قربانی کی حقیقت اور اس کی مشروعیت ک...

Egypt's Dar Al-Ifta

قربانی کی حقیقت اور اس کی مشروعیت کی حکمتیں

Question

بابت سال ٢٠٠٤ مندرج استفتاء پر ہم مطلع ہوئے جو حسب ذیل سوال پر مشتمل ہے:

قربانی کی حقیقت کیا ہے؟، اس کا فلسفہ کیا ہے؟، اور کیا قربانی واجب ہے؟

Answer

قربانی کی تعریف: مخصوص شرائط کے ساتھ قربانی کے دنوں میں اللہ تعالی کی رضامندی حاصل کرنے کی غرض سے حلال جانور ذبح کرنے کو قربانی کہا جاتا ہے. لہذا جو جانور اللہ تعالیٰ کے تقرب کے حصول کے لئے نہ ہوں وہ قربانی نہیں کہلائیں گے، مثال کے طور پر وہ جانور جو بیچنے یا کھانے یا مہمان نوازی کے لئے ذبح کیے جاتے ہیں، یا جو جانور ان مخصوص دنوں کے علاوہ دوسرے دنوں میں اگر چہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے بھی ذبح کیے جاتے ہوں تو وہ بھی قربانی میں شمار نہیں ہوں گے، اسی طرح وہ جانور بھی قربانی کی تعریف میں نہیں آتا ہے جو نو زائد بچے کے عقیقہ کے طور پر ذبح کیا جاتا ہے، اور قربانی کی تعریف سے وہ جانور بھی خارج ہے جو حج تمتع اور حج قران میں ھدی کے طور پر ذبح کیا جاتا ہے، اسی طرح حج کے واجبات میں کوتاہی یا ممنوع افعال کے ارتکاب کے کفارے کے طور پر جو جانور ذبح کیا جاتا ہے وہ بھی قربانی کی تعریف میں داخل نہیں ہے، اور جو جانور محض حرم اور اس کے غریبوں کے ہدیہ کے لئے ذبح کیا جاتا ہے وہ بھی قربانی کے مفہوم میں شامل نہیں ہے.
قربانی کو عربی زبان میں اُضحیہ کہا جاتا ہے اور اس کی جمع اضاحی ہے، یا ضحیہ کہا جاتا ہے اور اس کی جمع ضحایا ہے، یا اضحاۃ کہا جاتا ہے جس کی جمع اضحی ہے اور اسی وجہ سے اس عید کو عید الاضحی یعنی قربانی کی عید کا نام دیا گیا ہے ، اور اسے عید الاضحیٰ اس لئے بھی کہا جاتا ہے کہ قربانی چاشت کے وقت کی جاتی ہے.
قربانی کا مقصد یہ ہے کہ انسان اس کے ذریعہ ذی الحجہ کے مبارک ایام کی آمد اور اپنی زندگی کی نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے، جس طرح اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسماعیل علی نبینا و علیھما الصلاۃ و السلام کی زندگی بچ جانے، اور ان ایام مبارکہ کے پانے اور ان میں نیک کاموں کی توفیق پر اللہ تعالی کا شکر کرتے ہوئے ایک عظیم بھیڑ ذبح فرمایا تھا، کیونکہ یہ ایام سال کے ایسے بہترین دن ہیں جن کی اللہ عز و جل نے قرآن مجید میں قسم کھائی ہے چنانچہ ارشاد فرمایا: (وَالْفَجْرِ ه وَلَيَالٍ عَشْرٍ) – اس فجر کی قسم، اور دس راتوں کی قسم - [سورہ فجر: ١،٢]، اور ان ایام کی شان میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ''بھلائی کرنے کے دنوں میں سے اللہ عز و جل کو ان دنوں سے زیادہ کوئی دن پسند نہیں ہیں''. یعنی ذی الحجہ کے دس دنوں سے، صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ، اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد بھی اتنا محبوب نہیں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ''نہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد اتنا محبوب ہے مگر یہ کہ ایک آدمی اپنی جان اور مال لے کر نکلے اور پھر دونوں کو لٹا کے آجائے''. امام بخاری وغیرہ نے حضرت ابن عباس سے اس کی روایت کی ہے.
دین اسلام اپنے پیروکاروں کو یہ درس دیتا ہے کہ ان کی خوشیاں اللہ تعالیٰ کے لئے ہوں اور ان کی خوشیاں اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہوں اور اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں پر ہوں، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: (قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ) – فرما دیجئے اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت کے باعث ہے اور انہیں اسی پر خوشی منانی چاہئے وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے - [سورہ یونس: ٥٨]، عید الفطر اور عید الاضحی ان دونوں کا مقصد در اصل اللہ تعالیٰ کی طاعت اور اس کی توفیق اور رضامندی پر خوشی منانا ہے، تاکہ مسلمان اس بات کا عادی ہو جائیں کہ ان کی خوشی بھی اللہ تعالیٰ کے لئے ہو اور ان کا غم بھی اللہ تعالیٰ کے لئے ہو اسی طرح ان کی داد و دہش بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر ہو اور ان کا روکنا بھی اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ہو، وہ اللہ کے لئے جییں اور اسی بزرگ و برتر کے لئے مریں.
قربانی کا ثبوت قرآن ، سنت اور اجماع میں موجود ہے: اللہ تعالی فرماتا ہے: (فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ) -پس اپنے پروردگار کے لئے نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے- [ سورہ کوثر: ٢]،اس آیت کی تفسیر میں آیا ہے: عید کی نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے: یعنی اونٹ، گائے وغیرہ کی قربانی کیجئے، اور اس بارے میں قولی اور فعلی دونوں سنتیں وارد ہیں: چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''جو شخص استطاعت رکھنے کے باوجود بھی قربانی نہ کرے وہ ہمارے عید گاہ کے قریب بھی نہ پھٹکے''.اس حدیث کی ابن ماجہ اور حاکم نے روایت کی ہے اور حاکم نے صحیح کہا ہے، اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ حضرت نبی کریم ۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ نے دو سرخی مائل سفید رنگ کے اور سینگ دار بکروں کی قربانی کی، دونوں کو اپنے دست مبارک سے ذبح فرمایا، اللہ تعالیٰ کا نام پاک لیا اور تکبیر کہی، اور اپنے پاؤں مبارک ان بھیڑوں کی گردنوں کے سرے پر رکھا. اس کی روایت امام مسلم نے کی ہے.
چنانچہ مسلمانوں کا اس کی مشروعیت پر اجماع ہے. اور جہاں تک اس کے حکم کا تعلق ہے تو جمہور کی رائے میں یہ عمل سنت مؤکدہ ہے - یعنی اس کے چھوڑنے پر گناہ نہیں ہے - لیکن اس کے ترک کرنے سے مسلمان بڑے خیر سے محروم رہ جاتا ہے، اگر قربانی کرنے کی استطاعت ہے تو، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''اللہ تعالی کو قربانی کے دن انسان کا کوئی عمل اتنا پسند نہیں ہے جتنا خون بہانے کا عمل پسند ہے، بے شک وہ قیامت کے دن اپنے سینگوں اور بال اور کھروں کے ساتھ آئے گی. اور خون قبل اس کے کہ زمین پر گرے اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہو جاتا ہے، اس لئے قربانی خوش دلی سے کیا کرو''.اس حدیث کی ابن ماجہ اور ترمذی نے روایت کی ہے اور ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن غریب ہے اور حاکم نے بھی اس کی روایت کی اور صحیح کہا ہے. اور بعض اہل علم اس عمل کو واجب سمجھتے ہیں، انہیں میں امام ابو حنیفہ بھی شامل ہیں اور امام مالک کا بھی ایک قول ایسا ہے. لیکن جن حضرات نے اس عمل کو سنت قرار دیا ہے ان میں سے بعض نے اسے سنت عین کہا ہے جو صرف ایک شخص کے کرنے سے باقی لوگوں سے بھی ادا ہو جاتی ہے، اور بعض نے یہ کہا کہ یہ عمل تنہا شخص کے حق میں سنت عین ہے لیکن عیالدار شخص کے حق میں سنت کفایہ ہے۔ یہی رائے شافعی اور حنبلی حضرات کی ہے، اور اسی رائے کے ہم بھی قائل ہیں۔ لہذا ایک شخص اپنے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے ایک بکری قربانی کر سکتا ہے چنانچہ حضرت ابو ایوب انصاری نے فرمایا : "ہم لوگوں کا حال یہ تھا کہ ایک شخص اپنی اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے ایک بکری ذبح کرتا تھا لیکن اس کے بعد لوگوں میں دیکھا دیکھی کا جذبہ عام ہوا اور قربانی بڑائی کے اظہار کا سامان بن گیا". اس روایت کو امام مالک نے ذکر کیا ہے اور امام نووی نے مجموع میں اسے صحیح کہا ہے. اہل خانہ میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جن کے نان و نفقہ کا آدمی ذمہ دار ہوتا ہے. اور اس عمل کے سنت کفایہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص کے کر دینے سے باقی افراد خانہ سے اس کا مطالبہ ساقط ہو جائے گا، مگر اس کے ثواب میں وہ تمام افراد شریک نہیں ہونگے لیکن اگر قربانی کرنے والے نے ثواب میں ان کی شرکت کی نیت کی ہو تو وہ سب ثواب میں بھی شریک ہونگے.

باقى اللہ سبحانہ و تعالی بہتر جاننے والا ہے.
 

Share this:

Related Fatwas