زکاۃ کے مال سے مساجد بنانا

Egypt's Dar Al-Ifta

زکاۃ کے مال سے مساجد بنانا

Question

کیا زکاۃ کے مال سے مساجد بنانا جائز ہے؟ اور مصارف زکاۃ کون کون سے ہیں؟ 

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد! جمہور فقہاۓ اسلام کے نزدیک مساجد کو بنانے اور انہیں آباد کرنے کیلئے زکاۃ کا مال خرچ کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ مساجد مصارفِ زکاۃ کی ان اقسام میں شامل نہیں ہیں جو اس آیتِ مبارکہ میں درج ہیں: ﴿إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللهِ وَاللهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ﴾ [التوبة: 60] یعنی: زکاۃ تو صرف ان کیلئے ہے جو فقیر، مسکین اور زکاۃ کے کام پر جانے والے ہیں اور جن کی دلداری مقصود ہے نیز گردنوں کو آزاد کرانے اور مقروضوں کیلئے اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کیلئے یہ سب فرض ہے اللہ تعالی کی طرف سے۔ اور اللہ تعالی سب کچھ جاننے والا دانا ہے''
اور فقہاۓ اسلام کی رائے یہ ہے کہ اللہ تعالی نے زکاۃ کو بیان کرتے ہوۓ اسے صدقہ قرار دیا ہے، یہ مال کا ایک جز ہوتا ہے جو ضرورتمند مسلمان فقراء کو دیا جاتا ہے، اور مساجد اس قبیل سے نہیں ہیں، اور مفسرین کرام اس آیتِ مبارکہ میں ﴿وَفِي سَبِيلِ اللهِ﴾ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اس کا مقصد جہاد فی سبیل اللہ ہے۔
اس بناء پر: زکاۃ آیتِ مبارکہ میں مذکورہ اصناف کو ہی دی جاۓ گی، اور جسے اللہ تعالی نے مقدم رکھا ہے اسے ہی مقدم رکھا جاۓ گا، مساجد کی تعمیر ان اصناف میں سے نہیں ہے؛ اس لئے کہ انسان عمارت پر مقدم ہے، اور بناۓ ساجد بناۓ مساجد پر مقدم ہوگی۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.

 

Share this:

Related Fatwas