(سات دن تک مٹھائی وغیرہ تقسیم) کرنے...

Egypt's Dar Al-Ifta

(سات دن تک مٹھائی وغیرہ تقسیم) کرنے کا حکم

Question

 کیا "سبوع " ولادت کے بعد ساتویں دن کی رسم منانے یا پیدائش کے وقت یا ساتویں دن مٹھائی وغیرہ تقسیم کرنا شرعا حرام ہے یا مکروہ ہے ؟

Answer

 الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد: اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمت پر خوشی کا اظہار کرنا پسندیدہ عمل ہے ، شرعا مطلوب ہے ، نعمت میں اضافے کا سبب بھی ہے اور یہ شکر کے بہت سے مظاہر میں سے ایک ہے۔ اللہ تبارک و تعالی فرماتے ہیں : '' اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا '' ( ) اسی طرح ایک اور ارشاد باری تعالی ہے : عنقریب ہم شکر گزاروں کو جزا دیں گے '' ( )
اللہ تعالی کی اپنے بندوں پر نعمتیں بے شمار اور لاتعداد ہیں جن کا شمار ممکن نہیں ہے، اللہ تعالی کا ارشادِ گرامی ہے : اور اگر تم اللہ تعالی کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو انہیں تم نہیں گن سکو گے ''( )
بچہ بھی ان نعمتوں میں سے ہے جن پر شکر بجا لانا واجب ہوتا ہے علامة ابن عابدين الحنفیؒ فرماتے ہیں : کیونکہ یہ عقیقہ بچے کی طرف سے شکر کے ذریعے تقربِ الٰہی کا طریقہ ہے ۔ ( )
نومولود کی خوشی میں لوگوں کا جمع ہونا ، تحفے تحائف دینا، مختلف قسم کے کھانے ، میوہ جات اور مٹھائی وغیرہ کھلانا جسے "یوم السبوع " کہا جاتا ہے یہ سب اللہ سبحانہ تعالی کی عطا کردہ نعمتِ اولاد پر اس کے شکر اور خوشی کا اظہار ہے ۔ اور یہ بات تو مسلم ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی عظیم نعمتوں پر اس کا شکر بجا لانا واجب کیا ہے۔ اللہ تعالی نے اپنی کتابِ حکیم میں ذکر کو شکر کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ اللہ تعالی نے قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا : '' پس تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا اور میرا شکر ادا کرو اور میری (نعمتوں پر) نا شکری نہ کرو '' ( ) اور ذکر کا بلند مرتبہ یوں بیاں فرمایا : '' اور واقعی اللہ تعالی کا ذکر بہت بڑا ہے '' ( )
اللہ تعالی نے شکرگزار اہل ایمان کے ساتھ نجات اور جزائے خیر کا وعدہ فرمایا ہے اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے : '' اللہ تعالی نے تمہیں عذاب دے کر کیا کرنا ہے اگر تم نے شکر ادا کیا اور ایمان لے آئے '' ( ) جو عقیقہ کی استطاعت رکھتا ہے وہ اس دن عقیقہ بھی کرے ، اور جو اس کی استطاعت نہیں رکھتا وہ یا تو اسے مؤخر کر دے یا پھر اتنی مقدار کافی ہے جتنی اللہ تعالی نے اسے شکر گزاری اور خوشی کے اظہار کی طاقت عطا فرمائی ہے ۔
'' العقيقة '' عربی زبان میں '' العق '' سے مشتق ہے جس کا معنی کاٹنا ہے ۔ اور اصل اس کا اطلاق ان بالوں پر ہوتا ہے جو ولادت کے وقت بچے کے سر پر ہوتے ہیں اسے عقیقہ کا نام اس لیے دیا گیا کہ اس کا حلق کیا جاتا ہے اور بال کاٹے جاتے ہیں۔
اصلاحِ شریعت میں عقیقہ سے مراد وہ جانور ہے جسے بچے کی طرف سے اس کے بال کاٹتے وقت ذبح کیا جاتا ہے ۔
امام نوویؒ فرماتے ہیں : عقیقہ سنت ہے یہ وہ جانور ہوتا ہے جسے بچے کی طرف سے ذبح کیا جاتا ہے ۔ اور سنت یہ ہے کہ بچے کی طرف سے دو بکریاں اور بچی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے ۔ کیونکہ "ام کرزؓ " فرماتی ہیں میں نے رسول ﷲ ﷺ سے عقیقہ کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : '' بچے کی طرف سے دو ایک جیسی بکریاں اور بچی کی طرف سے ایک بکری (ذبح کی جائے گی)'' اور اسلئے بھی کہ یہ نو مولود کی خوشی کی وجہ سے مشروع کیا گیا ہے اور بچے کی خوشی زیادہ ہوتی ہے تو اس کی طرف سے ذبح بھی زیادہ کیا جائے گا اور اگر دونوں کی طرف سے ایک ایک جانور ذبح کیا جائے تو بھی جائز ہے۔ ( )
علامة ابن قدامة المقدسي الحنبلیؒ فرماتے ہیں : عام اہل علم کے قول کے مطابق عقیقہ سنت ہے ان میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا ، سیدنا ابن عباس سیدنا ، ابن عمر رضی اللہ تعالی عنھم اور فقہائے تابعین اور ائمہ کرام رحمھم اللہ شامل ہیں ۔ ( )
امام احمد بن حنبل اپنی مسند میں ، امام ابو داود " الاوسط " میں اور امام ترمذی رحمھم اللہ اپنی سنن میں کہتے ہیں کہ سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ، آپ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بچہ اپنے عقیقہ کا مقروض رہتا ہے اس کی طرف سے ساتویں دن جونور ذبح کیا جائے ، اس کا حلق کیا جائے اور اس کا نام رکھا جائے ۔
پس عقیقہ جائز ہے اور سنت بھی ہے کیونکہ اس کا رسول ﷲ ﷺ نے اسے کرنے کا حکم فرمایا ہے اور خود عقیقہ کیا بھی ہے اور آپ ﷺ کے بعد اپ ﷺ کے اصحاب کرام رضی ﷲ تعالی عنھم اجمعین نے بھی عقیقہ کیا ہے ۔
آپ ﷺ کے ارشاد گرامی «الغُلَامُ مُرْتَهَنٌ بِعَقِيقَتِهِ» '' بچہ اپنے عقیقہ کا مقروض رہتا ہے '' کے بارے میں شيخ الإسلام زكريا الأنصاري الشافعي نے فرمایا ہے : اس کا معنی ہے خوشی اور نعمت کا اظہار کرنا اور نسب کے بڑھنے کا اعلان کرنا ہے اور یہ سنت مؤکدہ ہے ہاں یہ قربانی کی طرح واجب نہیں ہے اگرچہ دونوں میں یہ چیز مشترک ہے کہ دونوں میں بغیر کسی جنایت کے خون بہانا ہوتا ہے اور اس لیے کہ "سنن ابو داود" کی حدیث پاک ہے : '' جو اپنے بیٹے کی طرف سے قربانی کرنا چاہے وہ کر سکتا ہے '' اور )مرتهن بعقيقته) کے معنی میں ایک قول یہ ہے کہ یہ بچہ اپنے جیسے بچوں کی طرح پرورش نہیں پا سکتا جب تک اس کی طرف سے عقیقہ نہ کیا جائے ۔ امام خطابیؒ فرماتے ہیں اس میں سب سے عمدہ قول امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول ہے فرماتے ہیں اس کا معنی ہے کہ اگر اس کا عقیقہ نہ کیا جائے تو قیامت کے دن اپنے والدین کی شفاعت نہیں کرے گا۔ ( )
پس جسے استطاعت ہو اسے عقیقہ کرنا چاہیے اور جو استطاعت نہیں رکھتا وہ جس قدر کر سکتا ہے اپنی فرحت اور خوشی کا اظہار کرئے اور اللہ تعالی کی اس نعمت پر شکر ادا کرے ۔ اور لوگوں کا (یوم السبوع) کو یعنی ساتویں دن خوشی منانا اور مہمانوں اور بچوں کو مٹھائی اور تحفے تحائف دینا اسی قبیل سے ہے۔
یہ سب کچھ خوشی کے مظاہر میں سے ہے اور اہل خانہ ، دوست احباب ، ہمسایوں اور چھوٹے بچوں کو خوشی میں شریک کرنے کا طریقہ ہے۔ اور شریعت مطہرہ اسے حرام قرار نہیں دیتی ، بلکہ اس میں نیک اعمال بھی شامل ہوتے ہیں جیسے کھانا کھلانا وغیرہ۔ اسی طرح تحفے تحائف دینے سے محبت بڑھتی ہے۔ ہاں اس صورت میں شرعی ضوابط کا لحاظ رکھنا واجب ہے ۔ جیسے اسے چاہیے کہ "اسراف" فضول خرچی سے بچے اور اس کام کو عقیقے کی طرح سنت نہ جانے۔
اس بنا پر ہم کہیں گے کہ سنت یہ ہے کہ عقیقے کا عمل کیا جائے اور ساتویں دن بچے کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے اور اس کا نام رکھا جائے اور اس کا حلق کیا جائے اور اس کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ کی جائے اور سنت ہے کہ بچہ یا بچی کی طرف سے بکری ذبح کی جائے ، اور اسے پکانا بھی سنت ہے ۔ اور جو "عملِ سبوع " ہے یعنی مٹھائی وغیرہ بانٹنا اور تحفے تحائف دینا یہ لوگوں کی معاشرتی عادت ہے، اس سے شریعت مطہرہ منع نہیں کرتی بلکہ یہ کئی حوالوں سے مقاصدِ شریعت میں شامل ہے مثلا نعمت پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا خوشی اور سرور کا پرچار کرنا، کھانا کھلانا اور صلہ رحمی کرنا۔
یاد رہے کہ نومولود کی خوشی مناتے وقت شریعت کے ضوابط کا لحاظ رکھنا واجب ہے ۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas