نماز کے بعد مصافحہ کرنے کا حکم

Egypt's Dar Al-Ifta

نماز کے بعد مصافحہ کرنے کا حکم

Question

سال ٢٠٠٥ء مندرج استفتاء پر ہم مطلع ہوئے جو مندرجہ ذیل سوال پر مشتمل ہے:

کیا نماز کے بعد نمازیوں کا مصافحہ کرنا تکمیل نماز میں شامل ہے؟ یا یہ عمل مکروہ ہے؟ یا يہ بدعت ہے؟.

Answer

نماز کے بعد مصافحہ کا حکم مباح اور مستحب کے درمیان دائر ہے، لیکن کرنے والے کا یہ اعتقاد رکھنا درست نہیں کہ نماز کی تکمیل اس عمل پر منحصر ہے یا یہ سمجھنا کہ یہ عمل حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی وارد سنتوں میں سے ہے. اس عمل کو مستحب کہنے والے علماء کرام اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جسے حضرت امام بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے، چنانچہ حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا: ''حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم دوپہر کے وقت بطحاء کی طرف نکلے، پھر آپ نے وضو فرمایا، اس کے بعد ظہر کی دو رکعت پڑھی ، اور عصر بھی دو رکعت پڑھی اور ان کے سامنے عنزۃ یعنی ایک نیزہ تھا، اس کے بعد لوگ اٹھے اور آپ کے ہاتھوں کو لینے لگے،اور ان کو اپنے چہروں پر پھیرنے لگے''. ابو جحیفہ نے کہا: ''پس میں نے بھی انکا دست مبارک لیا اور اپنے چہرے پر رکھا، تو وہ برف سے زیادہ ٹھنڈا اور مشک سے زیادہ معطر تھا''. محب طبری [متوفی٦٩٤ھ]کہتے ہیں:'' اور جماعت کے ساتھ نمازوں کے بعد جو مصافحہ پر لوگوں کا رواج ہے خاص طور پر عصر اور مغرب کے بعد ، تو اس عمل پر اس حدیث سے استدلال ہو سکتا ہے ، خصوصا اگر نیک ارادہ سے اور حصول برکت کےلئے ہو یا الفت و محبت کے فروغ کے خاطر ہو''.

امام نووی[متوفی ٦٧٦ھ] نے ''المجموع'' میں یہ قول اختیار کیا ہے کہ اس شخص سے مصافحہ کرنا مباح ہے جو نماز سے پہلے بھی ساتھ رہا ہو ، اور اس شخص سے مصافحہ کرنا سنت ہے جو نماز سے پہلے ساتھ نہ رہا ہو، نیز وہ '' الاذکار'' میں تحریر فرماتے ہیں: ''معلوم ہونا چاہئے کہ مصافحے کا یہ عمل ہر ملاقات پر مستحب ہے، لیکن فجر اور عصر کی نماز کے بعد جو مصافحہ کرنے کا رواج لوگوں میں عام ہے اس کی اس طور پر شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے،تاہم اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے، کیونکہ مصافحہ کی تو اصل سنت سے ثابت ہے، اور لوگوں کے کبھی اس عمل کے پابند رہنے اور کبھی یا عموما اس کے ترک کر دینے سے مصافحے کی مشروعیت پر کوئی حرف نہیں آتا ہے کیونکہ اس کی اصل شریعت میں موجود ہے اس لئے اس کی مشروعیت زائل نہیں ہو سکتی''. پھر انہوں نے امام عز بن عبد السلام[متوفی ٦٦٠ ھ] کا قول نقل کیا ہے کہ فجر کی نماز اور عصر کی نماز کے بعد مصافحہ کرنا مباح بدعتوں میں سے ہے. اور بعض علماء نے نماز کے بعد جو مصافحہ کی کراہت کا قول اختیار کیا ہے در حقیقت انکے پیش نظر یہ بات تھی کہ اس پر دائمی عمل کی وجہ سے کہیں عام لوگو اسے نماز کا تکملہ نہ سمجھ بیٹھیں یا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے وارد شدہ سنتوں میں شامل نہ کر دیں. اور اس عمل کو جنہوں نے مکروہ قرار دیا ہے انہوں نے یہ تصریح بھی فرما دی۔ جیسا کہ ابن علان نے'' المرقاۃ'' سے نقل کیا ہے۔ ''اگر کوئی مسلمان مصافحہ کے لیے اپنا ہاتھ بڑھائے تو ہاتھ کھینچ لینا یا اعراض کرنا جائز نہیں ہے، چونکہ اس میں مسلمانوں کے دل توڑنے اور ان کے جذبات مجروح کرنے کی بات ہے، اور ان کے نزدیک ان خامیوں کو دور کرنا مقدم ہے اور ادب کی رعایت پر اسے فوقیت حاصل ہے ، اور پھر شریعت کا یہ طے شدہ قاعدہ ہے کہ اسباب فساد کو دور کرنا مصلحتوں کے حاصل کرنے پر مقدم ہے.

لہذا مصافحہ اپنے اصل کے لحاظ سے شریعت پاک میں جائز ہے، اور نماز کے بعد کی تخصیص سے اس کی اصلی مشروعیت زائل نہیں ہوتی، اس لئے یہ عمل علماء کے دو اقوال میں سے ایک قول کے مطابق مباح اور مستحب ہے ۔ جیسا کہ امام نووی کی تفصیل میں وارد ہے، لیکن یہ یاد رہنا چاہئے کہ مصافحہ نماز کا تکملہ نہیں ہے اور نہ ہی نماز کی ان سنتوں میں سے منقول ہے جن پر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے پابندی کے ساتھ عمل فرمایا ہو ، اور جن حضرات سے اس کی کراہت کا قول نقل کیا گیا ہے انہوں نے اسی چیز کو ملحوظ رکھا، اس لیے ان کے پاس کراہت اس اعتقاد میں ہو گی اصل مصافحہ میں نہیں، لیکن اس شخص پر لازم ہے جو کراہت کے قول پر عمل کرنا چاہتا ہو کہ اس مسئلے میں اختلاف کرنے کا ادب ملحوظ رکھے،اور مسلمانوں کے درمیان نماز کے بعد نمازیوں میں سے اس کی طرف ہاتھ بڑھانے والے کو مصافحہ کرنے سے منع کر کے فتنہ پھیلانے اور تفرقہ اور کینہ ڈالنے سے باز رہے ، اور جاننا چاہئے کہ مسلمانوں کی دلجوئی کرنا، اور ان میں الفت پھیلانا، اور ان کو متحد کرنا اللہ تعالی کے ہاں زیادہ محبوب ہے اور یہ ادب اس فعل کی رعایت کرنے سے زیادہ عزیز ہے جس کے بارے میں چند علماء سے کراہت نقل کی گئی ہو جب کہ ان میں سے بھی محققین نے اس کو مباح و مستحب ہى کہا ہے.و اللہ سبحانہ و تعالی أعلم.
 

Share this:

Related Fatwas