روضۂ انور کے اندر نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ
Question
ایک سائل پوچھتا ہے: کچھ لوگ نبی اکرم ﷺ کی روضۂ اطہر میں حیات کا انکار کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کے وصال کے بعد اُمت کو آپ ﷺ سے کوئی نفع نہیں پہنچتا۔ تو اس کا کیا جواب دیا جائے؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنے روضۂ اطہر میں زندہ ہیں۔ حافظ شمس الدین سخاوی رحمہ اللہ اپنی کتاب "القول البديع في الصلاة على الحبيب الشفيع ﷺ" (ص: 172، طبع: مؤسسة الريان میں فرماتے ہیں: اور ہم ایمان رکھتے ہیں اور تصدیق کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں اور انہیں رزق دیا جاتا ہے، اور آپ ﷺ کے مقدس جسم کو زمین نہیں کھائے گی، اور اس پر اجماع ہے۔
امام سیوطی رحمہ اللہ نے انپی کتاب "الحاوي للفتاوي " کے ضمن میں "إنباء الأذكياء بحياة الأنبياء" (2/178، طبع: دار الفكر میں فرمایا: نبی اکرم ﷺ کی اور دیگر تمام انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام کی قبر میں حیات ہمارے نزدیک قطعی طور پر معلوم ہے، کیونکہ اس بارے میں ہمارے پاس مضبوط دلائل ہیں اور اس پر متواتر احادیث موجود ہیں۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی انبیاء علیہم الصلاة والسلام کی قبروں میں زندہ ہونے پر ایک کتاب تحریر کی ہے۔"
اور نبی اکرم ﷺ کی اُمت کے لیے نفع رسانی دنیاوی حیات، برزخی حیات اور اخروی حیات میں یکساں ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے اپنی حیات برزخ میں اُمت کے لیے استغفار فرمانے کی خبر دی ہے، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: ''میری حیات تمہارے لیے خیر ہے؛ تم اعمال کرتے ہو اور تمہارے حق میں وحی نازل ہوتی ہے، اور میری وفات بھی تمہارے لیے خیر ہے؛ تمہارے اعمال مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں، پس جو نیک عمل دیکھتا ہوں، اس پر اللہ کی حمد کرتا ہوں، اور جو بُرا عمل دیکھتا ہوں، تو تمہارے لیے اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں۔" اس حدیث کو امام اسماعیل القاضی نے "فضل الصلاة على النبي ﷺ" میں، حارث بن أبو أسامة اور بزار نے "مسند" میں، اور دیلمی نے "مسند الفردوس" میں روایت کیا ہے۔
متعدد حفاظ محدثین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے، جن میں امام نووی، ابن التین، قرطبی، قاضی عیاض اور حافظ ابن حجر شامل ہیں اور امام سیوطی نے"الخصائص الكبرى" میں، علامہ مناوی نے "فيض القدير" میں، ملا علی قاری اور علامہ خفاجی نے "شرح الشفا" میں، اور علامہ زرقانی نے "شرح المواهب" میں روایت کیا ہے اور حافظ عراقی نے "طرح التثريب" میں فرمایا: اس کی سند جید ہے، جبکہ حافظ ہیثمی نے "مجمع الزوائد" میں فرمایا: اس کے راوی صحیح بخاری کے راوی ہیں۔ اسی حدیث صحیح قرار دیتے ہوۓ حافظ عبداللہ الغماری نے "نهاية الآمال في شرح وتصحيح حديث عرض الأعمال" کے نام سے ایک مستقل رسالہ بھی تصنیف کیا ہے۔
امام ابن الحاج المالکی رحمہ اللہ "المدخل" (1/259، طبع: دار التراث میں فرماتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کی وفات اور حیات میں کوئی فرق نہیں؛ یعنی آپ ﷺ اپنی اُمت کو دیکھ رہے ہیں، ان کے احوال، نیتوں، ارادوں اور خیالات کو جانتے ہیں، اور یہ سب کچھ آپ ﷺ کے ہاں بالکل واضح اور جلی ہے، اس میں کوئی ابہام نہیں۔۔۔ پس آپ ﷺ کے وسیلے سے دعا کرنا ایک ایسا عمل ہے جو اُمت کے گناہوں اور خطاؤں کے بوجھ اُتارنے کا ذریعہ ہے، اسلئے کہ آپ ﷺ کی شفاعت کی برکت اور عظمت اللہ کے ہاں اس قدر بلند ہے کہ کوئی بھی گناہ اس کے مقابلے میں بڑا نہیں ہو سکتا، کیونکہ اللہ تعالی کے ہاں نبی ﷺ کی شفاعت تمام گناہوں کے مقابلے میں عظیم تر ہے۔
اسی بیان سے سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.