حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم، ...

Egypt's Dar Al-Ifta

حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم، اہل بیت اور اولیائے کرام کا جشن میلاد منانے کا حکم

Question

استفتاء پر ہم مطلع ہوئے جو حسب ذیل سوال پر مشتمل ہے:

حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، اہل بیت اور اولیائےکرام کا جشن میلاد منانے کا کیا حکم ہے؟

Answer

حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش در حقیقت پوری بشری تاریخ کےلئے رحمت الٰہی کا ایک جلوہ ہے. چنانچہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے وجود کو قرآن کریم نے ''رحمۃ للعالمین '' - تمام کائنات کے لئے رحمت - قرار دیا ہے. اور یہ رحمت لا محدود ہے اس کی کوئی حد نہیں بلکہ پوری انسانیت کی تعلیم و تربیت ، ان کی پاکی و ستھرائی ، اور سیدھی راہ کی طرف ہدایت ، مادی اور روحانی زندگی کی ترقی یہ سب کے سب اسی رحمت کے حصے ہیں. نیز یہ رحمت صرف اُسی زمانے والوں کے ساتھ خاص نہیں تھی بلکہ سارے زمانوں کے لئے ہے ۔ قرآن مجید میں آیا ہے: (وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ) - اور ان میں سے اوروں کو پاک کرتے اور علم عطا فرماتے ہیں، جو ان اگلوں سے نہ ملے اور وہی عزت و حکمت والا ہے - [ سورہ جمعہ: ٣].

دونوں عالم کے سردار ، نبیوں اور رسولوں کے خاتم ، رحمت والے نبی اور امت کے مدد گار ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت کا جشن منانا بہترین اعمال اور عظیم ترین نیکیوں میں سے ہے. کیونکہ یہ جشن حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت اور ان کی آمد پر خوشی کے اظہار کا ایک طریقہ ہے. اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت ایمان کی بنیاد ہے . چنانچہ صحیح روایت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ''تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ اور اس کی اولاد اور سارے لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں''. اس حدیث کی روایت امام بخاری نے کی ہے.

علامہ ابن رجب فرماتے ہیں: ''حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت ایمان کی بنیاد ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت اللہ بزگ و برتر کی محبت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہی ان کی محبت کو اپنی محبت کے ساتھ ملایا ہے ،اور ايسے شخص پر وعید فرمائی ہے جو کسی بھی دنیاوی محبوب چیز کی محبت کو اللہ و رسول کی محبت پر فوقیت دے ، مثال کے طور پر رشتہ داروں کی محبت یا مال کی محبت یا وطن کی محبت یا اس کے علاوہ کسی اور چیز کی محبت كو اگر فوقیت دے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ( قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُم وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّى يَأْتِيَ اللّهُ بِأَمْرِهِ) – اے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرما دیجیے اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہاری برادری اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ تجارت جس کے ٹھپ پڑنے کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے من پسند مکانات ، یہ چیزیں تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اسکے راستے میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیجے - [سورہ توبہ: ٢٤].

چنانچہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بارگاہ میں عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! یقینا آپ مجھے میری جان کے علاوہ تمام چیزوں سے زیادہ عزیز ہیں تو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، نہیں! قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس وقت تک نہیں جب تک میں تمہیں تمہارے جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں''، تو حضرت عمر نے آ پ صلی اللہ علیہ و سلم کی بارگاہ میں عرض کیا! بخدا اب آپ مجھے میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں، تو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : "اے عمر!اب تمھارا ایمان کامل ہو کیا ''. امام بخاری نے اس حدیث کی روایت کی ہے . یہاں تک علامہ ابن رجب کی عبارت ختم ہوتی ہے.

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عزت و تعظیم کرنے کا نام ہی میلاد منانا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عزت و تعظیم کرنا بلا شک و شبہ جائز ہے کیونکہ یہ عمل اصل الاصول اور بنیادوں کی بنیاد ہے، اللہ سبحانہ و تعالی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی عزت کرنا سکھایا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے پورے وجود کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اسم گرامی اور آپ کی بعثت اور آپ کی قدر و منزلت سے روشناس کرایا . اس طرح سے سارا عالم اللہ کے اس نور اور اسکی اس رحمت اور تمام عالموں پر اسکی اس نعمت اور دلیل پر دائمی خوشی اور مطلق شادمانی میں مسرور ہے ۔ .

چوتھی اور پانچویں صدی ہجری سے ہمارے نیک اسلاف میلاد رسول اعظم صلی اللہ علیہ و سلم مناتے آئے ہیں، شب میلاد میں کھانا کھلانا ، قرآن کی تلاوت کرنا، ذکر و اذکار کرنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں شعر اور نعتیہ قصیدے پڑھنا جیسے مختلف نیک کاموں کی صورت میں منایا جاتا رہا ہے. جیسا کہ کئی مؤرخین نے اس بات کا تذکرہ کیا ہے ۔ حافظ ابن جوزی ، ابن کثیر ، حافظ ابن دحیۃ اندلسی ، حافظ ابن حجر اور حافظین حدیث کے خاتم علامہ جلال الدین سیوطی رحمہم اللہ تعالی. اس كے علاوه علماء و فقہاء کی ایک جماعت نے جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم کے استحباب کے بارے میں مستقل تصنیفیں لکھی ہیں اور ٹھوس دلائل سے اس عمل کا استحباب ثابت کیا ہے، ان دلائل کے بعد تھوڑی بھی سوجھ بوجھ رکھنے والے یا صحیح سوچ والے کے لئے ہمارے اسلاف کے مذہب اور جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم کے جواز کے انکار کی گنجائش باقی نہیں رہتی، چنانچہ ابن حاج نے تو ''المدخل'' میں اس جشن کی خوبیوں کے اثبات میں ایک طویل گفتگو فرمائی ہے اور اس بارے میں ایسی پر مغز گفتگو کی ہے جس سے اہل ایمان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے. یاد رہے کہ ابن حاج نے اپنی کتاب ''المدخل'' نو پیدا اور شرعی دلیل سے عاری بدعات کی برائی بیان کرنے کے لئے لکھی ہے.

عربوں کی زبان میں " الاحتفال " - جشن منانا – " حفل اللبن فی الضرع یحفل حفلا وتحفل واحتفل " - تھن میں دودھ کا جمع ہونا - سے ماخوذ ہے، اور " باب ضرب " سے کہا جاتا ہے " حفل القوم " - لوگ جمع ہوئے - و عندہ حفل من الناس ۔ یعنی اس کے پاس لوگوں کی ایک بھیڑ ہے-، اور یہ " حفل " اصل میں مصدر ہے۔ اور کہا جاتا ہے " محفل القوم و محتفلھم " یعنی لوگوں کا اجتماع ، اسی طرح عربی زبان میں حفلہ فتحفل و احتفل کہا جاتا ہے یعنی قلعی کر کے زنگ کو دور کیا اور زنگ دور ھو گئی، " و حفل کذا " یعنی فلاں چیز کا اہتمام کیا ، اور کہا جاتا ہے "لا تحفل بہ " ، یعنی اس کا اہتمام مت کر ۔ .

لفظ " احتفال " – جشن - سے جو معنی یہاں مراد لیے جاتے ہيں مذکورہ بالا لغوی معنی سے ملتے جلتے ہی ہيں کیونکہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم کے جشن میں بھی اجتماع ہوتا ہے اور اپنے آقا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کا اظہار اور ان کا ذکر جمیل ہوتا ہے ، انکی تعریفیں اور خوبیاں بیان کی جاتی ہیں کچھ نعتیہ شعر و شاعری بھی ہوتی ہے، اور اللہ تعالیٰ کے نام پر کھانا کھلایا جاتا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد مسعود کے دن خوشیوں کا اظہار ہوتا ہے . کچھ لوگوں کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ ایسی محفلیں ہم سے پہلے کی با برکت صدیوں میں نہیں تھیں، اور بخدا ! اتنی سی بات اس عمل کی ممانعت کیلئے کافی نہیں ہو سکتی اور کوئی عقلمند اور باشعور آدمی اس حقیقت میں شک نہیں کر سکتا کہ اسلاف ۔ رضی اللہ عنہم ۔ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد پر خوشیاں مناتے تھے . ہاں خوشی منانے اور اظہار مسرت کے طریقے مختلف ہوتے ہیں ، لیکن طور طریقے اور انداز باعث حرج نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ طور طریقے بذات خود عبادت نہیں ہیں. اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر خوشی منانا عبادت ہے اور بہت ہی اچھی عبادت ہے! اس خوشی کے اظہار کرنے کا طریقہ مباح ہے ، اور ہر انسان کا اس میں اپنا اپنا طور و طریقہ ہوتا ہے جس کو وہ اختیار کرتا ہے ۔ .

سنت پاک میں ایسے واقعات مذکور ہیں جن میں اس بات کی دلالت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خوشی منائی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عمل کو قبول کیا اور اس کی اجازت دے دی، چنانچہ حضرت بریدۃ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک غزوہ کے لئے نکلے، جب واپس تشريف لائے تو ایک سیاہ فام لونڈی خدمت میں آئی اور عرض کیا، اے اللہ کے رسول، میں نے یہ نذر مانی تھی کہ جب آپ کو اللہ صحیح سلامت لوٹا دے تو میں آپ کے سامنے دف بجاتے ہوئے گانا گاؤں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا: '' اگر تم نے نذر مانی تھی تو بجاؤ، اگر نہیں تو مت بجاؤ''. اس کی روایت امام احمد اور امام ترمذی نے کی ہے ۔ امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے. جب حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک غزوہ سے لوٹنے کی خوشی میں دف بجانا جائز ہے جس کو نذر پورا کرنے کے باب میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے روا رکھا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دنیا میں آنے کی خوشی میں " دف " اور دیگر مباح طریقوں سے اظہار کرنا بدرجہ اولی جائز ہے اور مستحب ہے ۔ .

مقام غور ہے کہ جب خود اللہ تعالی ابو لہب سے عذاب کی تخفیف فرماتا ہے۔ اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ وہ کفر و عناد ، اللہ تعالى اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف لڑائی میں کس قدر سخت تھا۔ لیکن خیر البشر کی پیدائش پر خوشی منانے کی وجہ سے اس کے عذاب میں نرمی ہوتی ہے اور اسے ہر پیر کے روز جہنم میں ہتھیلی کے شگاف سے پلایا جاتا ہے کیونکہ اس نے اپنی لونڈی ثویبہ کو اس وقت آزاد کر دیا تھا جب اس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش کی خوشخبری اسکو سنائی تھی ،جیسا کہ صحیح بخاری میں اس كا تذكره آیا ہے.

اب ذرا خیال کیجئے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی میلاد پاک کی خوشی اور سارے عالم پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی جلوہ افروزی پر ایمان والوں کی خوشیاں منانے پر پروردگار عالم کے ثواب کا عالم کیا ہوگا!، مزید یہ کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بنفس نفیس ہمارے لیے اپنی پیدائش پر شکر کرنے کی ایک اصولی سنت قائم فر مادی ہے، چنانچہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سوموار کے دن روزہ رکھا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: ''یہ وہ دن ہے جس میں میں پیدا ہوا ہوں''۔ امام مسلم نے اس حدیث کی ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ روزہ در حقیقت اللہ تعالی کے اس احسان کے شکریے میں تھا جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے وجود مسعود سے خود آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حاصل ہوا اور جس سے آپکی امت بھی سرفراز ہوئی. اس لئے امت کا یہ زیادہ حق بنتا ہے کہ مصطفوی نعمت سے نوازے جانے پر ہر قسم کے شکر بجا لائیں، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کی اقتدا کریں ، کھانا کھلائیں، نعت خوانی کریں، ذکر کے لئے جمع ہوں، روزہ رکھیں اور شب بیداری وغیرہ کریں. ہر برتن سے وہی ٹپکتا ہے جو اس کے اندر ہوتا ہے. حضرت صالحی نے سیرت نبوی کے بارے میں اپنے ممتاز دیوان ''سبل الہدی و الرشاد فی ہدی خیر العباد'' میں اپنے زمانے کے ایک بزرگ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب میں دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ شکایت کی کہ بعض نام نہاد علماء میلاد شریف منانے کو بدعت قرار دیتے ہیں، تو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا جو ہم سے خوش ہوتا ہے ہم اس سے خوش ہوتے ہیں.

یہی حکم اہل بیت عظام اور نیکو کار اولیائے کرام کی میلاد منانے اور مختلف طریقوں سے ان کی یاد منانے کا بهى ہے، کیونکہ یہ شرعی لحاظ سے مرغوب فیہ ، امر ہے اس یاد منانے میں ان کی پیروی اور ان کی راہ پر گامزن ہونے کی ترغیب ہے، چنانچہ شریعت میں حضرات انبیاء كرام اور نیکوکارں کو یاد کرنے کا حکم بھی آیا ہے اللہ تعالی فرماتا ہے: ( وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ) - اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو- [ مریم ٤١]، نيز فرماتا ہے: (وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مُوسَى) - اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو - [ مریم: ٥١]، اور یہ حکم صرف انبیاء کرام کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ نیکو کاروں کے بارے میں بھی آیا ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے: (وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ)- اور کتاب میں مریم کو یاد کرو - [مریم: ١٦]، اور یہ بات محققین کے نزدیک مسلم ہے کہ حضرت مریم ولیہ تھیں نبی نہیں تھیں، اسی طرح شریعت میں یہ حکم آیا ہے کہ اللہ کے دن یاد کیا کرو اللہ تعالی فرماتا ہے: (وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللّهِ) - اور انہیں الله کے دن یاد دِلا - [ابراھیم: ٥]، اور اللہ کے ایام میں ایام میلاد اور ایام فتح بھی شامل ہیں، اسی لئے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہر ہفتے میں سوموار کے دن روزہ رکھا کرتے تھے تاکہ پیدا فرمانے پر اللہ کا شکر ادا کریں اور اپنے میلاد کی یاد تازہ کریں جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں حضرت ابو قتادہ انصاری کی روایت سے وارد ہے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت موسی علیہ السلام کی نجات پانے کی خوشی منانے کے سلسلے میں عاشوراء کے دن بھی روزہ رکھتے تھے اور اس کا روزہ رکھنے کی ترغیب بھی دیتے تھے، اللہ تعالی نے ولادت کے دن کو اپنی کتاب میں انبیاء کرام کے واسطے سے عزت بخشی ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے: (وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ) - اور سلامتی ہے اس پر جس دن پیدا ہوا- [مریم: ١٥]، اور اللہ تعالی نے حضرت عیسی علیہ و علی نبینا افضل الصلاۃ و ازکی التسلیم کی زبانی فرمایا:(وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ) - اور وہی سلامتی مجھ پرجس دن میں پیدا ہوا- [مریم: ٣٣]، کیونکہ ولادت کے دن نعمت پیدائش ظہور میں آتی ہے اور انسان کو اس کے بعد جو بھی نعمت حاصل ہوتی ہے وہ اسی پیدائش کے بدولت ہوتی ہے، اسی لئے اس کو یاد کرنا اور اس کی یاد دلانا اللہ تعالی کی نعمتوں پر شکر کے باب سے ہے، اگر نیکو کار اولیاء کرام کی یاد کے لئے دن متعین کیا جائے تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے، اگر بعض مجلسوں میں کچھ حرام امور واقع ہوتے ہوں تو ان کا اثر اس جواز پر نہیں پڑتا ، بلکہ یہ محفلیں بھی منائی جائیں اور جو منکرات ان میں واقع ہوتے ہوں ان سے منع بھی کیا جائے، اور ان لوگوں کو ان منکرات کی مخالفت پر متنبہ کیا جائے اور جس غرض سے یہ مجالس منائی گئی ہیں اس كى طرف متوجہ كيا جائے.

و اللہ سبحانہ و تعالی اعلم.
 

Share this:

Related Fatwas