نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کا علمِ غیب
Question
کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کیلئے جائز ہے کہ اللہ تعالی آپ کو قیامت پر مطلع فرماےٴ؟ اگر جائز ہے تو کیا اس کے ثبوت پر کوئی دلیل آئی ہے؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ قیامت کا علم ان پانچ غیبی امور میں سے ایک ہے جن کا کلی اور جزئی علم اللہ تعالی نے اپنے لیے خاص کیا ہے، اس کے باوجود جائز ہے کہ اللہ تعالی ان چیزوں کا کچھ علم اپنے خاص بندوں کو عطا فرماےٴ اور ان خاص اور چنیدہ لوگوں میں سے سر فہرست ہمارے پیارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم ہیں؛ لیکن ان کا علم اللہ تعالی کے علم جیسا نہیں ہو سکتا؛ کیونکہ اللہ تعالی کا علم ذاتی ہے اور غیرمتناہی ہے جس کا اللہ تعالی کے علاوہ کوئی بھی احاطہ نہیں کر سکتا، اور اللہ تعالی کے علاوہ جس کا بھی علم ہو گا حادث ہو گا اور اللہ تعالی کے عطا سے ہو گا اور اس کے مطلع کرنے سے ہو گا۔
سورتِ لقمان میں اللہ تعالى کے فرمانِ عالیشان: ﴿إِنَّ اللهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ﴾ میں امام آلوسي رحمہ اللہ تعالی اپنی تفسير میں " (11/ 108، ط. دار الكتب العلمية، بيروت) میں صفحہ (495 اور496)- پر فرماتے ہیں: اس سے مراد یہ ہے کہ ان پانچ چیزوں کا علم اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہے؛ اسی معنی پر احادایث اور آثار دلالت کرتے ہیں: شیخین اور دیگر محدثین نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے ایک طویل حدیث روایت کی ہے اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم سے پوچھا گیا: قیامت کب آےٴ گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے فرمایا: اس کے بارے میں جس سے پوچھا جا رہا ہے وہ سائل سے زیادہ نہیں جانتا۔ لیکن میں آپ کو اس کی نشانیوں کے بارے میں بتاتا ہوں: جب لونڈی اپنے مالک کو جنم دے گی، جب اونٹوں کے چرواہے بلند وبالا عمارتوں پر فخر کریں گے، پانچ چیزوں کو اللہ تعالے کے علاوہ کوئی نہیں جانتا پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے یہ آیتِ مبارکہ پڑھی: ﴿إِنَّ اللهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ﴾۔۔۔ الآية. یعنی اس سورت کو آخر تک پڑھا، جیسا کہ بعض روایات میں ہے، اور ﴿الْأَرْحَامِ﴾ تک اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں جو امام سے منقول ہے اس میں کسی راوی کی کوتاہی ہے۔
شیخین اور دیگر محدثین نے سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ تعالی عنھما سے یہ بھی روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے فرمایا: پانچ چیزوں کو اللہ تعالے کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ﴿إِنَّ اللهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ﴾۔۔۔ الآية. ان احادیث طیبہ کا ظاہر یہ بتاتا ہے کہ ان پانچ چیزوں کے علاوہ غیبی امور کو اللہ تعالی کے سوا لوگ بھی جان سکتے ہیں، کچھ لوگوں کا یہی مذہب ہے، حمید بن زنجویہ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم میں سے کسی سے رویت کیا ہے کہ انہوں نے سورج گرہن لگنے سے پہلے ہی لوگوں کو سورج گرہن لگنے کا وقت بتایا تو لوگوں نے اس کی بات کا انکار کر دیا اور تو آپ نے فرمایا: بلا شبہ غیب پانچ چیزیں ہیں، اور پھر یہ آیتِ مبارکہ تلاوت فرمائی۔ پھر فرمایا: ان چیزوں کے علاوہ دیگر امور کو کچھ لوگ جانتے ہیں اور کچھ نہیں چانتے، بعض احادیث میں ایسی دلیلیں بھی موجود ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ صحبہ وسلم کو بھی ان پانچ چیزوں کا علم نہیں دیا گیا تھا، تو اس سے پتا چلا کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ صحبہ وسلم کے علاوہ دوسرے دوسرے لوگوں کو تو بدرجہ اولی نہیں دیا گیا ہو گا۔
امام احمد اورامام طبراني نے سیدنا ابن عمر رضي الله تعالى عنهما روایت کیا ہے کہ نبي اکرم صلى الله تعالى عليه وآله وسلم نے فرمایا: "مجھے پانچ چیزوں کے علاوہ ہر چیز کی کنجی عطا کر دی گئِ ہے؛ ﴿إِنَّ اللهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ﴾۔۔۔الآية۔
امام احمد، امام ابو يعلى، امام ابن جرير،امام ابن المنذر اور امام ابن مردويه (رحمھم اللہ) نے سیدنا ابن مسعود رضي الله عنهما سے روایت کیا کہ آپ نے فرمایا: "تمہارے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ صحبہ وسلم کو پانچ چیزوں کی کنجی کے علاوہ ہر چیز کی کنجی عطا کر دی گئِ ہے: ﴿إِنَّ اللهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ﴾۔۔۔الآية".
امام ابن مردويه نے سیدنا علي (كرم الله وجهه) سے روایت کیا آپ نے فرمایا: "تمہارے نبی صلى الله تعالى عليه وآله وسلم سے غیب کے پانچ رازوں کے علاوہ کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ اور یہ آیت مبارکہ سورتِ لقمان کے آخر میں ہے۔ ﴿إِنَّ اللهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ﴾.. إلى آخر السورة".
امام سعيد بن منصور، امام احمد اور امام بخاري (رحمھم اللہ) نے "الأدب" میں ربعي بن حراش سے روایت کیا ہے کہ: مجھے بنو عامر کے ایک شخص نے حدیث بیان کی کہ اس نے کہا: يا رسول الله ! کیا کوئی علم ایسا بھی ہے جسے آپ نہ جانتے ہوں؟ تو آپ عليه الصلاة والسلام نے فرمایا:" بلاشبہ اللہ تعالی بہتر جاتنا ہے، اور وہ چیزیں جنہیں اللہ تعالی کے علاوہ کوئی نہیں جانتا پانچ ہیں": ﴿إِنَّ اللهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ﴾.. الآية.
بعض علماءِ کرام نے صراحت کی ہے کہ ان پانچ چیزوں کا علم اللہ تعالی کیلئے خاص ہے ابن جرير، وابن أبي حاتم، نے امام قتادہ سے نقل کیا ہے انہوں نے فرمایا: آیت میں مذکور پانچ چیزیں غیب میں سے ہیں جن کا علم اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہے، جن پر وہ کسی مقرب فرشتے کو مطلع کرتا ہے نہ ہی کسی نبی اور رسول ﷺ کو۔ ﴿إِنَّ اللهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ﴾ یعنی اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کب قیامت قائم ہو گی؛ کس سال میں اور کس مہینے میں آئی گی، رات کو آئی گی کہ دن کو۔ ﴿وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ﴾ وہی بارش برساتا ہے کوئی نہیں جانتا کہ کب بارش ہوگی؛ دن کو ہو گی کہ رات کو۔ ﴿وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ﴾ اور وہی جانتا ہے کہ رحموں میں کیا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ رحموں میں کیا ہے؛ لڑکی ہے کہ لڑکا ہے، گورا ہے کہ کالا ہے۔ ﴿وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا﴾ کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا کماےٴ گا؛ اچھا یا کہ برا۔ ﴿وما تدري بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ﴾ کوئی نہیں جانتا کہ کس جگہ مرے گا۔ کوئی انسان نہیں جانتا کہ زمین کے کسی حصہ میں اسے موت آنی ہے، سمندر میں آےٴ گی یا کہ خشکی پر، میدانی علاقے میں آےٴ گی کہ پہاڑوں پر۔
یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ ہر قسم کا غیب صرف اور صرف اللہ تعالی ہی جانتا ہے اور غیب صرف ان پانچ چیزوں میں ہی محصور نہیں ہے، خاص طور پر صرف انہیں کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ سوال بھی انہیں کے بارے میں کیا گیا تھا، یا اس لیے کہ لوگوں کو انہیں چیزوں کے بارے میں جاننے کا اشتیاق زیادہ ہوتا ہے۔
امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ غیبی چیزیں غیر متناہی ہونے کے باوجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے صرف پانچ چیزوں کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ عدد اپنے سے زائد کی نفی نہیں کرتا اور اس لیے بھی انہیں پانچ چیزوں کے علم کا وہ لوگ دعوی کیا کرتے تھے۔
آخری تعلیل میں محلِ نظر ہے؛ کیونکہ جائز ہے کہ اللہ تعالی اپنے بعض اصفیاء کو ان پانچ چیزوں میں سے کسی ایک پر مطلع کر دے اور انہیں اس کا جملہ علم عطا فرما دے۔ لیکن ان چیزوں کے متعلق جو اللہ تعالی کا خاص علم ہے وہ ایسا علم ہے جو ان چیزوں کو مکمل طور پر احاطہ کرنے والا اور ان کی ہر ہر حالت کا جامع ترین اور تفصیلی علم ہے۔
"شرح المناوي الكبير للجامع الصغير" میں امام مناوی سابقہ حدیثِ بریدہ پر بات کرتے ہوےٴ فرماتے ہیں: «خَمْس لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللهُ» ان پانچ چیزوں کا مکمل علم کلی اور جزئی اللہ تعالے کے ساتھ خاص ہونے کے یہ بات منافی ہے کہ اللہ تعالی اپنے خاص بندوں کو بعض غیبی امور پر یا ان پانچ چیزوں میں سے کسی پر مطلع کر دے، کیونکہ یہ جزئیات ہیں اور یہ گنی چنی چیزیں ہے، اور اس بات پر معتزلہ کا انکار کرنا ان کے غرور پر مبنی ہے۔
جب ہم دونوں طرف کی احادیث کو جمع کرتے ہیں یعنی ان چیزوں کے علم کو اللہ تعالی کے ساتھ خاص کرنے والی اور جو ان خلاف ہیں جیسے وہ احادیث جو بتاتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے اس طرح کے غیبی امور کی خبریں دی ہیں، اور جس شخص نے "الشفاء" اور " الموالهب اللدنيا" کا مطالعہ کیا ہے وہ یہ جانتا ہے یعنی نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کے معجزات اور غیبی امور کی خبریں دینے کے متعلق جو کچھ ان میں مذکور ہے۔
امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب اللہ تعالی بارش کا حکم دیتا ہے اور جن جگہوں پر چاہتا ہے اسے لے جانے کا حکم دیتا ہے تو اس کام کے لیے مقرر فرشتوں کو اور مخلوق میں سے جسے اللہ تعالی چاہتا ہے ان کو اس کا علم ہو جاتا ہے، اسی طرح جب اللہ تعالی رحم میں کسی انسان کو پیدا کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو رحم کیلئے مقرر فرشتے کو اللہ تعالی کے ارادے کا علم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی بخاری شریف کی وہ روایت بھی اسی مؤقف پر دلالت کرتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے فرمایا: «وَكَّلَ اللهُ بِالرَّحِمِ مَلَكًا، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ نُطْفَةٌ، أَيْ رَبِّ عَلَقَةٌ، أَيْ رَبِّ مُضْغَةٌ، فَإِذَا أَرَادَ اللهُ أَنْ يَقْضِيَ خَلْقَهَا، قَالَ: أَيْ رَبِّ، أَذَكَرٌ أَمْ أُنْثَى، أَشَقِيٌّ أَمْ سَعِيدٌ، فَمَا الرِّزْقُ، فَمَا الأَجَلُ، فَيُكْتَبُ كَذَلِكَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ»، یعنی: " نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ نے رحم پر ایک فرشتہ مقرر کر دیا ہے اور وہ کہتا رہتا ہے کہ اے رب! یہ «نطفة» قرار پایا ہے۔ اے رب! اب «علقة» یعنی جما ہوا خون بن گیا ہے۔ اے رب! اب «مضغة» ( گوشت کا لوتھڑا ) بن گیا ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کی تخلیق پوری کرے تو وہ پوچھتا ہے اے رب لڑکا ہے یا لڑکی؟ نیک ہے یا برا؟ اس کی روزی کیا ہو گی؟ اس کی موت کب ہو گی؟ اسی طرح یہ سب باتیں ماں کے پیٹ ہی میں لکھ دی جاتی ہیں "۔ اور جو کچھ آپ نے ہم سے سنا ہے اس بناء پر فرشتوں اور مقربین کو ان باتوں کا علم ہونا ان غیبی امور پر اللہ تعالی کے اختصاص کے منافی نہیں ہے؛ یعنی: اس علم کا اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کو ان امور کے تمام احوال کو مکمل طور پر تفصیلی علم ہے۔
اللہ تعالى کے فرمان: ﴿فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا﴾ کی تفسیر کرتے ہوےٴ "تفسير القاضي البيضاوي" کے اندر امام بیضاوی فرماتے ہیں: یعنی: (وہ اپنے ساتھ مخصوص غیب کے علم کو کسی پر ظاہر نہیں کرتا) اس پر حاشیہ لگاتے ہوےٴ علامہ شہاب فرماتے ہیں: (على الغيب المخصوص به علمه) وہ اپنے ساتھ مخصوص غیب کے علم کو کسی پر ظاہر نہیں کرتا کیونکہ اضافت اختصاص کا فائدہ دیتی ہے، اس غیب کا اللہ تعالی کے اختصاص اس وجہ سے کہ بغیر کسی سبب کے اس غیب کو اللہ تعالی کے سوا کوئی بھی علمِ حقیقی اور علمِ یقینی کے ساتھ نہیں جانتا ہے بلکہ اللہ تعالی کے علاوہ کسی کا علمِ غیب صرف ظاہری طور پر علمِ غیب لگتا ہے اور وہ علم کچھ انسانوں کی نسبت سے علمِ غیب ہوتا ہے جیسا کہ محققین نے فرمایا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی بھی ذاتی علم کے ساتھ غیب کی تمام صورتوں کو علمِ حقیقی کے ساتھ نہیں جانتا ہے، اس میں ان پانچ غیبی امور اور ان کے علاوہ غیب کی دیگر صورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، اور اللہ سبحانہ وتعالی کے علاوہ یعنی: مخلوق میں سے کسی کا علمِ غیب ذاتی نہیں ہوتا، بلکہ وہ علم حادث ہوتا ہے اور اللہ تعالی کی عطا اور اسکے سکھانے سے حاصل ہوا ہوتا ہے۔
تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالی جس کو چاہے اسے علمِ غیب پر مطلع کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے، لیکن وہ علم علمِ غیب شمار نہیں کیا جاتا، لہذا اللہ تعالی کا اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کو قیامت پر مطلع کرنا جائز ہے، اور سابقہ عبارت میں امام آلوسی رحمہ اللہ سے جو کچھ منقول ہے وہ اللہ سبحانہ وتعالی کا اپنے کسی خاص بندے کو بعض غیبی امور پر مطلع کرنے کے منافی نہیں ہے اگرچہ وہ امر مذکرہ پانچ غیبی امور میں سے ہی کیوں نہ ہو۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.