مسلمان کا غیر مسلم کی میراث لینا اور اس سے ہبہ قبول کرنا
Question
مجھے علم ہے کہ میں اپنے غیر مسلم والدین کی میراث نہیں لے سکتا، کیونکہ میں مسلمان ہوں۔ لیکن کیوں مسلمان اولاد اپنے غیر مسلم والدین کے وارث نہیں بن سکتے؟ کیا میں اپنے والدین سے ہبہ لے سکتا ہوں یا کیا میں اس کا وصیت کردہ کچھ مال لے سکتا ہوں؟ اگر ہبہ لینا جائز ہے تو کیا اس کی کوئی حد مقرر ہے؟ اور کیا میں اپنے دین کے ترکہ پر وصیِ بدیل بن سکتا ہوں؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد: 1- جمہور فقہائے کرام کا مذہب ہے کہ مسلم کسی غیرمسلم کا اور غیرمسلم کسی مسلم کا وارث نہیں بن سکتا، اس پر دلیل حضور اکرم ﷺ کی یہ حدیث پاک ہے '' لَا يَتَوَارَثُ أَهْلُ مِلَّتَيْنِ '' یعنی دو ملتوں والے ایک دوسرے کے وارث نہیں بن سکتے۔ اس حدیث پاک کو امام ابو داود، امام ابن ماجہ اور امام ترمذی رحمھم اللہ نے روایت کیا ہے۔ دو ملتوں کے درمیاں وراثت جاری نہ ہونے کی حکمت یہ ہے کہ وراثت کی بنیاد مدد ونصرت اور موالاۃ یعنی ولی بنانے پر ہوتی ہے اور مسلم اور غیر مسلم کے درمیان کوئی موالاۃ نہیں ہے۔
2- مسلمان کیلئے غیرمسلم کا ہدیہ قبول کرنا جائز ہے۔ جو غیر مسلم مسلمانوں سے لڑائی نہیں کرتا اس کے ساتھ اللہ تعالی عدل اور احسان کرنے کا حکم دیا ہے باری تعالی نے ارشاد فرمایا : '' اللہ تعالی تمہیں منع نہیں کرتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ نہیں کی اور انہوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا کہ تم ان سے ساتھ احسان کرو اور ان کے ساتھ انصاف کا برتاؤ کرو بے شک اللہ تعالی احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے '' ( )
سیدنا ابو حمید الساعدی رضی اللہ تعالی عنہ سے حدیث پاک مروی ہے آپ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں : نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ہم غزوہ تبوک میں شریک تھے اسی اثنا میں ایلہ کے بادشاہ نے نبی اکرم ﷺ کو ایک سفید خچر اور ایک چادر تحفہ میں دی ''
کسی غیر مسلم کی دلجوئی کی خاطر اس سے تحفہ قبول کرنا جائزہے خصوصا جب وہ قریبی رشتہ دار ہو۔ جیسا کہ سوال میں مذکور ہے۔ اس تحفہ کی مقدار کی کوئی حد متعین نہیں بشرطیکہ کے دینے والا اپنی رضامندی اور خوشی سے دے رہا ہو۔
جس طرح غیر مسلم سے تحفہ قبول کرنا جائز ہے اسی طرح اس کیلئے وصیت کرنا بھی جائز ہے اس کی وصیت قبول کرنا بھی جائز ہے۔ تو سائل کیلئے اپنے غیر مسلم والد کی وصیت قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
3- اس کے ترکہ میں تیرے وصیِ بدیل بننے میں بھی کوئی حرج نہی ہے، کیونکہ غیر مسلم کا مسلمان کو وصی بنانا جائز ہے، امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مسلمان کا ذمی کو وصی بنانا جائز نہیں ہے اور اس کے برعکس جائز ہے۔ ( )
امام خطیب شربینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: غیر مسلم کا مسلمان کو وصی بنانا بالاتفاق جائز ہے، جیسے اس کے خلاف گواہی جائز ہوتی ہے۔ اور کبھی کھبی مسلمان کی اس پر ولایت ثابت ہوجاتی ہے، جیسے حاکم وقت ذمی عورتوں کی شادیاں کرانے میں ولی بن جاتا ہے۔
واللہ تعالی اعلم بالصواب۔