مقروض تنگدست قیدیوں کو قرض ادا کرنے...

Egypt's Dar Al-Ifta

مقروض تنگدست قیدیوں کو قرض ادا کرنے کیلئے زکاۃ دینا

Question

 جن لوگوں کو قید کی سزا سنائی گئی ہے اور وہ قرض ادا کرنے اور ان پر لاگو جرمانے ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے کیا انہیں زکاۃ دینا جائز ہے؟

Answer

 الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد! غارمین (مقروض لوگ) مصارف زکاۃ میں سے ہیں جن پر قرآن مجید کی نص موجود ہے اللہ تعالی کا ارشادِ گرامی ہے: ﴿إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللهِ وَاللهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ﴾ [التوبة: 60] یعنی: زکاۃ تو صرف ان کیلئے ہے جو فقیر، مسکین اور زکاۃ کے کام پر جانے والے ہیں اور جن کی دلداری مقصود ہے نیز گردنوں کو آزاد کرانے اور مقروضوں کیلئے اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کیلئے یہ سب فرض ہے اللہ تعالی کی طرف سے۔ اور اللہ تعالی سب کچھ جاننے والا دانا ہے''
''غارمین'' کا معنی بیان کرتے ہوۓ امام قرطبی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن پر قرض چڑھ گیا ہو اور اسے ادا کرنے کیلئے ان کے پاس کچھ نہ ہو، اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔۔۔ اور زکاۃ میں سے انہیں بھی دیا جاۓ گا جن کے پاس مال ہو لیکن وہ مقروض ہوں اور وہ قرض ان کے مال کو محیط ہو ، اور اگر اس کے پاس مال نہیں ہے اور وہ مقروض بھی ہے تو وہ فقیر اور غارم ہے؛ اسے ان دونوں اوصاف کی وجہ سے دیا جائے گا؛ امام مسلم رحمہ اللہ نے سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے زمانہ اقدس میں ایک شخص کا خریدا ہوا اناج خراب ہو گیا اور وہ شخص کافی مقروض ہو گیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' تَصَدَّقُوا عَلَيْهِ '' یعنی اسے صدقہ دو'' تو لوگوں نے اسے صدقہ دیا لیکن اس صدقے کے مال سے اس کا قرض پورا ادا نہیں ہوا، تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے قرضداروں سے فرمایا: '' خُذُوا مَا وَجَدْتُمْ، وَلَيْسَ لَكُمْ إِلَّا ذَلِكَ '' یعنی جو تمہیں ملا اسے لے لو اور ابھی تمہارے لئے اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے''۔۔۔۔ ایک اور حدیث پاک میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَحِلُّ إِلا لأحد ثَلَاثَةٍ: لذي فَقْرٍ مُدْقِعٍ، أَوْ لذي غُرْمٍ مُفْظِعٍ، أَوْ لذي دَمٍ مُوجِعٍ '' یعنی صرف تین میں سے کسی ایک حالت میں مانگنا جائز ہے: انتہائی غربت یا بھاری قرض یا بھاری دیت کی وجہ سے جسے ادا کرنے کیلئے اس کے پاس مال نہ ہو''
امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جس پر قرض ہو اسے اس قرض میں قید کی کیا جاۓ گا۔ اور یہ علماء کے درمیان محلِ اتفاق ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ کسی نے بھی اس میں اختلاف کیا ہو۔
اس بناء پر: ہم کہیں کہ مذکورہ سوال میں قیدیوں کو قرض دینا جائز ہے تاکہ وہ قرض ادا کر سکیں۔
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔

Share this:

Related Fatwas