شبِ نصف شعبان کی فضیلت
Question
نصف شعبان کی رات کی فضیلت کیا ہے؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ و السلام علی سيدنا رسول اللہ وعلى آله وصحبه و من والاه۔ وبعد:نصف شعبان کی رات برکت والی رات ہے، اس کی فضیلت میں بہت زیادہ احادیثِ مبارکہ آئی ہیں، جو ایک دوسری سے قوت پا کر حسن کے درجہ تک پہنچ جاتی ہیں، اس کی فضیلت میں آنے والی احادیث میں سے کچھ یہ ہیں:
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے مروی ہے آپ رضی اللہ تعالی عنھا بیان فرماتی ہیں: میں نے ایک رات نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم کو اپنے پاس موجود نہیں پایا، تو میں آپ ﷺ کو تلاش کرنے کیلئے نکلی، میں نے دیکھا کہ آپﷺ بقیع میں آسمان کی طرف سر مبارک اٹھاۓ ہوۓ ہیں، (مجھے دیکھ کر) آپ ﷺ نے فرمایا : "يَا عَائِشَةُ، أَكُنْتِ تَخَافِينَ أَنْ يَحِيفَ اللهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ!»، فقُلْتُ: وَمَا بِي ذَلِكَ، وَلَكِنِّي ظَنَنْتُ أَنَّكَ أَتَيْتَ بَعْضَ نِسَائِكَ، فَقَالَ: «إِنَّ اللهَ تَعَالَى يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَيَغْفِرُ لأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعَرِ غَنَمِ كَلْبٍ -وهو اسم قبيلة-» رواه الترمذي وابن ماجه وأحمد واللفظ لابن ماجة. یعنی: اے عائشہ کیا تجھے یہ اندیشہ تھا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم تیرے ساتھ زیادتی کریں گے؟ تو میں نے عرض کی: مجھے یہ اندیشہ نہیں تھا، لیکن مجھے گمان ہوا کہ آپ ﷺ اپنی کسی بیوی کے پاس تشریف لائے ہوں گے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی اس رات آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور (قبیلہ) کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی بخشش فرماتا ہے۔
اور سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی نصف شعبان کی رات کو اپنی تمام مخلوق کی طرف نظرِ رحمت فرماتا ہے اور سواۓ مشرک اور بغض و عناد رکھنے والے کے سب کی مغفرت فرما دیتا ہے۔
اورسیدنا علی بنِ ابی رضی اللہ تعالی عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم سے رویت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم نے فرمایا: «إِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُومُوا لَيْلَهَا وَصُومُوا يَوْمَهَا؛ فَإِنَّ اللهَ يَنْزِلُ فِيهَا لِغُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا فَيَقُولُ: أَلَا مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَأَغْفِرَ لَهُ؟ أَلَا مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَهُ؟ أَلَا مُبْتَلًى فَأُعَافِيَهُ؟ أَلَا كَذَا، أَلَا كَذَا..؟ حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ» رواه ابن ماجه. یعنی: جب نصف شعبان کی رات آۓ تو رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو؛ کیونکہ اس رات اللہ تعالی آسمانِ دنیا پر اترتا ہے اور فرماتا ہے: ہے کوئی مغفرت طلب کرنے والا کہ اسے میں بخش دوں؟ ہے کوئی رزق طلب کرنے والا کہ اسے رزق عطا کروں؟ ہے کوئی مصیبت زدہ اسے کہ عافیت دے دوں؟ ہے کوئی ایسا، ہے کوئی ایسا۔۔؟ حتی کہ فجر کے طلوع ہوجاتی ہے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.