مرد ڈاکٹر براۓ امراضِ نسواں وزچگی ...

Egypt's Dar Al-Ifta

مرد ڈاکٹر براۓ امراضِ نسواں وزچگی سے عورت کا چیک اپ کروانا

Question

کیا عورت کیلئے مرد ڈاکٹر براۓ امراضِ نسواں وزچگی سے چیک اپ کروانا جائز ہے یا ضروری ہے کہ لیڈی ڈاکٹر کے پاس ہی جاۓ؟ 

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد! شرعا یہ بات مسلم ہے کہ عورت کے چہرے اور ہاتھوں اور کچھ علماء کے نزدیک پاؤں کے علاوہ باقی سارا جسم ستر میں شامل ہے، ان اعضاء کے علاوہ جسم کے کسی بھی عضو کی طرف دیکھنا اجنبی کیلئے حرام ہے، سواۓ ضرورت کے، جیسے ڈاکٹر، دائی اور انجیکشن لگانے والا، یہ بھی بقدرِ ضرورت دیکھیں گے اس سے تجاوز نہیں کریں گے، اصل یہ ہے کہ جب مریض عورت ہو تو اگر ممکن ہو تو اس کی ڈاکٹر بھی عورت ہی ہو؛ کیونکہ ایک جنس کا اپنی جنس کی طرف دیکھنا دوسری جنس کی طرف دیکھنے سے خفیف ہے، اگر یہ ممکن نہ ہو اور ڈاکٹر کا اجنبی عورت کی طرف دیکھنا ضروری ہو تو مرض والے عضو کے علاوہ باقی سارا جسم ڈھانپ دیا جاۓ، پھر ڈاکٹر دیکھے اور بقدرِ استطاعت باقی جسم کی طرف دیکھنے سے اپنی نظر کو بچاۓ، اسی طرح لیڈی ڈاکٹر بھی ولادت کے دوران اور کنوارہ پن کے چیک اپ میں شرمگاہ کو دیکھتے وقت اسی طرح کرۓ گی؛ کیونکہ ضرورت کیلیے بقدرِ ضرورت ہی جائز ہوتا ہے۔
اور اس میں اصل اللہ تعالی کا یہ ارشادِ گرامی ہے : ﴿قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ﴾ [النور: 30]، یعنی: ( اَے رسولﷺ) مومنوں سے فرما دیں کہ اپنی نظروں کو جھکا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں'' اور اللہ تعالى کا یہ فرمان ہے :﴿وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ﴾ [النور: 31] یعنی: (اَے رسولﷺ) اور مومن عورتوں سے فرما دیں کہ اپنی نظروں کو جھکا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں'' یعنی: اپنی شرمگاہوں کو ظاہر ہونے سے بچائیں تاکہ انہیں کوئی اور نہ دیکھے۔
اور جب حالت ضرورت (اضطراری حالت) ہو تو ضروریات ممنوعات کو مباح کر دیتی ہیں؛ پس '' ضرورت '' کی وجہ سے شراب پینا اور مردار کھانا بھی مباح ہوتو جاتا ہے؛ یہ اس لئے کہ اضطراری احوال مستثنی ہوتے ہیں، اللہ تعالى ارشاد فرتا ہے : ﴿وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ﴾ [الحج: 78]، یعنی: اور نہیں روا رکھی اس نے تم پر دین کے معاملے تم کوئی تنگی '' اللہ تعالى کا فرمان ہے: ﴿لاَ يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا﴾ ] البقرة: 286[ یعنی: ذمہ داری نہیں ڈالتا اللہ تعالی کسی شخص پر مگر جتنی اس کی طاقت ہو۔''
'' الضرورة '' صرف ہلاکت پر ہی محدود نہیں ہے، اس کے قریب قریب تک بھی تجاوز کرتی ہے، جیسا کہ مریض کے معذور ہونے،بیماری کے بگڑنے، یا علاج میں غلطی کا خوف ہونا؛ کیونکہ طب کا تعلق جان سے ہے جس کی حفاظت کرنے کو اللہ تعالی نے شریعتِ مطہرہ کے مقاصدِ خمسہ میں سے ایک مقصد بنایا ہے تو اس طب کا تقاضہ ہے کہ اس میں نہایت درجے تک احتیاط برتی جاۓ؛ کیونکہ فقہی قاعدہ ہے (إن المشقة تجلب التيسير) مشقت آسانی کو لے کر آتی ہے، اس لئے فقہاۓ شافعیہ اور کچھ دوسرے فقہاء کرام نے بیان کیا ہے کہ ماہر مرد ڈاکٹر کو ہر حال میں مقدم کیا جاۓ گا اگرچہ غیر جنس یا غیر دین ہی ہے، یہ بھی بیان کیا ہے کہ اگر ایسا ڈاکٹر موجود ہو جو اجرِ مثلی سے زائد فیس پر ہی راضی ہوتا ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ گویا کہ وہ موجود ہی نہیں ہے حتی کہ اگر کافر ڈاکٹر کم فیس پر راضی ہو اور مسلمان زیادہ فیس پر، تو مسلم ڈاکٹر کالعدم ہوگا اور غیر مسلم ماہر ڈاکٹر سے علاج کروانا جائز ہو گا۔
اس بات پر بھی تنبیہ ضروری ہے کہ چیک اپ کے وقت عورت کے ساتھ اس کا محرم یا کوئی ایسا شخص موجود ہونا ضروری ہے جس کی موجودگی اس کیلئے باعثِ امن ہو۔
اس بناء پر: اگر یہ عورت مرد ڈاکٹر کی مہارت سے دوسروں کی نسبت زیادہ مطمئن ہو تو اس کیلئے امراضِ نسواں اور زچگی کے اس مرد ڈاکٹر پاس جانا اور ڈاکٹر کا اسے چیک اپ کرنا جائز ہے؛ کیونکہ حالتِ ولادت بھی ضرورت کے حالات میں سے ایک ہے؛ اس لئے کہ یہ ایک نازک عمل ہے جو قابل ڈاکٹر کی مہارت کا تقاضا کرتا ہے تاکہ حاملہ اور جنین کی زندگی محفوظ رہے؛ کیونکہ ولادت کا آسان ہونا یا اس کا مشکل ہونا دردِ زہ شروع ہونے سے پہلے معلوم نہیں ہوتا، اور اس لئے بھی تاکہ حاملہ کی زندگی کی حفاظت اور ولادت کا کام شرانجام دینے کیلئے احتیاط ضروری ہے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.
 

Share this:

Related Fatwas