اسمگلنگ شدہ ادویات بیچنا اور اور غی...

Egypt's Dar Al-Ifta

اسمگلنگ شدہ ادویات بیچنا اور اور غیر متخصص کا فارمیسی کا کام کرنا

Question

کچھ میڈیکل سٹور اسمگلنگ شدہ ادویات کی خرید و فروخت کرتے ہیں جو وزارت صحت کی طرف سے منظور شدہ نہیں ہیں مثلا نفسیاتی ادیات وغیرہ اور یہ ادویات معیاری نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کو نقصان دیتی ہیں۔ ان ادویات کی خرید و فروخت کے بارے میں شرعی حکم بیان فرمائیں؟
اسی طرح جو آدمی فارمیسی کے پیشہ میں ماہر نہیں ہے اس کا لوگوں کیلئے ادویات تجویز کرنا اور انہیں طبی مشورہ دینے کا شرعی حکم بیان فرمائیں ؟
 

Answer

الأستاذ الدكتور / شوقي إبراهيم علام

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد: اللہ تعالی نے انسان کو تکریم بخشی ہے اس کے ساتھ نفس اور عقل کی حفاظت کا حکم دیا ہے اور یہ دونوں ان پانچ ضروریاتِ شریعہ میں سے ہیں، جن کی حفاظت کرنا واجب ہے یعنی دین، جان، عقل، عزت اور مال، جنہیں مقاصد شریعہ بھی کہا جاتا ہے۔ ان اشیاء کی حفاظت اس لئے واجب ہے تاکہ انسان زمین پراللہ کی خلافت قائم کر سکے اور اس کی آباد کاری کا عمل کر سکے۔

بہت سی ایسی شرعی نصوص وارد ہوئی ہیں جو کہ جان کو نقصان پہنچانے اور اسے ہلاکت میں ڈالنے سے منع کرتی ہیں اور ہر قسم کے خطرات سے ان کی حفاظت کا حکم دیتی ہیں ۔ اللہ تعالی کا ارشادِ گرامی ہے : '' اور نہ پھینکو اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں تباہی میں '' ([1]) اور اللہ تعالی نے فرمایا:  ''اور نہ ہلاک کرو اپنے آپ کو بے شک اللہ تعالی تمہارے ساتھ بہت رحم فرمانے والا ہے '' ([2]) اور اللہ عز وجل نے فرمایا : '' اور نہ قتل کرو اس جان کو جسے حرام کر دیا اللہ تعالی نے سوائے حق کے '' ([3])

علامہ ابن عاشورؒ فرماتے ہیں : (تُلْقُوا)فعل کا نہی کے سیاق میں واقع ہونا '' القاء '' کے عموم کا تقاضا کرتا ہے۔ یعنی جان بوجھ کر ہلاکت کا ہر سبب ممنوع اور حرام ہے، جب تک کوئی دلیل اس کی حرمت کو زائل نہ کر دے۔ ([4])

اس سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جب علمی طور پر کوئی چیز نقصان دہ ثابت ہو جائے اور اسے استعمال کرنے کی کوئی شرعی ضرورت بھی موجود نہ ہو تو اس کا استعمال کرنا حرام ہوگا اور جس چیز کا استعمال حرام ہے اس کی تجارت بھی حرام ہے، کیونکہ اپنے آپ کو نقصان پہنچانا اور دوسروں کو نقصان دینا شریعت میں حرام ہے۔ تو ان اسمگلنگ شدہ ادویات کی خرید و فروخت جو کہ وزارت صحت کی طرف سے منظور نہیں، حرام ہے۔ کیونکہ یہ ادویات لوگوں کے لئے نقصان کا باعث بنتی ہیں۔ اوراگر لوگوں کےاستعمال پر انہیں کوئی بھی نقصان ہوا تو جو آدمی بھی ان کی تجارت کا سبب بنا وہی اس نقصان کا قانونی اور شرعی مسئول اور ذمہ دار بھی ہوگا۔

جیسا کہ ان ادویات کی تجارت کرنے سے وہ آدمی حاکم وقت کا بھی نافرمان ہوگا حالانکہ اس کی اطاعت کا اللہ تعالی نے حکم فرمایا ہے، ارشاد باری تعالی ہے : اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ تعالی کی اور اطاعت کرو (اپنے ذی شان) رسول کی اور اطاعت کرو حاکموں کی جو تم میں سے ہوں ۔ '' ([5])

اور اس تجارت کی ممانعت کیلئے ملکی سطح پر قوانین بھی موجود ہوتے ہیں۔

اس بنا پر ان اسمگلنگ شدہ ادویات کی خرید و فروخت جو کہ وزارت صحت کی طرف سے منظور نہیں  شرعا حرام ہے، کیونکہ یہ لوگوں کے لئے نقصان کا باعث بن سکتی ہیں۔

دار الافتاء ایسی ادویات کی خرید و فروخت کرنے والے تاجروں کو یہ تلقین کرتا ہے کہ مخلوقِ خدا کے بارے میں اللہ تعالی سے ڈریں۔

دوسری بات یہ کہ جو غیر متخصص لوگ فارمیسی کا کام کرنے اور مریضوں کو ادویات کی تجویز دیتے ہیں اور انہیں مشورے دیتے ہیں ان کے بارے میں عرض یہ ہے کہ اللہ تعالی نے بغیر علم کے کسی چیز کے بارے مین بات کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے : '' اور نہ پیروی کرو اس چیز کی جس کا تجھے علم نہیں۔ بے شک کان اور آنکھ اور دل ان سب کے متعلق (تم سے) پوچھا جائے گا '' ([6])

إمام شافعي رحمه الله فرماتے ہیں : اہل جہاں پر واجب ہے کہ صرف اپنے علم کے مطابق ہی گفتگو کریں کبھی کبھی علم کے متعلق ایسا آدمی گفتگو بھی کرتا ہے کہ اگر وہکچھ چیزوں سے خاموش رہتا تو زیادہ بہتر ہوتا ، اور وہ سلامتی کے زیادہ قریب ہوتا ان شاء اللہ تعالی۔ ([7])

إمام ابن حزم رحمه الله فرماتے ہیں : علم اور اہل علم پر سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ جاہل لوگ اہل علم کے صفوں میں داخل ہو گئے ہیں جو حقیقت میں ان میں سے نہیں ہیں ۔ وہ جاہل ہیں لیکن اپنے آپ کو عالم سمجھتے ہیں ۔ اور فساد پھیلاتے ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ اصلاح کر رہے ہیں۔ ([8])

امام سیوطی نے امام غزالی رحمھما اللہ سے نقل کیا ہے : جس کی معلومات کم ہوں اور علمائے امت کے کلام پر مہارت نہ رکھتا ہو تو اسے جس چیز کے بارے علم نہیں اس پر بات نہیں کرنی چاہیے اور غیر چیز میں داخل نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس جیسے آدمی پر سکوت اختیار کرنا لازم ہے۔ ([9])

حضور نبی اکرم ﷺ نے جو شخص طب نہیں جانتا اس کو طبیب کا کام کرنے اور بغیر اہلیت کے لوگوں کا علاج معالجہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کسی نے ایسا کام کیا تو وہ اپنے کیے کا خود ذمہ دار ہو گا۔ اور اس کے نتائج پر مسئول ہو گا۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشادِ گرامی قدر ہے : '' جس نے طبیب کا کام کیا اور اس سے پہلے وہ طب کو نہیں جانتا تھا تو وہ ضامن ہوگا '' ([10]) یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔ اور دوسری روایت کے الفاظ ہیں: جس نے طبیب کا کام کیا اور حالت یہ ہے کہ وہ طب نہیں جانتا تھا اور کوئی جان یا جان سے کم (کوئی عضو) ضائع ہو گیا تو وہ ضامن ہوگا۔

إمام خطابي - رحمہ اللہ تعالی- فرماتے ہیں :کسی ایسے میدان میں علمی طور پر کام کرنے والا جسے وہ نہیں جانتا، قصور وار ہوگا۔ اگر اس سے کسی کی جان یا عضو تلف ہو گیا تو وہ اس کی دیت کا ضامن ہو گا۔ لیکن اس سے قصاص ساقط ہو جائے گا ، کیونکہ وہ مریض کی اجازت سے ہی یہ کام کرتا ہے۔ ([11])

امام مناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : )فهو ضامن(  کا معنی ہےکہ جس نے اس سے دیت کا مطالبہ کیا تو وہ اس کیلئے ضامن ہو گا۔ اگر اس کے سبب سے مریض فوت ہوا کیونکہ اسی نے اس فعل کا ارتکاب کیا جس کی وجہ سے موت واقع ہوئی ہے، ہاں اگر یہ تجربہ کار ہو، علم طب کے ماہرین سے سیکھا ہوا ہو اور عملی طور پر طب کا کام کرتا ہو تو اس پر ضمان نہیں ہو گی۔ ([12])

اور اس پر ملکی قوانین بھی شاہد ہیں کہ فارمیسٹ کیلئے ڈاکٹر کے امور سرانجام دینا جائز نہیں ہے۔

مذکورہ وجوہات کی بنا پر اس سوال کے جواب میں ہم کہیں گے کہ دوا تجویز کرنا ڈاکٹر ہی کا کام ہے ، ڈاکٹر کے علاوہ کسی آدمی کو مریض کیلئے دوائی تجویز نہیں کرنی چاہیے۔ جیساکہ وہ شخص جو لائسنس یافتہ  نہیں ہے اسے فارمیسٹ افراد کو فارمیسی کا کام نہیں کرنا چاہیے، مگر متعلقہ ادارے کی اجازت کے ساتھ  پریکٹس کر سکتا ہے ۔ اسے چاہیے کہ جو اس کے اختصاص میں لکھا ہوا ہے اسی پر عمل کرے، اس سے تجاوز نہ کرے، کیونکہ اس کی خلاف ورزی شرعا حرام اور قانونا جرم ہے۔

 

والله سبحانه وتعالى أعلم.

 


[1]البقرة: 195
[2]النساء: 29
[3]الأنعام: 151

[4]"التحرير والتنوير" (2/ 215، ط. الدار التونسية)

[5]النساء: 59
[6]الإسراء: 36
[7]الرسالة / 41، ط. الحلبي

[8]الأخلاق والسير ص: 23، ط. دار الآفاق الجديدة

[9]الحاوي للفتاوي" (2/ 139، ط. دار الفكر

[10]والحاكم في "المستدرك

[11]معالم السنن" (4/ 39، ط. المطبعة العلمية

[12]فيض القدير" (6/ 106، ط. المكتبة التجارية الكبرى 

Share this:

Related Fatwas