بیوی کا اپنے مردہ شوہر کو بوسہ دینا...

Egypt's Dar Al-Ifta

بیوی کا اپنے مردہ شوہر کو بوسہ دینا

Question

کیا بیوی اپنے شوہر کی وفات کے بعد اسے چھو سکتی ہے یا الوداع کرتے وقت بوسہ دے سکتی ہے؟ 

Answer

میت کو بوسہ دینا ہر اس شخص کیلئے جائز ہے جس کیلئے اس کی زندگی میں بوسہ دینا جائز تھا۔
امام ترمذی رحمہ اللہ نے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے روایت نقل کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حضرت عثمان بن مظعون کی میت کو روتے ہوئے بوسہ دیا۔
اور امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے آپﷺ کا جسم اطہر کپڑے کے ساتھ لپٹا ہوا تھا ، سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ کے چہرہ انور سے کپڑا ہٹایا اور چہرہ انور کو بوسہ دے کر رونے لگے اور عرض کرنے لگے یا نبی اللہ ﷺ آپ ﷺ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، اللہ تعالی آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا اور جو موت آپﷺ کیلئے لکھی ہوئی تھی اس کو آپ ﷺ نے فنا کردیا ہے"
جواز کا حکم میاں بیوی دونوں کو شامل ہے۔ جب تک کوئی ایسی چیز وارد نہ ہوجائے جو علیحدگی کو واجب کرتی ہے۔ جیسے موت سے پہلے طلاق کا واقع ہونا، یا موت کے بعد عورت کا مرتد ہوجانا۔
بوسے کا جواز صرف اس صورت میں ہے کہ یہ بوسہ محبت شفقت اور رقت قلبی کی بنا پر ہو اور شہوت کی بنا پر نہ ہو۔ کیونکہ میت طبعا شہوت کے قابل نہیں ہوتی ۔ اور امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جنت البقیع سے واپس آئے مجھے دیکھا کہ میرے سر میں درد ہورہا تھا اور میں کہہ رہی تھی ہائے میرا سر تو آپ ﷺ نے فرمایا: ہائے میرا سر یا عائشہ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: تجھے کیا ہے اگر تجھے مجھ سے پہلے موت آجائے تو میں تجھے غسل دوں ، کفن پہناؤں اور نماز جنازہ پڑھوں اور تھے دفن کروں۔
اور امام ابو داود رحمہ اللہ نے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے روایت کیا ہے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنھا نے فرمایا: اگر مجھے میرے معاملے کا پہلے پتا ہوتا جس کا بعد میں پتا چلا ہےتو آپﷺ کو آپ کی بیویوں کے علاوہ کوئی بھی غسل نہ دیتا۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے وصیت فرمائی تھی کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو آپ کی بیوی اسماء بنت عمیس غسل دیں تو انہوں آپ کو غسل دیا تھا اورصحابہ کرام میں سے کسی صحابی نے اس بات مخالفت نہیں کی۔ رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین ۔
امام مالک رحمہ اللہ نے " مؤطا " میں حضرت عبداللہ بن ابو بکر رضی اللہ تعالی عنھما سے روایت کیا ہے کہ جب سیدنا ابوبکر صدیق نے وفات پائی تو آپ کی بیوی اسماء بنت عمیس نے آپ کو غسل دیا تھا رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین۔
جب میاں بیوی میں سے دونوں ایک دوسرے کو غسل دے سکتے ہیں اور کفن پہنا سکتے ہیں حالانکہ اس سے جسم کو جسم لگتا ہے، اور اعضا پر انسان مطلع ہوتا ہے۔ تو اس سے مطلق چھونے کی اجازت ملتی ہے اور بوسہ دینا بھی چھونے کے قبیل میں سے ہے، جب تک یہ شفقت و رحمت کی بنا پر ہو ۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میت کے اہل خانہ اور اس کے دوستوں کیلئے اس کو بوسہ دینا جائز ہے۔ اس باب میں احادیث ثابت ہیں ۔
اس کے بارے میں امام دارمی رحمہ اللہ نے " استذکار "میں اور امام سرخسی رحمہ اللہ نے " الامالی " میں صراحت کی ہے۔
امام ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ فرماتےہیں"میت کے اہل خانہ اور دوستوں وغیرہ کیلئے اس کے چہرے کو بوسہ دینا جائز ہے۔
علامہ شروانی رحمہ اللہ حاشیہ لگاتے ہوئے فرماتے ہیں جیسا کہ اس کےاطلاق سے ثابت ہے کہ میت کی کسی بھی جگہ کو بوسہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ کلام میں یہ بات واضح ہے کہ یہ بوسہ شہوت کی بنا پر نہ ہو بلکہ تبرک کیلئے ہو یا رقت ، اور میت پر شفقت کی بنا پر ہو۔
علامہ بہوتی رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ ہر اس شخص کیلئے میت کو بوسہ دینے اور اسے دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، جس کیلئے اس کی زندگی میں یہ سب جائز تھا۔ اور اس طرح کفن پہنانے کے بعد بھی جائز ہے۔
مذکورہ دلائل کی بنا پر آخری بارالوداع کرتے ہوئے شفقت اور رقت کی وجہ سے بیوی کیلئے شوہر کی میت کو چھونے اور اسے بوسہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ تعالی اعلم بالصواب۔
 

Share this:

Related Fatwas