کرونا وائرس کی وجہ سے جماعت کو موقو...

Egypt's Dar Al-Ifta

کرونا وائرس کی وجہ سے جماعت کو موقوف کرنے کے حکومتی حکم کے باوجود مسجد میں باجماعت ادا کرنے پر اصرار کرنا

Question

 جیسے کہ آپ سب جانتے ہیں کہ دنیا کے اکثر ممالک میں کرونا وائرس کی وجہ سے بہت سی جانیں ضائع چکی ہیں یہاں تک کہ جن ممالک میں یہ وائرس پھیلا ان کی معیشت اور طرزِ حیات شدید متاثر ہوۓ ہیں۔
اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے : متخصص ڈاکٹروں نے تعلیمی، اجتماعی اور خدماتی مراکز بند کرنے کا مشورہ دیا ہے کیوں کہ یہ وائرس چھونے سے منتقل ہو جاتا ہے، اور مساجد میں جماعت اور جمعہ کو موقوف کرنے کا بھی مشورہ دیا ہے یہاں تا آنکہ یہ وائرس ختم ہو جائے اور ہم اس مشکل مرحلے سے نکل جائیں۔
لیکن افغانستان میں کچھ آئمہ مساجد جن میں کئی الازھر الشریف کے فارغ التحصیل بھی ہیں، ممبروں پہ بیٹھ کر یہ اعلان کررہے ہیں کہ کرونا وائرس مساجد کو نمازیوں سے خالی کروانے کے لیے دشمنان اسلام کی طرف سے پھیلائی گئی افواہوں کی جنگ ہے، اور لوگوں کو ان جھوٹی خبروں کی طرف توجہ نہ دینے اور مساجد میں حاضر ہونے کی تاکید کرتے ہیں ، پس ان کا یہ موقف لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال رہا ہے کہ وہ ڈاکٹروں اور اس شعبے کے متخصص لوگوں کی بات مانیں یا ان آئمہ اور خطباء کی ؟
اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ افغانستان ان ممالک میں سے ہے جن میں طویل عرصہ جنگ رہی ہے جس کی وجہ سے اس کی بڑی بڑی عمارتیں اور عوامی ادارے متاثر ہوئے ہیں اور جنگ ابھی بھی جاری ہے اوریہ سب کچھ اس کی معاشی بربادی کا سبب بنا ہے؛ جس کی وجہ سے سرکاری اداروں میں طبی خدمات کی صلاحیت مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اترتیں۔اور یہاں ہمیں علاج معالجے سے زیادہ احتیاطی تدابیر پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
اور اسی بناء پر اس موضوع کی اہمیت، لوگوں کی زندگی سے اس کے تعلق اور ان کی سلامتی کے پیشِ نظر ہماری آپ سے التجاء ہے کہ اس سلسلے میں اسلام میں شرعی حکم کی وضاحت فرمائیں۔ ایمبیسی آف اسلامی جمہوریہ افغانستان دارالافتاء جمہوریہ مصر العربیہ کی نہایت شکرگزار ہو گی۔

Answer

مختصر جواب
الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبة ومن والاه، وبعد:
افغانستان کے تمام شہریوں پر شرعا واجب ہے کہ وہ گورنمنٹ کے طبی حکام کی ہدایات ہر عمل کریں جو کہ تعلیمی، سماجی اور خدماتی مراکز کو بند کرنے کا تقاضہ کر رہے ہیں جبکہ مساجد میں جماعت اور جمعہ موقوف کرنا چاہتے ہیں اور یہ سب کرونا وائرس کی وباء کو پھیلنے سے روکنے کے لئے ہے جسے ایک عالمی وباء قرار دیا گیا ہے، کیونکہ یہ مہلک متعدی بیماری ہے، یہ آسانی اور تیزی سے لوگوں کے میل جول اور چھونے سے منتقل ہو جاتی ہے، اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کو اس کا علم ہوتا ہے نہ ہی اس پر اس کی علامات ظاہر ہوتی ہیں اور وائرس میں مبتلا ہوجاتا ہے یا اس کا پرورش گاہ بنا ہوتا ہے۔
قواعد شریعہ اسلامیہ میں سے ایک مسلُم قاعدہ ہے " أن درء المفاسد مقدم علي جلب المصالح" یعنی: مفاسد کو روکنا مصلحت کے حصول پر مقدم ہے اور اسی وجہ اسلامی شریعت میں امراض اور متعدی بیماریوں سے بچاؤ کے لئے نظام وضع کئے ہیں، اور قرنطینہ کا اصول قائم کیا ہے اور احتیاطی تدابیر اپنانے پر زور دیا ہے اور ان بیماریوں میں مبتلا لوگوں کے ساتھ میل جول سے منع کیا ہے اور حکمرانوں کو عوام کی مسؤلیت شونپی ہے اور انہیں اپنے فرائض کی ادائیگی کے لئے اختیار دیا کہ عوام کی دینی اور دنیاوی مصلحت کی خاطر اقدامات کریں اور لوگوں ان کی حکم عدولی اور ان کے احکام کی خلاف ورزی کرنے سے منع کیا ہے۔ فقہاء کرام نے وضاحت سے بیان کیا ہے کہ کوڑھی اور جو اس کے حکم میں ہیں جیسے متعدی امراض والے مریض، ان سے جمعہ اور جماعت کے ساقط ہے اور اذیت کے سبب کو روکنے اور ضرر کے مادے کو کنٹرول کرنے کیلئے ان کا لوگوں سے الگ رہنا واجب ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی نیت کا اعتبار سے، ان کے عذر کی رعایت کرتے ہوۓ اور لوگوں کو تکلیف سے بچانے کے بدلے انہیں جماعت کا ثواب ملے گا۔
اور جہاں تک جمعہ کے قیام کا مسئلہ ہے تو چونکہ اس میں امام کو مقتدیوں پر ادبی فوقیت ہوتی حاصل ہوتی ہے اس وجہ سے نمازِ جمعہ کا قیام حاکمِ وقت کی نظام سازی اور اس کی عام اجازت کے ساتھ مشروط ہوگا؛ تاکہ فتنے اور تنازعے کا سدؔ باب ہو سکے۔ اور قیامِ جمعہ میں حاکمِ وقت کی اجازت کے شرط ہونے میں فقہاء کرام کے اختلاف کے باوجود اس بات میں سب کا اتفاق ہے کہ جب ترکِ اجازت حاکمِ وقت کی ولایت کی تحقیر کا باعث ہو یا اس حکم عدولی کا سبب ہو تو قیامِ جمعہ اس کی اجازت کے ساتھ ہی مشروط ہو گا۔
اورعلماء پر واجب ہے کہ صورتِ واقعہ کے ساتھ ساتھ نتائج پر بھی نظر رکھیں تاکہ اتنا نقصان نہ ہوجاۓ کہ جس تلافی نہ سکے، اس لئے اس وباء کو غیر اہم سمجھنا اور اس کے پھیلاؤ کونظر انداز کرنا جائز نہیں ہے بلکہ واجب ہے کہ ربِ کائنات کے حضور عاجزی و انکساری کے ساتھ دعائیں اور التجائیں کی جائیں۔ گورنمنٹ جمعہ اور جماعت سے روکنے کے احکام جاری کرنے باوجود فرائض اور شعائرِ دین کی حفاظت کے نام پر مساجد میں جمعہ اور جماعت کے قیام پر اصرار کرنا حرام ہے، کیوںکہ جان کی حفاظت شریعت کے پانچ اہم ترین مقاصد میں سے ایک ہے۔ پس تمام شہریوں پر واجب ہے کہ اس وبائی وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے حکومت کے بتاۓ ہوۓ احتیاطی احکامات اور حفاظتی اقدامات پر عمل کریں۔


مفصل جواب

اس وقت دنیا کے بہت سے ممالک کرونا وائرس covid_19) ) کی وباء کا شکار ہیں، یہ کرونا وائرسز کی ایک قسم ہے جو انسانوں اور حیوانوں کے لئے بیماریوں کا سبب بنتا ہے، یہ لوگوں کے درمیان انفیکشن کی وجہ سے تیزی سے پھیلتا ہے، چاہے وہ مریض کے سانس کے ذریعے سے ہو یا کھانسی یا چھینکتے وقت ناک یا منہ سے نکلنے والے چھینٹوں کے ذریعے سے ہو یا آپس میں میل جول اور مریض کو چھونے کے ذریعے سے ہو یا صفائی نہ کرنے اور حفاظتی تدابیر نہ اپنانے کی وجہ سے ہو، اس لئے ایسے مریض سے کم از کم ایک میٹر(تین قدم) دور رہنا ضروری ہے، اور یہ وباء تقریبا 160 ایک سو بیس ممالک میں پھیل چکی ہے، اور دو لاکھ سے بھی زیادہ لوگ اس سے بیمار ہوۓ ہیں، جن میں آٹھ ہزار سے بھی زیادہ لوگ اس سے وفات پاچکے ہیں، اور یہ اپنے مریضوں اور ان کی اموات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے یہاں تک کہ عالمی ادارہ صحت (WHO) نے اسے عالمی وباء قرار دے دیا ہے اور بتایا کہ یہ وائرس انسانی جسم میں 14 چودہ دنوں تک پرورش پاتا ہے، اور انسان اس عرصے میں اس وائرس کا حامل رہتا ہے اور دوسروں میں منتقل کرنے کا سبب بنا رہتا ہے، 22 بائیس طبی تحقیقات کا خلاصہ یہ ہے جو جگہیں مسلسل صاف نہ کی جائیں وہاں یہ وائرس 9 دن تک زندہ رہ سکتا ہے اسی طرح طبی تحقیق سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ ان کوگوں سے بھی اس کے منتقل ہونے کا قوی امکان ہوتا ہے جن میں اس وائرس کی ہلکی سی علامات ظاہر ہوئی ہوں یا کوئی بھی علامت ظاہر نہ ہوئی ہو۔
اور کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ سانسی حقائق اور اس کی پیشرفت سے اعراض کرے اور کہے کہ میرے لئے کتاب و سنت کافی ہیں۔ کیونکہ اسلام علم والا دین، اس نے اہلِ علم کو بلند مرتبہ عطا کیا ہے اور ان کو تکریم سے نوازا ہے، اور قرآن کریم کی نازل ہونے والی پہلی آیت مبارکہ میں ہی اس کائنات کے مطالعے کا حکم دیا گیا جو اس کے خالق کی عظمت پر دلالت کرتی ہے، اللہ تعالی نے فرمایا: (اقرأ باسم ربك الذي خلق)[العلق: 1] یعنی: ” اپنے رب کے نام سے پڑھیے جس نے (تہمیں) تخلیق کیا“ پہلی ہی آیت میں کائنات کے مطالعے کا حکم اس لئے فرمایا تاکہ خلق اور وحی کے درمیان مطابقت رہے اور کتابِ الٰہی اور کائنات الٰہی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں اور اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ علم کے دو ماخذ ہیں: وجودِ کائنات اور وحی، اور یہ دونوں خلقاً اور امراً اللہ کی طرف سے ہی ہیں؛ الله تعالى نے فرمایا ہے: (الا له الخلق والأمر تبارك الله رب العالمين) [الأعراف: 7]، یعنی: خبردار! اسی کیلئے ہیں خلق اور امر، بابرکت ہے اللہ جوتمام جہانوں کا رب ہے“۔ پس جس طرح قرآن مجید اور کائنات کے حقائق کے مابین کوئی تضاد نہیں اسی طرح شرعی احکام اور سائنسی اصولوں میں بھی کوئی تناقض نہیں۔
اور قرآن کریم کائنات کے لئے اللہ تعالیٰ کا آخری کلام ہے، یہی وہ آخری پیغام ہے جو اللہ تعالی نے اپنی مخلوق کو عطا کیا ہے، اس لئے اس میں معرفت کی تمام بلندیوں کی لیاقت ہے اوریہ کائنات کے تمام علوم کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے ، پس اس کی آیات طیبات کائنات میں غوروفکر کرنے بہت تاکید کرتی ہیں اورعلم ومعرفت کے حصول کی دعوت دیتی ہیں، لہذا مسلمانوں کو اللہ تعالی کی مبارک وحی یعنی قرآن و سنت پر غور کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ وہ مقاصد شریعت کو سمجھ سکیں اور جائز مفادات حاصل کر سکیں, لہٰذا مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنے معاملات سے آگاہ ہو، عصر حاضر سے باخبر ہو اور اپنے احوال اور اپنے مصالح و مفادات کو سمجھنے کیلئے بقدر امکان ان فقہی احکام کا اطلاق کرنا جانتا ہو جن کے ذریعے سے اس کے مقاصد حاصل ہوتے ہیں۔ پس یہاں سے نا تبدیل ہونے والا حکم شرعی اور فتوی کے درمیان فرق واضح ہو جاتا ہے جو شریعت کے کلی قواعد اور مخلوق کے مفادات کے موافق ہوتا ہے اور زمان، مکان، احوال اور اشخاص کے بدلنے کے ساتھ بدل سکتا ہے۔
ماہرین کے مابق تعدیہ (انفیکشن یا بیماری کامتعدی ہونا) یہ ہے کہ بیماری کا سسب بننے والے جراثیم کا اپنی جگہ سے ان کا شکار ہونے والے شخص میں منتقل ہو کر اس کے باریک ریشوں کو متاثر کرنا، اور اس میں کبھی اس بیماری کی علامات ظاہر ہوتی ہیں اور کبھی نہیں ہوتی۔
مسلم علماء و فقہاء نے انفیکشن کے متعلق گفتگو کی ہے اور جو وبائی بیماریاں ان کے کے زمانے میں معروف تھیں انہیں بیان کیا ہے، ان میں کوڑھ، خارش اور چیچک وغیرہ سرفہرست ہیں اور امام الطیبی "الكاشف عن حقائق السنن" میں فرماتے ہیں: (انفیکشن: بیماری کا مریض سے دوسروں تک پہنچ جانے کو کہتے ہیں، جب کوئی اپنے اخلاق یا بیماری کسی کو دے دے تو کہا جاتا ہے ” أعدى فلانٌ فلانًا من خلقه أو من علة به، “ اطباء کے نزدیک سات بیماریاں متعدی ہوتی ہیں : کوڑھ، خارش، چیچک، خسرہ، بخار، نظری اور وبائی امراض۔
شریعت اسلامیہ نے لوگوں کی بھلائی اور انہیں نقصان اور تکلیف سے بچانے کی خاطر متعدی بیماریوں کی روک تھام اور ان کے پھیلاؤ سے بچاؤ کیلئے نظام قائم کیا ہے؛ تا کہ یہ بیماریاں وبائی صورت اختیار نہ کر جائیں اور لوگوں کیلئے نقصان اور معاشرے کیلئے خطرہ کا باعث بن جائیں، پس اسلام نے قرنطینہ کے قوانین وضع کیے اور امراض اور وبائی حالات میں ان سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنا واجب قرار دیا ہے؛ پس حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم نے فرمایا: «فِرَّ مِنَ المَجْذُومِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الأَسَدِ» أخرجه البخاري في "صحيحه". یعنی: ” کوڑھی سے ایسے بھاگو جیسے تم شیر سے بھاگتے ہو ” اور ایک دوسری روایت میں ہے: «اتَّقُوا الْمَجْذُومَ كَمَا يُتَّقَى الْأَسَدُ» أخرجه ابن وهب في "جامعه"، وأبو نعيم في "الطب النبوي" وابن بشران في "أماليه" یعنی: ” کوڑھی سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگا جاتا ہے ”.
حضرت ابو ہریرہ رضي الله عنه سے ہی مروی ہے کہ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: «لا يُورِدَنَّ مُمرِضٌ على مُصِحٍّ» متفقٌ عليه. یعنی: ”کوئی بھی مریض کوئی صحت مند کے پاس ہرنہ لے کر آۓ“۔
حضرت عمرو بن شرید نے اپنے والد گرامی رضی اللہ تعالی عنھما سے روایت کیا ہے کہ ثقیف کے وفد میں ایک کوڑھی تھا تو نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم نے اسے پیغام بھجوایا : «إِنَّا قَدْ بَايَعْنَاكَ فَارْجعْ» أخرجه الإمام مسلم في "صحيحه". یعنی:”ہم نے تہماری بیعت قبول کر لی ہے پس تم لوٹ جاؤ“۔
امام زين الدين المناوي "فيض القدير" (1/ 138، ط. المكتبة التجارية الكبرى) میں فرماتے ہیں: اس سے ملنے سے بچو اور اس کے قریب جانے سے اجتناب کرو اور اس سے ایسے بھاگو جیسے شیروں اور درندوں سے بھاگتے ہو۔
اس وقت کوڑھی سے میل جول کی ممانعت اس لیے آئی کہ بعض لوگوں کے نزدیک کوڑھ متعدی امراض میں سے تھا؛ جیسا کہ امام کماخی حنفی رحمہ اللہ اپنی کتاب "المهيأ في كشف أسرار الموطأ" (2/ 437، ط. دار الحديث) میں فرماتے ہیں: اس حکم میں اس جیسی اور متعدی بیماریاں بھی شامل ہوں گی اور ہر وہ بیماری جو تکلیف کا باعث بنے یا ایک انسان سے دوسرے میں پھیلے اس سے بچنے کیلئے یہی حکم اصل ہے۔
اسی لئے علماء کرام نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی تکلیف سے دوچار ہو اس سے جمعہ اور جماعت ساقط ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کا تندرست مسلمانوں سے میل ملاپ کرنا ان کو تکلیف پہنچانے اور ضرر پنچانے کا سبب بنتا ہے، اور جب شوہر کو کوڑھ لاحق ہو جانے کی صورت میں میاں بیوی کے درمیان تفریق کرنا جائز ہے تو کوڑھی اور تندرست مسلمانوں کے درمیان نمازوں میں تفریق کرنا بدرجہ اولی جائز ہے۔
احناف نے تو یہاں تک کہا ہے کہ جس نے جمعہ سے پہلے بھول کر یا عذر کی وجہ سے کچا لہسن یا پیاز کھایا تو کھانے والے پر جمعہ ساقط ہو جاتا ہے کیوں کہ اس کے جماعت میں آنے سے لوگوں کو تکلیف ہوگی، پس کسی صاحبِ عقل پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ متعدی بیماری کا نقصان لہسن اور پیاز کی بو کے نقصان سے بہت ہی زیادہ ہے
الامام الحافظ العینی الحنفی " عمدۃ القاری" میں فرماتے ہیں: "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان (واليقعد في بيته) یعنی :” وہ اپنے گھر میں بیٹھ جاۓ“ میں اس بات کی صراحت ہے کہ یہ تمام اشیاء جماعت کے ترک میں عذر ہیں اور اسی طرح یہاں بھی دو علتیں ہیں: پہلی: مسلمانوں کو تکلیف، دوسری: فرشتوں کو، پس اگر پہلی علت پر غور کیا جائے تو یہ مسجد میں جانے اور جماعت کے ترک میں عذر ہے، اور اگر دوسری علت پر غور کیا جائے تو یہ مسجد نہ جانے میں عذر ہے اگرچہ اکیلا ہو"
اسی بات کو علامہ ابن عابدین شامی " ردالمحتار علی الدر المختار" میں نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: میں کہتا ہوں کہ اس شخص کے معذور ہونے میں قید یہ ہونی چاہیے کہ نماز کا وقت داخل ہونے سے کچھ دیر پہلے اس نے کسی عذر کی وجہ سے یا بھول کر لہسن یا پیاز کھایا تاکہ وہ ایسا کام خود نہ کرنے والا نہ بن سکے جس کے خود کرنے سے وہ کام اسے جماعت سے روک دیتا ہے۔
بلکہ احناف کے نزدیک واجب ہے کہ متعدی بیماری والے لوگوں سے الگ رہیں تاکہ تکلیف کو ختم کیا جا سکے اور ضرر اور بیماری پھیلنے سدِباب ہو سکے، علامہ ابن نجیم حنفی " البحر الرائق" میں فرماتے ہیں:( کئی آئمہ کرام سے منقول ہے کہ سلطان یا اس کے نائب پر لازم ہے کہ وہ جذام یا برص وغیرہ کے مریضوں کو لوگوں کے درمیان سے نکالے اور اسے شہر سے باہر الگ جگہ رکھے اور ان میں سے جو فقراء ہوں ان پر بیت المال سے خرچ کرے )

مالکیہ کے نزدیک: مالکی فقہاء کرم نے بیان کیا ہے کہ جو متعدی موذی بیماریوں میں مبتلا ہوں وہ لوگوں کے ساتھ جمعہ کی نماز نہ پڑھیں اگرچہ مریض زیادہ تعداد میں ہوں کیونکہ بیماری کے پھیلاؤ کے نقصان کو ختم کرنا جماعت میں حاضر ہونے پر مقدم ہے اور اگر کسی کو جذام کی بیماری لاحق ہو جاۓ میاں بیوی کو ایک دوسرے الگ کر دیا جاۓ گا اورنہوں نے اسے دور رکھنے اور الگ کرنے کا فتویٰ اس لئے دیا ہے تاکہ اس کے نقصان اور دوسرے شخص میں بیماری کے پھلاؤ سے بچا جاسکے۔
امام المواق المالکی رحمہ اللہ "التاج والإكليل" (2/ 555، ط. دار الكتب العلمية) میں فرماتےہیں: سحنون نے کہا ہے: ان پر جمعہ واجب نہیں ہے اگرچہ یہ لوگ کثیر تعداد میں ہوں، ہاں بغیر اذان کے باجماعت نمازِ ظہر ادا کرسکتے ہیں، لیکن وہ لوگوں کے ساتھ نماز جمعہ ادا نہیں کریں گے۔
ابنِ یونس رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کیونکہ نمازِ جمعہ کیلئے ان کا آنا لوگوں کیلئے ضرر کا باعث ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ علی آلہ وصحبہ وسلم نے تو لوگوں پر جمعہ کے روز غسل کرنا صرف اس لئے لازم کر دیا تھا کہ وہ اپنے کام کرتے کرتے آتے تھے ان کے پسینوں کی بو کی وجہ سے ایک دوسرے کو تکلیف ہوتی تھی، تو ان مریضوں کوجمعہ سے روکنا اس سے اولی ہے؛ کیونکہ وہاں لوگ جمع ہوتے ہیں، اور اس لئے بھی کہ اور جب شوہر کو کوڑھ لاحق ہو جانے کی صورت میں میاں بیوی کے درمیان تفریق کرنا جائز ہے تو اس کے اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان نمازِ جمعہ میں تفریق کرنا بدرجہ اولی جائز ہے، پس سحنون کا قول بہت واضح ہے۔
الإمام الرعيني الحطاب المالكي في "مواهب الجليل" (2/ 184، ط. ار الفكر)میں فرماتے ہیں: اگر کوئی مسجد میں اپنے پڑوسی سے تکلیف محسوس کر رہا ہو اس طرح کہ وہ بیوقوف اور بد کلام ہو یا اس سے بد بو آ رہی ہو یا کوڑھ وغیرہ جیسے موذی مرض کا مریض ہو اور اس جیسی ہر وہ چیز جس کے کسی کو لاحق ہونے سے ساتھ والوں کو تکلیف پہنچ رہی ہو اور وہ لوگ اس شخص کو مسجد سے نکالنا چاہیں تو اسے نکالنا اور مسجد سے دور رکھنا ان کیلئے جائز ہے، ایسا کرنا تب تک جائز ہے جب تک یہ علت اس شخص میں موجود ہے اور جب یہ علت عافیت، توبہ یا کسی اور وجہ سے زائل ہو جاۓ تو وہ دوبارہ مسجد میں آ سکتا ہے۔ اور میں نے اپنے شيخ أبو عمر أحمد بن عبد الملك بن هشام رحمه الله کو ایک ایسے شخص کے بارے میں فتوی دیتے ہوۓ دیکھا ہے جس کے بارے میں نمازیوں نے شکایت کی اور کہا کہ یہ شخص مسجد میں انہیں اپنی زبان اور اپنے ہاتھ سے تکلیف دیتا ہے؛ پس آپ نے فتوی دیا کہ اسے مسجد سے نکال دیا جاۓ اور اسے دور رکھا جاۓ اور یہ شخص ان کے ساتھ نماز میں شامل نہ ہو۔
شافعیہ کے نزدیک: شافعی فقہاء کرام بھی موذی امراض والوں کو جماعت اور مساجد میں آنے سے منع کیا گیا ہے تاکہ لوگوں کو نقصان نہ ہو
امام ابن حجر الهيتمي "المنهاج القويم" (ص: 150، ط. دار الكتب العلمية) میں فرماتے ہیں: اور اسی طرح کوڑھی اور ابرص ہے، علماء کرام نے فرمایا ہے: ان دونوں کو مسجد سے، باجماعت نماز سے اور لوگوں میں میل جول سے روکا جاۓ گا۔ بلکہ نقصان کے ڈر کی وجہ سے انہیں منع کرنا واجب قرار دیا ہے " الفتاویٰ الکبریٰ " میں فرماتے ہیں کہ کوڑھ کی طرح کی بیماری میں منع کا سبب : اس سے نقصان کا ڈر ہے پس اس کو روکنا واجب ہے۔
حنابلہ کے نزدیک: حنابلہ فقہاء کرام کہتے ہیں کہ جسے موذی مرض ہو تو وہ لوگوں کے اجتماع میں نہ آۓ چاہے مسجد یا نماز کے علاوہ کوئی بھی اجتماع ہو ۔
علامہ الحجاوی المقدسی الحنبلی " الاقناع " میں لکھتے ہیں ( اس سے مراد یہ ہے کہ اگرچہ مسجد کے علاوہ ہو یا نماز کے علاوہ کوئی اور اجتماع ہو، اسی طرح وہ بھی جو برص اور کوڑھ جیسے موذی مرض کا مریض ہو)

علامہ البھوتی الحنبلی " کشاف القناع " میں قلم طراز ہیں (کوڑھ کے مریضوں کیلئے جائز نہیں کہ وہ عام صحت مند لوگوں کے ساتھ اختلاط کریں اور نہ کسی معین شخص سے اس کی اجازت کے بغیر اس کا ملنا جائز ہے، اور ولی امر کے لئے ضروری ہے کہ وہ انہیں صحت مند لوگوں سے ملنے سے روکے اور انہیں الگ مکان میں ٹھہرائے اور اسی طرح جب ولی امر ان سے یا مجذوم سے ہاتھ اٹھا لے (یعنی نہ روکے) یا مجذوم باز نہ آۓ تو گنہگار ہو گا اور اگر وہ علم ہونے کے باوجود واجب کو ترک کرنے پر مصِرؔ رہا تو فاسق ہو جاۓ گا) صاحبِ " الاختیارات " نے بھی یہی بات کی ہے اور فرمایا: اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ علی وآلہ وصحبہ وسلم کی سنت اور آپ کے خلفاء راشدین رضی اللہ عنھم اجمعین کی سنت بھی یہی ہے اور اسی طرح اس کو علماء نے ذکر کیا ہے۔

قریطینہ اور گورنمنٹ کی طرف سے اجتماعات پر لگائی گئی پابندی کا سبب وبائی مرض اور اس کے پھیلنے کا خوف ہے، یہ ایک ایسا امر ہے جس کا شریعتِ مطہرہ نے اعتبار کیا ہے؛ اور شریعتِ مطہرہ نے خوف یا مرض یا جو عذر ان دونوں کے معنی میں ہو کی صورت میں مسلمانوں سے جماعت کو ساقط کر دیا ہے:
پس حضرت عبد اللہ ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم نے فرمایا: «مَنْ سَمِعَ الْمُنَادِي فَلَمْ يَمْنَعْهُ مِنَ اتِّبَاعِهِ عُذْرٌ لَمْ تُقْبَلْ مِنْهُ تِلْكَ الصَّلَاةُ الَّتِي صَلَّاهَا» یعنی: جس نے مؤذن کو سنا اور اس کی اتباع کرنے میں اسے کوئی عذر مانع نہیں تھا تو اس نے جو (اکیلے) نماز پڑھی ہے اس کی طرف سے قبول نہیں کی جاۓ گی۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: اس کا عذر کیا ہو سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم نے فرمایا: «خَوْفٌ أَوْ مَرَضٌ» یعنی ڈر یا بیماری۔ أخرجه أبو داود والدارقطني في "سننهما"، والحاكم في "المستدرك"، والبيهقي في "السنن الصغير"، و"السنن الكبرى"، و"معرفة السنن والآثار" اور امام بيہقي رحمہ اللہ نے فرمایا: جو عذر ان دونوں کے معنی میں ہوں ان کا بھی یہی حکم ہو گا ۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنھما کے سامنے جمعہ کے دن یہ بات ذکر کی گئی کہ بدری صحابی سعید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ تعالی عنھما بیمار ہیں، تو آپ ان کی طرف سوار ہو کر چل دیے اور نماز جمعہ چھوڑ دی، حالانکہ سورج بلند ہو چکا تھا اور جمع کا وقت قریب تھا۔ اسے امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں روایت کیا ہے۔
امام ابن عبد البر المالكي "التمهيد" (16/ 244، ط. أوقاف المغرب) میں فرماتے ہیں: حدیث مبارکہ میں «مِن غَيرِ عُذْرٍ» ”کسی غذر کے بغیر“ کی جہاں تک بات ہے تو اس ”عذر“ کے قول میں بڑی وسعت ہے؛ اس کا اجمالی مطلب یہ ہے کہ ہر وہ مانع جو اس کے اور نماز جمعہ کے درمیان حائل ہو، جو تکلیف دہ ہو اور اس سے نقصان کا اندیشہ ہو، یا ایسا مانع ہے جس سے وہ فرض باطل ہو جاۓ جس کا بدل نہیں ہوتا؛ ان اعذار میں سےکچھ یہ ہیں: ظالم حکمران، مسلسل تیز بارش اور رکاوٹ بننے والی بیماری وغیرہ۔
فقہاء کرام نے بیان کیا ہے کہ جن کی نمازِ جمعہ یا جماعت کسی عذر کی وجہ سے فوت ہو گئی ان کو اس کے اجر سے محروم نہیں کیا جاۓ گا بلکہ انہیں اس کا اجر ملے گا۔
امام بدر الدين العيني الحنفي "عمدة القاري" (6/ 196، ط. دار إحياء التراث العربي) میں فرماتے ہیں: اور یہی حکم ہے اگر اس کے ہاں کوئی ایسا مریض ہو جس کے فوت ہو جانے کا خوف ہو، پس سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنھما نے سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنھما کے ایک بیٹے کی عیادت کی جن کے بیمار ہونے کے بارے آپ کو بتایا گیا تو آپ ان کے ہاں آ گۓ اور جمعہ چھوڑ دیا۔ امام عطاء اور امام اوزاعی رحمھما اللہ کا یہی مذہب ہے۔
امام شافعی رضی اللہ تعالی عنہ امر الوالد میں فرماتے ہیں: جب اس کو اس کے فوت ہو جانے کا خوف ہو۔ امام عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب آپ کے والد پر چیخ وپکار کی جارہی ہو اور امام خطبہ دے رہا ہو تو جمعہ چھوڑ کر باپ کی طرف چلے جاؤ۔ اور امام حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جسے باپ کے فوت ہو جانے کا خوف ہو اس کیلئے بھی جمعہ چھوڑنا جائز ہے۔
امام ابن رشد المالكي "البيان والتحصيل" (1/ 502، ط. دار الغرب الإسلامي) میں فرماتے ہیں: مریضوں اور قیدیوں کے بارے میں مشہور قول یہ ہے کہ یہ لوگ باجماعت نماز ادا کر سکتے ہیں؛ کیونکہ یہ ترکِ جمعہ پر مغلوب ہیں۔۔ امام ابنِ قاسم رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ (باجماعت نماز ادا کرنے کے بعد) وہ اعادہ نہیں کریں گے، یہی بات اصبغ نے بغیر عذرکے جمعہ چھوڑنے والوں کے بارے میں فرمائی ہے، اور یہی بات اظہر ہے، کیونکہ ایک قول کے مطابق یہ لوگ باجماعت نماز ادا کرسکتے ہیں اس لئے کہ جب وہ جمعہ چھوڑنے میں معذور ہیں تو جماعت کے ثواب سے محروم نہ ہوں۔
امام تقي الدين الحصني الشافعي "كفاية الأخيار" (ص: 142، ط. دار الخير) میں فرماتے ہیں: پس مریض پر اور جو اس کے معنی میں ہو جیسے بھوکا، پیاسا، ننگا اور ظلم سے خائف پر جمعہ واجب نہیں ہے۔۔ مریض پر جمعہ واجب نہ ہونے کی دلیل سابقہ حدیث مبارک ہے، اور باقیوں کی دلیل اس پر قیاس ہے، اور مریض کے معنی میں یہ لوگ ہیں: جسے اسہال لگے ہوں اور اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکتا اور مسجد میں گندگی گرنے کا خوف ہو، تو اس صورت میں اس کا مسجد میں داخل ہونا حرام ہے؛ یہ بات امام رافعی رحمہ اللہ نے ” کتاب الشھادات “ میں صراحت سے بیان کی ہے اور اس سے جمعہ ساقط ہونے کو امام المتولی رحمہ اللہ نے صراحت سے بیان کیا ہے۔
امام المرداوي الحنبلي "الإنصاف في معرفة الراجح من الخلاف" (2/ 300، ط. دار إحياء التراث العربي) میں فرماتے ہیں: مریض ترکِ جمعہ اور ترکِ جماعت میں بلا اختلاف معذور ہے اور مرض لاحق ہو جانے کا خوف بھی ترکِ جمعہ اور ترکِ جماعت میں عذر ہو گا۔

اگر بیماری اور اس سے خوف کی حالت میں یہ حکم ہے تو موجودہ صورتِ حال میں معاملہ تو لوگوں کی جانوں اور ان کی زندگیوں کے تحفظ کا ہے، پوری دنیا اس مہلک بیماری کا سامنا کر رہی ہے، جس نے ہزاروں لوگوں کی جان لی اور درجنوں ممالک میں پھیلا گیا ہے!
اور ہر ریاست اپنے شہریوں کی سلامتی اور امن کے حصول کی پابند ہے اور یہ اس کی ذمہ داری ہے، بلاشبہ شریعت اسلامیہ نے ولی امر کو یہ اختیار دیا ہے کہ اس کے حصول کے لئے ضروری وسائل اور لازمی اقدامات اٹھاۓ، کیونکہ اقتدار اور مسؤولیت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، اور حاکم کا اپنی رعایہ پر تصرف ان کلی مقاصد اور قابلِ رعایت مفادات سے مشروط ہوتا ہے جنہیں وہ عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے۔
اب رہی ان حقائق سے منہ موڑنے کی بات تو اگر کوئی شخص یہ کہہ کر کہ مجھے رب کائنات پر بروسہ ہے، اور اسے وباء کو دشمنوں کی افواہ قرار دے کر نظر انداز کر دے تو یہ انسانی جانوں کی بے حرمتی اور نورِ عقل کی توہین ہے اور یہ معقول اور منقول کے بھی مخالف ہے، صورتِ واقع کا انکار کرنا عقلمند کا شیوہ نہیں ہوتا اور اسلامی شعائر کے قائم کرنے کے دعوے کے ساتھ لوگوں کو خطرے میں ڈالنا جائز نہیں ہے، بلکہ علماء وقت پر لازم ہے کہ وہ اس بلاء کے پھیلاؤ کے سامنے ڈٹ جائیں، تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ وباء اپنا اثر کرجائے اور پھر دوا بھی اس پر مؤثر ثابت نہ ہو، پس اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گڑگڑاتے ہوئے دعائیں التجائیں کریں کہ وہ ہمیں اس بلاء سے نجات دے۔ اورانسانی جانوں کی حفاظت کی خاطر واجب ہے کہ اس وبائی مرض سے نمٹنے کے لئے ذمہ دار حکام، ماہرین اور ڈاکٹروں وغیرہ کی ہدایات پر عمل کریں اور اس سے بچاؤ اور علاج کیلئے ان کی ہدایات کی پابندی کریں؛ کیونکہ اس مجال کے یہی وہ اھل ذکر ہیں جن کی آراء لینا ضروری ہے؛ اور رب کریم نے ہمیں اھل ذکر کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے، پس اللہ تعالی فرماتا ہے : ( فاسألوا أهل الذكر ان كنتم لا تعلمون)(النحل: 43) یعنی ” پس اہل ذکر سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے“۔
اور کرونا وائرس کو دشمنان اسلام کی افواہیں قرار دے کر مساجد میں جمعہ، جماعت، سیمینارز اور اجتماعات کے قیام پر اصرار کرنا اور لوگوں کو حکومت کی ہدایات کی مخالفت پر اکسانا، یہ حقیقت سے بے خبری ہے اور لوگوں کو مشقت اور تنگی میں ڈالنا، اور انکی جانوں کو تباہی کی طرف دھکیلنا ہے اور ایسا کہنے والے دوسرے لوگوں کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں، لہٰذا ممکنہ طور پر شہریوں کو لاحق ہونے والی بیماری اور تباہی کے یہی لوگ ذمہ دار ہونگے۔
شریعت نے ان لوگوں کی تردید کی ہے جنہوں نے بغیر علم کے اللہ پر جھوٹ باندھا اور اللہ تعالی نےاسے شرک کے ساتھ ملا کر بیان کیا ہے پس اللہ تعالی نے فرمایا : " قل إنما حرم ربي الفواحش ما ظهر منها و ما بطن والاثم والبغي بغير الحق وأن تشركوا بالله ما لم ينزل به سلطانا وان تقولوا علي الله مالا تعلمون " (الأعراف : 33) یعنی: ”(اے رسول محتشم) فرمایئے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام علانیاہ اور پوشیدہ فحش باتوں کو اور گناہ کو، اور یہ کہ تم اللہ تعالی کے ساتھ ایسی چیز کو شیئ کو شریک ٹھہراو جس کے لئے اس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور یہ کہ تم لوگ اللہ تعالی کے ذمے ایسی لگا دو جو جسے تم نہیں جانتے“۔
تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے بددعا کی ہے جو لوگوں کو تکلیف اور اذیت دیتا ہے، اور اپنی جہالت اوراپنے باطل ففتاوی سے لوگوں ہلاکت کا سبب بنتا ہے، نہ وہ دین میں مقاماتِ رخصت کو جانتا ہے نہ ہی ان متخصصین علماء سے پوچھتا ہے ٓجو اصلاح اور فلاح اور کامیابی کی طرف لوگوں کی راہنمائی کرتے ہیں۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللّہ عنہما سے مروی ہے کہ " ہم سفر پر نکلے پس ہم میں ایک ساتھی کا سر پتھر سے زخمی ہو گیا، پھر اسے احتلام ہوگیا تو اس اپنے ساتھیوں سے پوچھا: کیا میرے لئے رخصت ہے کہ میں تیمم کرلوں؟ سب نے کہا : ہمارے خیال میں آپ کے لئے کوئی رخصت نہیں ہے، آپ پانی پر قادر ہو، پس اس صحابی نے غسل کیا اور فوت ہوگیا، جب ہم پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوۓ اور اس واقعہ کے متعلق آپ ﷺ کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:انہوں نے اسے قتل کیا ہے اللہ تعالی انہیں ہلاک کرے؛ اگر انہیں علم نہیں تھا تو انہوں نے پوچھا کیوں نہیں؟ پس جہالت کی شفاء سوال کرنے میں ہے، اس کیلئے تو یہی کافی تھا کہ تیمم کر کے پٹی باندھ لیتا اور پھر پٹی پر مسح کر لیتا اور باقی جسم کو غسل دے دیتا۔ اس حدیث مبارکہ کو امام ابو داوود، امام نسائي، امام بيهقي اور امام دار قطني نے اپنی اپنی سنن میں اور امام ابن حبان اور امام ابن خزيمة اپنی صحيحین میں اور امام حاكم نے مستدرك میں نقل کیا اور پھراس کو سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کے ذریعے سے صحیح قرار دیا ہے۔
پس تاجدار ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث میں ان کو اس صحابی کا قاتل قرار دیا گیا کیونکہ انہوں نے بغیر علم کے فتوی دیا تھا اور ان کے فتوی موت کا سبب بن گیا تھا، اس حدیث پاک میں اتنی شدید وعید ہے کہ اگر یہ متشددین اسے جان لیں تو کبھی بغیر علم کے فتویٰ دینے کی جرات نہ کریں
امام ابو سلیمان الخطابی " معالم السنن " میں اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں: ( آپﷺ نے ان کے بغیر علم کے فتویٰ دینے کی وجہ سے انہیں بدعا دے کر ان کو وعید سنائی اور انہیں اس گناہ میں قاتل ٹھہرایا).
علامہ ابن ملک الکرمانی " شرح مصابیح السنہ " میں لکھتے ہیں: (ان کے لئے بددعا کی گئی کیونکہ انہوں نے اللہ تعالٰی کے اس فرمان میں غور وفکر نہیں کیا: (ما يريد الله ليجعل عليكم من حرج)(المائدة: 6)) یعنی اللہ تعالی تمہیں مشقت میں نہیں ڈالنا چاہتا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم نے ہر اس شخص کو تنبیہ کی ہے جو آپ ﷺ کی امت کو مشقت میں ڈالتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم نے اس کے لئے اسی مشقت کی بدعا کی ہے جس مشقت میں وہ حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو ڈال رہا ہے؛ کیونکہ جزاء اسی عمل کی جنس ہوتی ہے۔
پس ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اس گھر میں یہ فرماتے ہوۓ سنا ہے: ( اے اللہ جو میری امت کا ولی امر بنے اور اس نے ان کو مشقت میں ڈالا تو تو بھی اسے مشقت میں ڈال دے اور جو میری امت کا ولی امر بنے اور اس نے ان کے ساتھ نرمی کا سلوک کیا تو تو بھی اس سے نرمی اختیا فرما“۔ صحیح مسلم۔
امام نووی " شرح مسلم " میں لکھتے ہیں: اس حدیث میں لوگوں کو مشقت میں ڈالنے پر انتہائی بلیغ زجر وتوبیخ ہے اور ان پر نرمی کرنے کی بہت زیادہ ترغیب ہے اور اس معنی میں اور بھی احادیث آئی ہیں۔
" شرح المشکاۃ " میں اس حدیث پر امام الطیبی کا کتنا بلیغ کلام ہے اور وہ اس حدیث کی ایسے شرح کر رہے ہیں جیسے ان پر رحمت نبوی ﷺ کے انور اتر رہے ہوں اور آپ نے امتِ مصطفی ﷺ کو اس شخص کی طرح دعائیں دیں جیسے کوئی ان کی حالت کو محسوس کر رہا ہو اور ان میں زندگی گزار رہا ہو، آپ فرماتے ہیں ( میں کہتا ہوں کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقداس وہ ہے جس نے اپنی امت پر ہمدردی، شفقت اور رحمت کی انتہا کر دی، پس ہم زبان حال سے کہتے ہیں : اے اللہ اس گھڑی میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر رحم فرما اور اس بڑے کرب کی گھڑی سے انہیں نجات دے جس میں وہ مبتلا ہیں، يا من لا إله إلا أنت العظيم الحليم، لا إله إلا أنت رب العرش العظيم، لا إله إلا أنت رب السموات ورب الأرض رب العرش الكريم، اور جس بندے آمین کہا اللہ تعالی اس پر رحم فرماۓ] اهـ. اللهم آمين.
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کوئی کسی کو نقصان نہ پہنچاۓ، جس نے کسی کو نقصان پہنچایا اللہ اسے نقصان پہنچائے اور جس نے کسی کو مشقت میں ڈالا اللہ اسے مشقت میں ڈالے ) امام دارقطنی اور بیھقی نے اپنی سنن میں ، امام حاکم نے مستدرک میں اس حدیث کو روایت کیا۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو کاموں میں اختیار دیا گیا تو آپ ﷺ دونوں میں سے آسان کا انتخاب کیا۔ متفق علیہ۔ قاضی عیاض مالکی " اکمال المعلم" میں فرماتے ہیں: اس میں آسان اور آرام دہ کام کو اختیار کرنے اور تکلف اور طلبِ مطلق کو ترک کرنے کی دلیل ہے.
واجبات دینیہ اور اسلامی فرائض کے قیام کے نام پر میڈیکل حکام کی ہدایات اور احتیاطی تدابیر کی مخالفت کرنا اس لئے نا قابلِ قبول ہے کہ جان کی حفاظت شریعت کے پانچ اہم ترین مقاصد میں ایک ہے اور شرعی فرائض میں سے ایک اہم فرض ہے، اور یہ شریعت اسلامیہ کے ان پانچ کلی مقاصد میں سب سے مقدم ہے جن کی حفاظت کی خاظر تمام آسمانی شریعتیں آئی ہیں۔
حجۃ الاسلام امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ " المستصفی " میں فرماتے ہیں کہ (شریعت کے پانچ مقاصد ہیں: اور وہ لوگوں کے دین، جان، عقل، نسل اور مال کی حفاظت کرنا ہے ، پس ہر وہ شیئ جو ان پانچ اصولوں کی حفاظت کرنے کے ضمن میں ہو وہ مصلحت ہے اور ہر وہ چیز جو ان کو نقصان پہنچاۓ وہ فساد پر مبنی ہے اسے روکنا مصلحت ہے)
معاشرے کو لاحق نقصان اور متوقع خطرہ کے علاوہ اس میں شرعی ممانعت بھی ہے؛ کیونکہ جمعہ کا قیام ان کاموں میں سے ایک ہے جنہیں شریعت نےسلطان کے سپرد کیا ہے، وہ اس طرح کہ اسے قائم کرنے میں اس کی اجازت معتبر ہوتی ہے؛ کیونکہ نبی کریم -صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم-، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور ان کے بعد آئمہ متبوعین رحمھم اللہ کے زمانے میں بھی نمازِ جمعہ کا قیام سلطان کی اجازت کے بغیر نہیں ہوتا تھا، اور صحابہ کرام اور تابعین کی نصوص سے یہی ملتا ہے کہ نمازِ جمعہ کا قیام غیر متنازع امامِ وقت کے امور میں سے ہے اور یہی طریقہ مسنون رہا ہے اور اسی پر اجماع ہے، ہاں بعض علماء کہتے ہیں کہ ولی عہد کی اجازت نماز کے صحیح ہونے کیلئے شرط ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ ولی امر کا ادبی حق ہے نماز اس کے بغیر بھی صحیح ہو جائے گی۔ اور اس باات میں اختلاف ہے کہ اجازت لینے میں جب کوئی رکاوٹ حائل ہوگئی ہو جیسے طویل مسافت اور حاکم کا معزول ہو جا نا وغیرہ، تو جو علماء ولی کے اذن کے شرط نہ ہونے کے قائل ہیں وہ ان ہنگامی حادثات کو دیکھتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ہر جمعہ میں تفصیلی اجازت لینے میں دشواری ہے، لہذا کسی نے اسے واجب کہا اور کسی نے مستحب، اور جمھور علماء عدم اشتراط اور عدم ایجاب کے قائل ہیں؛ کیونکہ فقہی قاعدہ ہے کہ "جب معاملہ تنگ ہوجائے تو اسے وسعت دی جاتی ہے"، لیکن اس بات میں کسی کا اختلاف نہیں کہ نمازِ جمعہ کے قیام کے حق میں ولی عہد کے ساتھ تنازع کرنا حرام ہے؛ کیونکہ اس میں ولی عہد کی حکم عدولی ہوتی ہے اور یہ فتنے فساد کا سبب بنتا ہے۔
امام عبدالرزاق نے " المصنف " میں امام معمر سے اور انہوں نے امام زھری سے روایت کیا ہے کہ مسلمہ بن عبد الملک نے ان کو خظ لکھا کہ میں ایسی بستی میں رہتا ہوں جس میں بہت سا مال ہے، اھل وعیال اور لوگ بھی ہیں، کیا میں ان کو نمازِ جمعہ پڑھا دیا کروں جبکہ میں امیر نہیں ہوں؟ پس زھری نے انہیں جواب میں لکھا: مصعب بن عمیر رضی اللّہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اھل مدینہ کو جمعہ پڑھانے کی اجازت طلب کی تو آپ ﷺ نے انہیں اجازت مرحمت فرما دی تھی، پس انہون نے لوگوں کو نمازِ جمعہ پڑھایا حالانکہ اس وقت لوگ بہت کم تھے، پس اگر آپ مناسب سجھیں تو ھشام کو خط لکھیں اور وہ اجازت دے دیں تو آپ ایسا کر سکتے ہیں)۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم، تابعین اور سلف صالحین رحمھم اللہ کا بھی عمل یہی رہا ہے۔
سیدنا علی کرم اللہ وجھہ الکریم فرماتے ہیں: جمعہ کے دن کوئی جماعت جائز نہیں ہے مگر امام وقت کے ساتھ) رواہ ابن ابی شیبہ فی " المصنف"
ابو احمد بن زنجویہ اپنی کتاب " الأموال " ، اور ابن حزم " المحلی " میں ابو عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے تھے، فرمایا : ( زکوٰۃ ، حدود، خراج اور جمعہ سلطان کے سپرد ہیں)
امام طحاوی حنفی " مختصر اختلاف العلماء " میں فرماتے ہیں کہ ( ہم نہیں جانتے کہ کسی ایک صحابی نے بھی اس کی مخالفت کی ہو)
ابو بکر بن ابی شیبہ " المصنف " میں اور ابن زنجویہ " الأموال " میں حضرت عبداللہ بن محیریز سے روایت کرتے ہیں: حدود، خراج، جمعہ اور زکوٰۃ سلطان کے سپرد ہیں
ابن زنجویہ " الأموال " میں حسن بصری سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرمایا کرتے تھے: چار چیزوں میں امام کے علاوہ کسی کو حقِ تصرف نہیں:حدود، قضاء، جمعہ، اور زکوٰۃ)
ابن ابی شیبہ " المصنف " میں عطاء الخراسانی سے روایت کرتے ہیں:( زکوٰۃ، جمعہ اور حدود سلطان کے سپرد ہیں)
امام قرطبی احکام القرآن میں امام سھل بن عبداللہ التستری سے نقل کرتے ہیں: سات چیزوں میں سلطان کی اطاعت کرو: درھم، دینار، مکاییل اور اوزان بنانے میں، احکام مین، حج میں، جمعہ میں، عیدین میں، اور جھاد میں )
امام السرخسی الحنفی رحمہ اللہ" المبسوط " میں فرماتے ہیں: ہمارے نزدیک سلطان کی اجازت جمعہ کی شرائط میں سے ایک شرط ہے۔۔۔۔ اور ہماری دلیل حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ والی حدیثِ مبارک ہے جس میں نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم نے فرمایا:” وَلَهُ إمَامٌ جَائِرٌ أَوْ عَادِلٌ“ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تارک جمعہ کے ساتھ وعید ملحق کرنے کیلئے امام کا ہونا شرط قرار دیا ہے، اور اثر میں ہے کہ چار چیزیں ولی امر کے لئے ہیں : ان میں جمعہ بھی ہے) کیونکہ جمعہ کے قیام کے لئے لوگ جماعات چھوڑتے ہیں اور اگر اس میں سلطان کی شرط نہ لگائی جائے تو یہ فتنے کا سبب بن سکتا ہے اس طرح کہ کچھ لوگ جامع مسجد میں آئیں گے اپنی غرض کی خاظر جلدی سے نمازِ جمعہ ادا کر کے چلے جائیں تو باقی لوگوں نمازِ جمعہ فوت ہو جاۓ گی اور اس میں جو فتنہ ہے وہ کسی پر مخفی نہیں، اس لئے یہ کام ولی عہد کے سپرد کیا گیا ہے جس کے سپرد لوگوں کے احوال اور ان کے درمیان عدل کرنا ہے کیونکہ وہی فتنے کو ختم کر سکتا ہے)
جمعہ کے معاشرتی پہلووں اور اس کے ادبی فوقیت اور معاشرتی وقار کے مظاہر کو بیان کرتے ہوۓ فقہاء احناف نے اس فتنہ کے معنی کو بھی واضح کیا ہے جو سلطان کی اجازت کے بغیر جمعہ پڑھانے سے پیدا ہوتا ہے۔
امام کاسانی حنفی " بدائع الصنائع " میں فرماتے ہیں کہ (اس نماز میں بہت بڑا اجتماع ہوتا ہے، اور اھل شہر کی امامت کروانا عزت وشرف کی بات ہے ؛ لہٰذا جمعہ پڑھانے کیلے ہر وہ شخص کوشش کرے گا، جس کی جبلت میں بلند ہمت اور صدارت کی طرف میلان ہو، اس طرح ان کے درمیان کشمکش اور تنازع ہو پیدا ہو گا جو باہمی لڑائی کا سبب بنتا ہے، لہذا یہ کام ولی عہد کو سونپا گیا ہے کہ یا وہ خود پڑھاۓ یا جو اس منصب کا اھل ہو اسے مقرر کرے تاکہ باقی لوگ ولی کی اطاعت یا پھر اس کی سزا کے ڈر سے لڑائی جھگڑے سے باز رہیں؛ کیونکہ اگر یہ معاملہ سلطان کے سپرد نہ کیا جائے تو پھر یا تو یہ ہو گا کہ جو بھی گروہ مسجد میں آۓ وہ اپنا جمعہ کروا کر چلیں جائیں اس سے جمعہ کا فائدہ ختم ہوجاتا ہے اور وہ فائدہ ہے کمالِ فضیلت کے حصول کی خاطر لوگوں کا جمع ہونا، اس صورت میں وہ جمع نہیں ہو پائیں گے، یا پھر ایسا ہو گا کہ جو گروہ پہلے آئیں گے وہ نمازِ جمعہ ادا کر لیں گے اور باقیوں کی نماز جمعہ فوت ہو جاۓ گی؛ لہٰذا حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ جمعہ کا قیام سلطان کے سپرد ہو تاکہ اھل وطن کے جمع ہونے پر اور مستحب وقت کا لحاظ کرتے ہوۓ یا تو سلطان بذات خود پڑھاۓ یا اپنے نائب سے نمازِ جمعہ قائم کروائے، واللہ اعلم)۔
امام ابن عبد البر " التمھید " میں فرماتے ہیں کہ (اس بات میں علماء کا اختلاف نہیں کہ جو جمعہ سلطان ہی قائم کرواۓ گا، یہی سنت جاریہ ہے، لیکن اختلاف اس صورت میں ہے جب کوئی واقعہ پیش آ جاۓ ، جیسا کہ امام فوت ہو جاۓ یا اس کو قتل ہو جائے، یا وہ معزول ہو جائے اور جمعہ آجائے۔۔۔)
تمام فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اجازت طلب نہ کرنا ولی عہد کی اہانت باعث بنے یا اس نے اجازت طلب کرنا لازم کیا ہو اور اجازت نہ لینے سے اس کی حکم عدولی ہو رہی ہو تو اس سے اجازت لینا شرط ہو گا۔ اس میں کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا، چاہے وہ جمعہ کیلئے اس کی اجازت قائل ہیں یا نہیں ہیں سب کے سب اس صورت میں سب متفق ہیں، کہتے ہیں کہ ولی عہد کے منع کرنے کے باوجود نمازِ جمعہ قائم کرنا ولی کے ساتھ مخالفت اور ریاست کی شان و شوکت کی خلاف ورزی ہے اور اس میں عناد اور مخالفت کا اظہار ہے اور یہ سب چیزیں اسلامی شریعت میں حرام ہیں۔
امام القرافی المالکی " الفروق " میں فرماتے ہیں:(اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر امام کہے : کہ میری اجازت کے بغیر جمعہ قائم نہ کرنا تو یہ اس کا حکم نہیں ہوگا، -اگرچہ یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے کہ کیا جمعہ کیلئے سلطان کی اجازت ضروری ہے یا نہیں - امام کی اجازت کے بغیر لوگ جمعہ ادا کر سکتے ہیں مگر جب ریاست کی شان و شوکت کی خلاف ورزی ہو رہی ہو اور اس میں عناد اور مخالفت کا اظہار ہو رہا ہو تو اس صورت اس کی اجازت کے بغیر جمعہ قائم کرنا منع ہے۔
تاہم جمعہ کی نماز میں سلطان کی اجازتِ فعلی پراختلاف کا تصور ان معاشرتی نظاموں میں بھی کیا جاسکتا ہے جن میں شہروں اور گرد ونواح کے لوگ اپنے اماموں اور خطیبوں کو خود متعین کرتے ہیں تو اس صورتحال میں یہ سمجھ آتا ہے کہ جمعہ قائم کرنے کیلئے حکمران سے اجازت لینا اس کا ایک ادبی حق ہے، شرعی واجب یا حتمی شرط نہیں ہے، کیونکہ اجازت کا اعتبار نہ کرنا ولی امر کے ساتھ تنازعے کا مقتضی نہیں ہے کیونکہ مروجہ معاشرتی عرف اکثر وبیشتر شہر اور دیہات کے لوگوں کو ان معاملات میں ایک قسم کی آزادی اور اختیار دیتے ہیں اور اسی جہت پر ان فقہاء کا قول محمول کیا جاۓ گا جو جمعہ کیلئے ولی امر کی اجازت کے واجب ہونے کے قائل نہیں ہیں ۔
لیکن اس کی اجازت کو بالکل نظر انداز کرنا اور اعتبار نہ کرنا کسی ایسی اداریاتی سٹیٹ میں ممکن اور متصور نہیں ہے جس میں سربراہِ مملکت کی طرف سے اختیارات تقسیم کیے گئے ہیں اور ہر وزیر کی ذمہ دایاں طے شدہ ہوتی ہیں اور مختلف اداروں کو مختلف کاموں اور تخصصات کے لئے قائم کیا گیا ہوتا ہے، اور مصلی جات اور جامع مسجدوں وغیرہ میں دینی امور کے لیے مذہبی امور کی ایک وزارت بنائی جاتی ہے جو اپنےآئمہ اور خطباء کو متعین کرتی ہے اور اپنے واعظین بھیجتی ہے اور تمام دینی امور کو منظم کرتی ہے، پس یہی وزارت عبادت گاہوں کا، ان کے سرپرستوں کا اور ملک میں دعوت وتبلیغ کرنے والوں کا ”ولی امر“ ہے، بلاشبہ اس وزارت کا سب سے اہم کام نماز جمعہ کو قائم کروانا ہے؛ یعنی یہ ادارہ جاتی نظام نمازِ جمعہ کے قیام کیلئے ولی کی اجازت لازم بنا دیتا ہے، اور اجازت نہ لینا اس کی مخالفت اور حکم عدولی بن جاتی ہے؛ لہٰذا جس ملک میں بھی مساجد اور دعوت وتبلیغ کے کام وزارت مذہبی امور کے تحت ہوں اس کے تمام آئمہ، خطباء اور مساجد کے سرپرستوں پر اس وزرت کے احکام اور قوانین پر عمل کرنا واجب ہے؛ کیونکہ کسی بھی سِول اسٹٰیٹ کے معاشرتی نظام میں زندگی گزارنے کے لئے اس کے ان معاشرتی قوانین اور معاہدوں پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے جو اختیارات کی تقسیم کے تصور، تخصص کے مطابق ذمہ داریاں دینے اور حقوق اور فرائض میں موازنہ کے تصورات پر مبنی ہیں۔
اسی بناء پر اس سوال کے جواب میں ہم کہیں گے کہ فغانستان کے تمام شہریوں پر شرعا واجب ہے کہ وہ گورنمنٹ کے طبی حکام کی ہدایات ہر عمل کریں جو کہ تعلیمی، سماجی اور خدماتی مراکز کو بند کرنے کا تقاضہ کر رہے ہیں جبکہ مساجد میں جماعت اور جمعہ موقوف کرنا چاہتے ہیں اور یہ سب کرونا وائرس کی وباء کو پھیلنے سے روکنے کے لئے ہے جسے ایک عالمی وباء قرار دیا گیا ہے، کیونکہ یہ مہلک متعدی بیماری ہے، یہ آسانی اور تیزی سے لوگوں کے میل جول اور چھونے سے منتقل ہو جاتی ہے، اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کو اس کا علم ہوتا ہے نہ ہی اس پر اس کی علامات ظاہر ہوتی ہیں اور وائرس میں مبتلا ہوجاتا ہے یا اس کا پرورش گاہ بنا ہوتا ہے۔
قواعد شریعہ اسلامیہ میں سے ایک مسلُم قاعدہ ہے " أن درء المفاسد مقدم علي جلب المصالح" یعنی: مفاسد کو روکنا مصلحت کے حصول پر مقدم ہے اور اسی وجہ اسلامی شریعت میں امراض اور متعدی بیماریوں سے بچاؤ کے لئے نظام وضع کئے ہیں، اور قرنطینہ کا اصول قائم کیا ہے اور احتیاطی تدابیر اپنانے پر زور دیا ہے اور ان بیماریوں میں مبتلا لوگوں کے ساتھ میل جول سے منع کیا ہے اور حکمرانوں کو عوام کی مسؤلیت شونپی ہے اور انہیں اپنے فرائض کی ادائیگی کے لئے اختیار دیا کہ عوام کی دینی اور دنیاوی مصلحت کی خاطر اقدامات کریں اور لوگوں ان کی حکم عدولی اور ان کے احکام کی خلاف ورزی کرنے سے منع کیا ہے۔ فقہاء کرام نے وضاحت سے بیان کیا ہے کہ کوڑھی اور جو اس کے حکم میں ہیں جیسے متعدی امراض والے مریض، ان سے جمعہ اور جماعت کے ساقط ہے اور اذیت کے سبب کو روکنے اور ضرر کے مادے کو کنٹرول کرنے کیلئے ان کا لوگوں سے الگ رہنا واجب ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی نیت کا اعتبار سے، ان کے عذر کی رعایت کرتے ہوۓ اور لوگوں کو تکلیف سے بچانے کے بدلے انہیں جماعت کا ثواب ملے گا۔
اور جہاں تک جمعہ کے قیام کا مسئلہ ہے تو چونکہ اس میں امام کو مقتدیوں پر ادبی فوقیت ہوتی حاصل ہوتی ہے اس وجہ سے نمازِ جمعہ کا قیام حاکمِ وقت کی نظام سازی اور اس کی عام اجازت کے ساتھ مشروط ہوگا؛ تاکہ فتنے اور تنازعے کا سدؔ باب ہو سکے۔ اور قیامِ جمعہ میں حاکمِ وقت کی اجازت کے شرط ہونے میں فقہاء کرام کے اختلاف کے باوجود اس بات میں سب کا اتفاق ہے کہ جب ترکِ اجازت حاکمِ وقت کی ولایت کی تحقیر کا باعث ہو یا اس حکم عدولی کا سبب ہو تو قیامِ جمعہ اس کی اجازت کے ساتھ ہی مشروط ہو گا۔
اورعلماء پر واجب ہے کہ صورتِ واقعہ کے ساتھ ساتھ نتائج پر بھی نظر رکھیں تاکہ اتنا نقصان نہ ہوجاۓ کہ جس تلافی نہ سکے، اس لئے اس وباء کو غیر اہم سمجھنا اور اس کے پھیلاؤ کونظر انداز کرنا جائز نہیں ہے بلکہ واجب ہے کہ ربِ کائنات کے حضور عاجزی و انکساری کے ساتھ دعائیں اور التجائیں کی جائیں۔ گورنمنٹ جمعہ اور جماعت سے روکنے کے احکام جاری کرنے باوجود فرائض اور شعائرِ دین کی حفاظت کے نام پر مساجد میں جمعہ اور جماعت کے قیام پر اصرار کرنا حرام ہے، کیوںکہ جان کی حفاظت شریعت کے پانچ اہم ترین مقاصد میں سے ایک ہے۔ پس تمام شہریوں پر واجب ہے کہ اس وبائی وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے حکومت کے بتاۓ ہوۓ احتیاطی احکامات اور حفاظتی اقدامات پر عمل کریں۔
اس دعائیہ کلمات کے ساتھ اختتام کرتے ہیں: اے اللہ اس گھڑی میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر رحم فرما اور ان کے ساتھ ہمدردی والا معاملہ فرما اور انہیں اس کرب کی گھڑی سے نجات عطا فرما جس میں وہ ہیں " يا من لا اله الا انت العظيم الحليم، لا اله الا انت رب العرش العظيم، لا اله الا انت رب السموات ورب الارض رب العرش الكريم!.

والله سبحانه وتعالى أعلم.
 

Share this:

Related Fatwas