جنازے کے پیچھے جہرا " لا الہ الا ال...

Egypt's Dar Al-Ifta

جنازے کے پیچھے جہرا " لا الہ الا اللہ " پڑھنا اور ذکر کرنا

Question

کیا جنازے کے پیچھے جہرا " لا الہ الا اللہ " پڑھنا اور ذکر کرنا جائز ہے ؟ 

Answer

الحمد للہ والصلاۃ و السلام علی رسول اللہ و آلہ وصحبہ و من والاہ۔۔۔ وبعد: تـھلیل، تسبیح اور تمحید بھی ذکر کے الفاظ میں سے ہیں جن کے معانی بالترتیب لا الٰہ الا اللہ ، سبحان اللہ یا سبحان اللہ و بحمدہ اور الحمد للہ وغیرہ کے ہیں۔

" جہر " اس آواز کو کہتے ہیں جو انسان خود بھی سنے اور ساتھ والا بھی اسے سن لے۔ اس کی بلند ہونے کی کوئی حد نہیں ہے۔ اور " سر " اس آواز کو کہتے ہیں جو انسان صرف خود سن سکتا ہو۔

ذکر کے کلمات سری اور جہری قید کے بغیر مطلقا وارد ہوئے ہیں مگر کچھ ایسے مقام ہوتے ہیں جہاں سرا ذکر کرنا مستحب ہوتا ہے اور کہیں جہرا مستحب ہوتا ہے۔ اور کہیں کہیں خاموشی مستحب ہوتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی اکرم نے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: " آواز اور آگ کے ساتھ جنازوں کے پیچھے نہ چلو "

امام ابن ابو شیبہ نے امام نخعی سے روایت کیا ، آپ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ ناپسند کیا کرتے تھے کہ کوئی شخص جنازے کے پیچھے چلتے ہوئے کہے " استغفروا لہ غفر اللہ لکم " یعنی اس میت کیلئے مغفرت کی دعا کرو اللہ تہماری مغفرت فرمائے۔

امام ابن ابو شیبہ نے حضرت بکیر بن عتیق رضی اللہ تعالی عنھما سے روایت کیا: میں ایک جنازے میں سعید بن جبیر رضی اللہ تعالی عنھم کے ساتھ تھا کہ ایک آدمی نے کہا " استغفروا لہ غفر اللہ لکم " اس میت کیلئے مغفرت کی دعا کرو اللہ تہماری مغفرت فرمائے۔ تو سعید بن جبیر رضی اللہ تعالی عنھم نے فرمایا " لا غفر اللہ لك " اللہ تعالی تیری مغفرت نہ کرے۔

امام ابن ابو شیبہ نے امام عطاء سے روایت کیا ہے کہ آپ نے " استغفروا لہ غفر اللہ لکم " کہنے کو ناپسند کیا ہے۔

امام ابن ابو شیبہ نے امام حسن سے روایت کیا ہے کہ آپ نے " استغفروا لہ غفر اللہ لکم " کہنے کو ناپسند کیا ہے۔

امام ابن ابو شیبہ نے امام عبد الرحمٰن بن حرملہ سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی نے(استغفروا لہ غفر اللہ لکم) کہا تو آپ نے فرمایا تمہارا بھائی یہ کیا کہہ رہا ہے۔

امام ابن ابو شیبہ نے حضرت مغیرہ سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی جنازے کے پیچھے سورۃ الواقعہ کی تلاوت کرتا ہوا چل رہا تھا تو ابراہیم سے اس بارے میں پوچھا گیا آپ نے اس عمل کو ناپسند کیا ہے۔

امام ابن ابو شیبہ رحمہ اللہ نے حضرت ایوب بن ابو قلابہ سے روایت کیا ہے کہ آپ  فرما تے ہیں کہ ہم ایک جنازے میں شریک تھے کہ لوگوں نے قصاص کی آوازیں بلند کی تو ابو قلابہ نے فرمایا پہلے لوگ سکون کے ساتھ میت کی تعظیم کیا کرتے تھے۔

امام ابن ابو شیبہ نے حضرت قیس بن عباد سے روایت کیا ہے ، آپ کہتے  ہیں کہ رسول خدا کے اصحاب کرام تین اشیاء کے پاس اپنی آواز کو پست رکھا کرتے تھے۔ قتال کے وقت ، تلاوتِقرآن کے وقت اور جنازوں کے پاس۔

امام ابن نجیم حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جنازے کے پیچھے چلنے والے کو چاہیے کہ خاموشی اختیار کیے رکھیں ۔

 ذکر اور تلاوت قرآن وغیرہ کے ساتھ آواز کو بلند کرنا مکروہ ہے۔  مجد الآئمہ ترکمانی اور " عصری فتاوی " کے مطابق مکروہ تحریمی ہے۔  امام علاء الدین الناصری فرماتے ہیں۔ اس کا ترک کرنا اولی ہے۔

" الظھیریہ " میں ہے: اگرکوئی اللہ تعالی کا ذکر کرنا چاہتا ہے تو اپنے دل میں ذکر کرے، کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے : " دعا کرو اپنے رب سے گڑگڑاتے ہوئے اور آہستہ آہستہ بے شک اللہ تعالی دوست نہیں رکھتا حد سے بڑھنے والوں کو " ([1]) یعنی اونچی آواز سے دعا کرنے والوں کو۔([2])

امام دردیر مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جنازے پر " استغفروا " جیسے الفاظ کے ساتھ آواز کو بلند کرنا مکروہ ہے۔ اس پر امام صاوی فرماتے ہیں یہ اس لیے مکروہ ہے کیونکہ یہ سلف صالحین کے افعال میں سے نہیں ہے ۔ ([3])

خطیب شربینی شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جنازے کےساتھ چلتے وقت آواز کو بلند کرنا مکروہ ہے کیونکہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے جنازے کے پاس ، قتال کے وقت اور ذکر کے وقت بلند آواز کو ناپسند کیا ہے۔

 صاحبِ "مجموع " نے فرمایا ہے کہ قول مختار بلکہ صحیح قول یہی ہے کہ جنازے کے ساتھ چلتے وقت سکوت اختیار کیا جائے کیونکہ سلف صالحین کا یہی طریقہ تھا۔ تلاوت اور ذکر وغیرہ کے ساتھ آواز کو بلند نہ کیا جائے بلکہ موت اور اس کے متعلق امور پر سوچتا رہے۔ جاہل قراء جو آواز نکالتے ہیں وہ حرام فعل ہے اس کا انکار کرنا واجب ہے۔ امام حسن وغیرہ نے " استغفروا اللہ لاخیکم " کہنے کو ناپسند کیا ہے اور ابن عمر رضی اللہ تعالی نے کسی کو استغفروا لہ غفر اللہ لکم " کہتے ہوئے سنا تو آپ رضی اللہ تعالی عنھم نے فرمایا " لا غفر اللہ لك " اللہ تعالی تیری مغفرت نہ کرے۔ اسے سعید بن منصور نے اپنی سنن میں رویت کیا ہے۔([4])

امام رحیبانی حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جنازے کے پاس آواز کو بلند کرنا مکروہ ہے اگرچہ تلاوت یا ذکر کے ساتھ ہی کیوں نہ کی جائے۔ کیونکہ یہ بدعت ہے۔ جنازے کے ساتھ چلنے والے کیلئے سرا یعنی آہستہ آواز کے ساتھ تلاوتِ قرآنِ پاک کرنا اور اللہ تعالی کا ذکر کرنا سنت ہے۔ اور جنازے کے ساتھ چلتے وقت استغفروا لہ  وغرہ کہنا امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک بدعت ہے۔ آپ نے اسے ناپسند کیا ہے اور امام ابو حفص نے اسے حرام قرار دیا ہے۔ ابن منصور نے " وما یعجبنی " ( مجھے پسند نہیں ) کے الفاظ نقل کیے ہیں۔ اور حضرت سعید نے روایت کیا ہے کہ ابن عمر اور سعید بن جبیر رضی اللہ تعالی عنھم " استغفروا لہ غفر اللہ لکم " کہنے والے کو فرمایا کہ " لا غفر اللہ لك " اللہ تعالی تیری مغفرت نہ کرے۔([5])

اس بنا پر جنازے کے پیچھے چلتے وقت اونچی آواز کے ساتھ ذکر کرنا مکروہ ہے۔ مستحب طریقہ یہ ہے کہ انسان " سرا "  (پست آواز ) کے ساتھ ذکر کرے یا پھر خاموش رہے۔

والله تعالى اعلم بالصواب۔

 
 
 

 

 


[1] سورۃ الاعراف 55

[2] البحر الرائق شعح کنز الدقائق 2/207 ط۔ دار الکتاب الاسلامی

[3][3] حاشیۃ الصاوی علی شرح الصغیر۔ 1/568 ط۔ دار المعارف

[4] المغی المحتاج شرح منہاج الطالبین۔1/360 ط۔ دارلفکر

[5] مطالب اولی النہی 1/897 ط ۔ المکتب الاسلامی

 

Share this:

Related Fatwas