جس نے حج کی فیس ادا کر دی ہو اس کا ...

Egypt's Dar Al-Ifta

جس نے حج کی فیس ادا کر دی ہو اس کا وفات کی عدت میں حج ادا حکم

Question

 میرے شوہر کی وفات سے پہلے میں نے حج کی درخواست دی اور وہ قبول بھی ہو گئی اور میں نے 20000 مصری پونڈ بھی ان کی وفات سے پہلے ہی ادا کر دیے تھے ۔ تو کیا عدت کے مہینوں میں مجھے حج کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ یہ بات بھی واضح رہے کہ یہ میرا دوسرا حج ہے کیونکہ میں فریضہ حج پہلے ادا کرچکی ہوں۔

Answer

 الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد: شرعا یہ بات مسلم ہے کہ جس عورت کا شوہر فوت ہو جائے اسے چار مہینے اور دس دن عدت گزارنے کا حکم ہے۔ کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے : '' اور جو لوگ فوت ہو جائیں تم میں سے اور چھوڑ جائیں اپنی بیویاں تو وہ بیویاں انتظار کریں چار مہینے اور دس دن اور جب پہنچ جائیں اپنی (اس) مدت کو تو کوئی گناہ نہیں تم پر اس میں جو کریں وہ اپنی ذات کے بارے میں مناسب طریقہ سے ۔ اور اللہ تعالی جو کچھ تم کرتے ہو اس سے خوب واقف ہے '' ( )
جمہور فقہائے عظام کا مذہب یہ ہے کہ "سکنی " عدت گزارنے کے لوازمات میں سے ہے تو عورت عدت کے دوران اپنے گھر میں ٹھہری رہے گی اور حج وغیرہ کیلئے بھی نہیں نکلے گی۔
دلیل : حضرت فریعہ بنت مالک بن سنان رضی اللہ تعالی عنھا سے مروی ہے –آپ سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ تعالی عنھما کی بہن ہیں۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم فرمایا کہ اپنے گھر میں ٹھہری رہو یہاں تک کہ عدت ختم ہو جائے۔ ( )
بعض صحابہ کرام - رضی اللہ تعالی عنھم - اور تابعین - رحمھم اللہ تعالی - سے منقول ہے : " سکنی " عدت میں شامل نہیں ہے عورت جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے، عدت میں اس کیلئے حج اور عمرہ ادا کرنا حرام نہیں ہے۔ یہ قول ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا ، سیدنا علی المرتضی ، سیدنا عبد اللہ بن عباس ، سیدنا جابر بن عبد اللہ رضي الله عنهم سے مروی ہے ان کے علاوہ امام حسن البصري، جابر بن زيد، عطاء بن أبي رباح رحمھم اللہ کا بھی یہی قول ہے اور " ظاهرية " کا بھی یہی مذہب ہے انکی کی دلیل یہ ہے کہ آیتِ کریمہ صرف عدت کے وجوب پر دلالت کرتی ہے نہ کہ "معتدہ " (عدت گزارنے والی عورت )کیلئے " سکنی " کے وجوب پر دلالت ہے ۔ اور حدیثِ مذکور کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور اگر صحیح بھی ہو تو یہ ایک معین واقعہ ہے ۔
علمائے کرام نے فرمایا ہے عورت کیلئے حج کی شرط یہ ہے کہ وہ وفات یا طلاق کی عدت میں نہ ہو، اگر اس نے اس شرط کی مخالفت کی اور حج کر لیا تو حج صحیح ہو جائے گا مگر گنہگار ہو گی ۔
فقہائے عظام نے فرمایا ہے کہ جب عورت احرام باندھ چکی ہو یا سفر پر روانہ ہوچکی ہو تو یہ صورت مذکورہ حکم سے مستثنی ہو گی ۔
فقہائے احناف نے فرمایا ہے : جب اس کا شوہر فوت ہوا وہ سفر پر تھی اور اس کے درمیان اور اس کے شہر کے درمیاں مدت سفر – کم از کم تین دن - کا فاصلہ ہے تو اس پر واجب ہے کہ واپس آ جائے اور عدت گزارے اور اگر اس کے اور ہدف کے درمیان تین دن سے کم فاصلہ ہے تو اپنا سفر جاری رکھے ۔
فقہائے مالکیہ نے فرمایا ہے : جب اس کا شوہر فوت ہوا وہ سفرِ حج پر روانہ ہو چکی تھی اور وہ اپنے گھر سے چار یا اس سے کم دنوں کے فاصلے پر ہے تو اس پر واجب ہے کہ گھر واپس لوٹ آئے اور باقی عدت گزارے اور اگر فاصلہ زیادہ ہے تو اپنا سفر جاری رکھے ۔
فقہائے شافعیہ نے فرمایا ہے : جب اس کا شہر فوت ہوا وہ سفرپر تھی تو اسے اختیار ہے چاہے سفر جاری رکھے یا لوٹ آئے ۔ سفر ختم ہونے سے پہلے لوٹنا اس پر واجب نہیں ہے ۔
فقہائے حنابلہ کا مذہب بیان کرتے ہوئے امام ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اگر عورت پر حج اگرچہ فرض ہو اوراس کا شوہر فوت ہو جائے اور تو اپنے گھر میں عدت گزارنا اس پر لازم ہے حج اگرچہ فوت ہی کیوں نہ ہو جائے، کیونکہ اگر عدت قضا ہو گئی تو اس کا کوئی بدل نہیں ہے اور اگر حج کا وقت نکل گیا تو حج کسی بھی سال ادا کرنا ممکن ہے ۔ اور اگر فرضی حج یا شوہر کی اجازت سے حج کا احرام باندھنے کے بعد اس کا شوہر فوت ہو گیا تو دیکھے گی کہ اگر حج کا وقت اتنا باقی ہے کہ حج فوت نہیں ہو گا اور قافلہ بھی نہیں نکلے گا تو گھر میں عدت گزارنا لازم ہے، چونکہ اس صورت میں دونوں حقوق کا ادا کرنا ممکن ہے تو کسی حق کو بھی ساقط کرنا جائز نہین ہو گا۔ لیکن اگر حج کے فوت ہونے کا خوف ہو تو اس پر لازم ہے کہ چلی جائے۔ یہی امام شافعی رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس پر ٹھہرنا لازم ہے اگرچہ حج فوت ہی ہو جائے ، کیونکہ وہ "معتدہ" (عدت گزارنے والی عورت ) ہے اس کے کیلئے سفر کرنا جائز نہیں ہے۔ جیسا کہ وہ عدت واجب ہونے کے بعد احرام باندھتی ہے ۔ اور ہماری دلیل یہ ہے کہ یہ دونوں عبادتیں ہیں جو وجوب اور وقت کی تنگی میں برابر ہیں تو دونوں میں سے جو پہلی ہو گی اس کو مقدم کرنا واجب ہو گا ۔ جیسا کہ عدت پہلے شروع ہو چکی ہوتی (تو اسے مقدم کرنا ضروری ہوتا)، اور اس لیے بھی کہ حج کی تاکید زیادہ ہے کیونکہ یہ ارکانِ اسلام میں سے ایک ہے ، اور اسے باطل کرنے سے حرج بھی زیادہ ہوگا ، اسلئے اس کی تقدیم واجب ہے جیسا کہ اسکے سفرِ حج پر روانہ ہونے کے بعد اس کا شوہر فوت ہوا ہو ۔ ( )
إمام أبو مظفر بن هبيرة حنبلي رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اگر بیوی حج پر ہو اور اس کا شوہر فوت ہو جائے تو اس بارے میں فقہاء کرام کا اختلاف ہے ، امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی فرماتے ہیں : اگر شہر یا اس کے پاس ہی ہے تو اس پر لازم کہ ہر صورت میں ٹھہر جائے، امام شافعی اور امام احمد رحمھما اللہ فرماتے ہیں : اگر عدت گزارنے میں حج کے فوت ہونے کا خوف ہو تو اس کیلئے سفرِ حج جاری رکھنا جائز ہے۔ ( )
اس بنا پر مذکورہ سوال میں ہم یہ کہیں گے : جب عورت حج کی فیس اور اس کے اخراجات اپنے شوہر کی زندگی میں ادا کر چکی ہے اور یہ رقم واپس بھی نہیں مل سکتی تو اس کے لئے جائز ہے کہ عدت میں سفرِ حج پر روانہ ہو جائے کیونکہ اس کا اختیار، شوہر کی اجازت اور ناقابلِ واپسی حج کے اخراجات کی ادائیگی سفرِ حج پر روانہ ہونے کی طرح ہی ہیں ۔ اور اس میں بھی اسی طرح رخصت ہو گی جیسے قافلہ نکل جانے کے خوف میں رخصت ہوتی ہے اور حج کے فوت ہونے کی مشقت کو دور کرنا گھر میں عدت گزارنے کی مصلحت سے افضل ہے، اس لئے حج کو مقدم کرنا اولی ہے، خصوصا جب اس نے اس کا " پراسس " اپنے شوہر کی زندگی میں ہی شروع کر دیا ہے اور وہ بھی اس کی اجازت کے ساتھ ۔ بلاشبہ مشقت اور تکلیف کو دور کرنا شریعت مطہرہ کے مقاصد میں شامل ہے ، اور یہ بات قواعدِ فقہیہ سے ثابت ہے کہ '' أن المشقة تجلب التيسير'' یعنی مشقت آسانی کو لے کر آتی ہے ۔ اور '' إذا ضاق الأمر اتسع " یعنی جب معاملہ تنگ ہو جائے وسعت دی جاتی ہے اور جب وہ کشادہ ہو جائے تو تنگ کر دیا جاتا ہے ۔ اتنی بڑی رقم کے ضائع ہونے سے عورت کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا جسے رفع کرنا واجب ہے کیونکہ مشقت آسانی کا تقاضا کرتی ہے۔ اوریہ بھی مسلم قاعدہ ہے کہ ''الضرورات تبيح المحظورات" کہ ضروریات ممنوع اشیاء کو مباح کر دیتی ہیں۔ اوریہ بھی مسلم قاعدہ ہے کہ "الحاجة تنزل منزلة الضرورة عامة كانت أو خاصة"، شدید حاجت چاہے عام یا خاص ضرورت کے قائم مقام ہوتی ہے۔ اگرچہ " معتدہ " ( عدت گزارنے والی عورت ) کیلئے حج کاسفر ممنوع ہے مگر ادا شدہ حج کے اخراجات کی حفاظت کرنا ایک اہم ضرورت ہے جس کی وجہ سے اس ممنوع کو مباح قراردیا جائے گا، کیونکہ مال ان پانچ عظیم مقاصد میں سے ایک ہے جن کی حفاظت کرنا اسلامی شریعت مطہرہ میں واجب ہے ۔

واللہ تعالی اعلم بالصواب ۔

Share this:

Related Fatwas