرمت کا قول جمہور کا قول ہے اور یہی مفتی بہ ہے .
الغرض ان مسائل میں شرک وکفر کو گھسیٹنا –جیسا کہ بہت سارے لوگ رٹ لگاتے ہیں- کوئی معنی نہیں رکھتا ہے مگر صرف اور صرف یہ فرض کر لینے کی صورت میں کہ مدد طلب کرنے والا صاحب مزار کو پوجتا ہے یا یہ مانتا ہے کہ وہ بذات خود نفع اور نقصان دے سکتا ہے ، یا یہ عقیده رکھتا ہے کہ قبر کا طواف بھی بیت اللہ کے طواف کی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ عبادت ہے اور یہ سب کے سب بہت دور کی کوڑی ہیں اہل علم ایک مسلمان کے فعل کو اس پر محمول نہیں کرسکتا جیساکہ مذکور ہوا ، کیونکہ ہم نے مسئلہ یہ فرض کیا ہے کہ ایک مسلمان جو قبر کا طواف کرتا ہے نہ غیر مسلم .
سہی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو ان جیسے مسائل میں الجھنا نہیں چاہئے اور نہ ان جیسے موضوعات کی وجہ ایک دوسرے پر بات کی تلوار بے نیام کی جانی چاہئے ورنہ بغیر جنگ کے جہاد کرنے کے مترادف ہوگا ، اس سے ہمارے بیچ میں فرقہ بندی پنپے گی اور کوششیں رائگاں ہوں گی اور ہم تعمیر معاشرہ اور تعمیر اتحاد امت سے غافل رہ جائیں گے .
ہم اللہ تعالیٰ سے دست بہ دعا ہیں کہ مسلمانوں کے دلوں کو کتاب و سنت پر جمع فرمائے ، اور دین اور مراد الہی کا بہتر سے بہتر سمجھ عطا فرمائے .
اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ بہتر جاننے والا ہے .
 

Share this:

Related Fatwas