ذبح هدي المتمتع قبل يوم النحر

Egypt's Dar Al-Ifta

ذبح هدي المتمتع قبل يوم النحر

Question

کسی آدمی نے حج تمتع کی قربانی عمرہ مکمل ہونے کے بعد یوم نحر سے پہلے ہی کردی ۔ ہم نے اسے روکا تو اس نے ہمیں بتایا کہ اس نے کسی عالم دین سے پوچھا تھا تو نے اسے جائز کہا تھا اسی وجہ سے اس نے یوم نحر سے پہلے کی ہے۔ تو کیا یہ طریقہ صحیح ہے؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ و السلام علی رسول اللہ و آلہ وصحبہ و من والاہ۔۔۔ وبعد: حج تمتع کرنے والا قربانی اسلئے کرتا ہے کہ وہ ایک ہی سفر میں دو عبادتوں کا فائدہ حاصل کرتا ہے اور مسلمان عید اضحی یا ایام تشریک میں ہی اپنے قربانی کے جانور ذبح کرتے ہیں اسی وجہ سے اگر کوئی اس عمل کی خلاف ورزی کر دے تو بغیر تحقیق کئے اسے غلط قراردے دیتے ہیں حلانکہ ممکن ہے کہ کسی امام نے اسے جائز قرار دیا ہو۔
متمع پر قربانی واجب ہونے کا سبب یہ کہ وہ ایک ہی سفر میں دو عبادتیں جمع کرتا ہے اور اسی وجہ سے حج قران ادا کرنے والے پر بھی قربانی واجب ہوتی کیونکہ اس میں بھی یہی علت پائی جاتی ہے۔
اگرچہ افضل یہی ہے کہ یوم نحر یا ایام منی میں قربانی ذبح کی جائے تاکہ اختلاف سے بچ سکے لیکن یہ بھی جائز ہے کہ حج کا احرام باندھنے کے ساتھ ہی ذبح کر دے۔ خصوصا اس موجودہ صورتحال میں جب وہ ذبح بھی کرچکا ہے اور حرم سے واپس بھی آگیا ہے۔
اس پر دلیل یہ ہے کہ اس پر قربانی حج کے احرام کی وجہ سے واجب ہوئی تھی کیونکہ احرام حج اس کا سبب ہے اور یہ سبب موجود ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے: " تو جو فائدہ اٹھانا چاہے عمرے کا حج کے ساتھ تو جو اسے میسر ہو قربانی کر دے" ([1])  اسی طرح اسی آیۃ کریمہ میں باری تعالی نے فرمایا: " پھر جسے قربانی کی طاقت نہ ہو تو وہ تین روزے رکھے حج کے وقت اور سات جب تم گھر لوٹ آؤ " یعنی تین ان دنوں میں جن میں حج کر رہا ہے یعنی تو روزے جب احرام میں رکھے گا تو قربانی بھی انہیں دنوں میں کرے گا کیونکہ قربانی اصل ہے اور روزہ اس کا بدل ہے تو ان دونوں کے درمیان بغیر کسی نص شرعی کے فرق نہیں کیا جا سکتا۔  پھر یہ بھی کہ اضحی کی قربانی سے تمتع کی قربانی، نقصان پورا کرنے والی قربانی کے زیادہ قریب ہے جس پر بعض اہل علم تمتع کی قربانی کو قیاس کرتے ہیں۔
 یہ قول شافعیہ کے نزدیک معتبر ہے۔
شافعیہ کے امام خطیب شربینی فرماتےہیں: " اس پر قربانی اس وقت واجب ہوتی ہے جب وہ حج کا احرام باندھتا ہے کیونکہ اسی وقت وہ حج کے ساتھ عمرہ کا فائدہ اٹھانے والا ہوتا ہے اس کا یہ مفہوم بھی نکل رہا ہے کہ حج کے احرام پر قربانی کو مقدم کرنا جائز نہیں ہے لیکن یہ مفہوم مراد نہیں ہے بلکہ صحیح قول یہ ہے کہ جب عمرہ سے فارغ ہو جائے تو ذبح کر سکتا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ جب عمرے کا احرام باندھے تو ذبح کرنا جائز ہو گا اسے کسی وقت کے ساتھ خاص نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ ہر قسم کے نقصانات کے "دم " میں ہوتا ہے لیکن افضل یہ ہے کہ یوم نحر کو ہی ذبح کرے تاکہ سب آئمہ کی اتباع ہو جائے اور ان کے اختلاف سے بچ سکے کیونکہ باقی تینوں آئمہ کے نزدیک یوم نحر سے پہلے ذبح کرنا جائز نہیں ہے ، نہ ایسا حضور نبی کریم ﷺ  مروی ہے  اور نہ ہی جو صحابہ آپ ﷺ کے ساتھ تھے ان میں کسی نے حج کے احرام سے پہلے قربانی کی تھی۔([2])
امام عمرانی " المھذب " کی شرح کرتے ہوے فرماتے ہیں: جس میں تمتع کی شرائط پائی جائیں ہمارے نزدیک اس پر تمتع کی قربانی اس وقت واجب ہو جاتی ہے جب حج کا احرام باندھ لے اور امام اعظم ابو حنیفہ کا بھی یہی قول ہے لیکن امام عطا فرماتے ہیں کہ جب تک عرفہ میں وقوف نہیں کرتا اس وقت تک قربانی واجب نہیں ہو گی اور امام مالک فرماتے ہیں جمرہ عقبہ میں رمی کرنے تک واجب نہیں ہوتی۔ انہوں نے حج کے مکمل ہونے کا اعتبار کیا ہے۔ ہماری دلیل یہ قول باری تعالی ہے: " تو جو فائدہ اٹھانا چاہے عمرے کا حج کے ساتھ تو جو اسے میسر ہو قربانی کر دے"([3]) اور فائدہ وہ حاصل کر چکا ہے کیونکہ جو چیز غایت بن جاے اس کے اول جز کا پایا جانا ہی کافی ہوتا ہے جیسے اللہ تعالی کا یہ ارشاد گرامی ہے:" ثم اتموا الصيام الى الليل " پھر روزے کو پورا کرو رات تک"([4]) اور اس لئے بھی کہ حج کے احرام  کے ساتھ ذبح کی شرائط کا وجود بھی پایا گیا تو قربانی کا وجوب بھی اسی کے متعلق ہوگا۔ ہاں ذبح کے وقت میں افضل یہی ہے کہ "یوم نحر"  کو کرے اور اگر "یوم نحر"  سے پہلے اور حج کا احرام باندھنے کے بعد ذبح کیا تو ہمارے نزدیک جائز ہے امام اعظم ابو حنیفہ اور امام مالک رضی اللہ عنھما کے نزدیک جائز نہیں ہے ہماری دلیل یہ ہے کہ یہ دم ہے جو کہ احرام حج سے متعلق ہے تو یوم نحر سے پہلے بھی جائز ہو گا جیسا کہ خوشبو لگانے یا کپڑے پہننےکی صورت میں جائز ہوتا ہے۔ اور اگر عمرے سے فارغ ہو کر حج کا احرام باندھنے سے پہلے ذبح کیا تو اس میں دو قول ہیں جنہیں ابو علی نے " الافصاح " میں بیان کیا ہے۔
1: "جائز نہیں ہے " اور اس پردلیل یہ قول باری تعالی ہے: " تو جو فائدہ اٹھانا چاہے عمرے کا حج کے ساتھ تو جو اسے میسر ہو قربانی کر دے"([5]) جب اس نے حج کا احرام باندھا ہی نہیں تو تمتع پایا ہی نہیں گیا تو قربانی ابھی تک واجب ہی نہیں ہوئی اور دوسری دلیل یہ ہے کہ روزے کی طرح قربانی بھی بدنی اعمال میں سے ہے وہ عمل ہے قربانی کو کئی حصوں میں تقسیم کرنا۔ تو وجوب پر ذبح کو مقدم نہیں کیا جاے گا۔
2: دوسرا "جواز کا قول ہے " اور یہی قول صحیح ہے کیونکہ یہ مالی حق ہے جس کا تعلق اسباب کے ساتھ ہے۔ جب ان اسباب کی شرط یا ان کا اکثر حصہ پایا جائے تو باقی ماندہ حصے پر عمل کی تقدیم جائز ہوتی ہے جیسا کہ زکاۃ میں جب نصاب پایا جائے تو "حولان حول " سال گزرنے پر ادئیگی کو مقدم کرنا جائز ہوتا ہے اسی طرح قسم کا کفارہ قسم اٹھانے کے بعد توڑنے سے پہلے ادا کرنا جائز ہوتا ہے۔
اگر عمرہ کے احرام کے بعد اور فارغ ہونے سے پہلے ذبح کرنا چاہے تو ہمارے بغدادی علماء کے نزیک قربانی نہیں ہو گی اور مسعودی کہتے ہیں کہ جب ہم نے یہ کہہ دیا کہ عمرہ سے فارغ ہونے بعد اور احرم حج سے پہلے جائز ہے تو کیا عمرہ کے دوران یعنی فارغ ہونے سے پہلے بھی ذبح کر سکتا ہے؟ اس میں دو قول ہیں: پہلا یہ کہ جائز ہے یعنی کر سکتا ہے کیونکہ وجوب اسباب میں سےایک سبب پایا گیا ہے اور وہ ہے عمرہ کا شروع کرنا۔ تو یہ اسی طرح ہو جاے گا جیسے اس نے عمرہ ختم ہونے کے بعد قربانی کی ہے۔ دوسرا قول "عدم جواز" کا ہے اور یہی قول صحیح ہے کیونکہ دو میں سے ایک سببِ وجوب یعنی عمرہ ابھی اپنے کمال کو نہیں پہنچا ہے تو اس صورت میں اگر ذبح کرے گا تو ایسے ہوگا کہ اس نے عمرہ کے احرام سے پہلے ہی قربانی کردی جو کہ جائز نہیں ہے۔([6])
امام ماوردی فرماتے ہیں: تمتع میں اگر قربانی کو واجب کرنے والی شروط موجود ہوں تو آدمی کی دو حالتیں ہو سکتی ہیں: 1 خوشحالی 2: تنگ دستی۔
اگر خوشحال ہے تو بکری کی قربانی کرے جو کہ عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد احرام حج کے وقت واجب ہو گی۔ جب احرام باندھ لیا تو اس پر قربانی لازم ہو جاے گی کیونکہ وجوب قربانی کی شرائط تبھی پائی جائیں گی جب حج شروع کرے گا۔ پس جب قربانی ذبح کرنے کا ارادہ کرے گا تو چار وقت ہوسکتے ہیں۔ پہلا بہترین وقت ہے اور وہ یوم نحر ہے۔ دوسرا جائز وقت ہے اور وہ یہ کہ احرام حج کے بعد اور یوم نحر سے پہلے قربانی کرے ہمارے نزدیک اس وقت قربانی صحیح ہو گی لیکن امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں صرف یوم نحر کو قربانی صحیح ہو گی کیونکہ فرمان باری تعالی ہے: اور نہ منڈاؤ اپنے سر یہاں تک کہ پہنچ جائے قربانی کا جانور اپنے ٹھکانے پر " ([7]) اور قربانی کا ٹھکانااور مقام و محل یوم نحر ہی ہے اوردوسری دلیل یہ دیتے ہیں کہ اس میں خون بہانا ہوتا ہے تو ضروری ہے کہ یوم نحر سے پہلے جائز نہ ہو جیسے کہ اضحی کی قربانی جائز نہیں ہوتی۔
ہماری دلیل یہ قول باری تعالی ہے: " تو جو فائدہ اٹھانا چاہے عمرے کا حج کے ساتھ تو جو اسے میسر ہو قربانی کر دے"([8]) معلوم ہوا کہ جب اس نے حج کے ساتھ عمرے کا فائدہ حاصل کر لیا اس پر لازم ہو گئی یا اس کیلئے جائز ہو گئی دونوں میں سے کوئی بھی معنی مراد لیں ہماری دلیل اس میں پائی جا رہی ہے۔ اور اس لیے بھی کہ یہ قربانی حج میں واقع کمی کو پورا کرنے کیلئے ہے تو یوم نحر سے پہلے بھی جائز ہو گی اس کی اصل روزہ ہے اور اس لئے بھی کہ دمِ کفارہ ہے تو اسے اذیت اور شکار کے کفارے پر قیاس کرتے ہوے وجوب کے بعد اور یوم نحر سے پہلے ذبح کرنا جائز ہو گا۔
اور جو قول باری تعالی " حتى يبلغ الهدي محله " ہے اس میں " محل " سے مراد قربانی کی جگہ ہے نہ کہ یوم نحر ہے اس پر دلیل اللہ تعالی کا یہ ارشاد گرامی ہے " ثم محلها الى البيت العتيق " یعنی ان کے ذبح کا مقام بیت عتیق کے قریب ہے" اور نفلی یا اضحی کی قربانی پر اسلئے قیاس کرنا اس لئے جائز نہیں ہے کہ ان کا کوئی بدل نہیں ہے
تیسرا وقت یہ ہے کہ عمرہ سے فارغ ہو کر احرام حج سے پہلے ذبح کرے اس میں دو قول ہیں صحیح قول یہ  ہے قربانی صحیح ہو گی کیونکہ مالی حقوق اگر دو چیزوں کے ساتھ متعلق ہوں جب ان میں سے ایک چیز پائی جاے تو دوسری پر اسے مقدم کرنا جائز ہوتا ہے جیسے زکاۃ اور کفارہ یمین میں جائز ہوتا ہے اسی طرح تمتع کی قربانی میں بھی جائز ہو گا اور تمتع کی قربانی چار چیزوں کی وجہ سے واجب ہوتی  ہے اور جب عمرہ مکمل ہو جاے تو ان میں سے دو چیزیں بھی پائی جاتی ہیںایک یہ کہ مسجد حرام کے حاضرین میں سے نہیں ہے دوسرا یہ عمرہ اس نے حج کے مہینے میں کیا ہے تو قربانی کو حج پر مقدم کرنا جائز ہوگا اور دوسرا قول یہ ہے کہ روزے پر قیاس کرتے ہوے جائز نہیں ہو گا۔
اوقات میں سے چوتھا وقت یہ ہے عمرہ سے فارغ ہونے سے پہلے ہی قربانی کر دےاس کے جائز نہ ہونے میں علماء کا اتفاق ہے کیونکہ ابھی اکثر اسباب وجوب باقی ہیں([9])
 
مذکورہ دلائل کی روشنی میں  ہم کہیں گے آدمی نے اگر " یوم نحر"  سے پہلے قربانی کا جانور ذبح کر دیا تو یہ جائز امر ہے اس  کی قربانی صحیح ہو گی اس مسئلہ میں وہ امام شافعی کی تقلید کرے گا جنہوں نے اسے جائز قرار دیا ہے۔
واللہ تعالی اعلم بالصواب۔
 
 


[1] البقرہ 196
[2] المغنی المحتاج 2/290 دار الکتب العلمیۃ
[3] البقرہ 196
[4] البقرۃ 187
[5] البقرہ 196
[6] البیان 4/91 ط دار المنہاج جدہ
[7] سورۃ البقرۃ 196
[8] البقرہ 196
[9] الحاوی الکبیر  فی فقہ مذہب امام شافعی 4/51 ط۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان
 
 

 

Share this:

Related Fatwas