قبر میں رحمت کے حصول کی نیت سے عورت کے بچے کو اسکے ساتھ دفن کرنے کا حکم
Question
سائل کی والدہ کا انتقال ہو گیا، اور نماز جنازہ کے بعد بعض لوگوں نے مشورہ دیا کہ قبر میں ایک فوت شدہ بچے کو میری والدہ کے ساتھ دفن کیا جاےٴ ۔ اس وجہ سے کہ بچہ گناہوں سے پاک ہوتا ہے لہذا وہ سائل کی ماں کیلئے کے لیے باعث رحمت بنے گا اور لہذا سائل کی ماں کے ساتھ بچہ دفن کر دیا گیا۔ اس کا شرعی حکم کیا ہے؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ شریعت میں مسلم بات یہ ہے کہ ہر میت کو اس کی اسی قبر میں دفن کیا جاےٴ جو اس کے لیے تیار کی گئی ہو اور کسی بھی دوسری میت کو اس کے ساتھ دفن نہیں کیا جا سکتا، سواےٴ امرِ ضرورت کے۔ مثلاً قبرستانوں میں جگہ تنگ ہو تو اس صورت میں ایک قبر میں ایک سے زیادہ میتوں کو دفن کرنا جائز ہے، بشرطیکہ بڑا آدمی قبلہ کی سمت دفن کیا جاےٴ، پھر چھوٹا اس کے بعد دفن کیا جاےٴ، اور اگر ممکن ہو تو مردوں کو مردوں ہی کے ساتھ دفن کیا جائے، اور اگر یہ ممکن نہ ہوتو مردوں کو عورتوں کے ساتھ دفن کرنا جائز ہے۔ تدفین میں مردوں کو عورتوں پر مقدم کیا جاےٴ گا اور ان کے درمیان مٹی سے پردہ بنایا جاےٴ گا اور کفن مردوں اور عورتوں کے درمیان آڑ یعنی پردے کے لیے کافی نہیں ہے، کسی مرد کو کسی عورت کے ساتھ دفن کرنا جائز نہیں ہے چاہے وہ عورت اس کی محرم ہی ہو، سواےٴ یہ کوئی شرعی جواز موجود ہو۔ جیسے میتوں کی نسبت قبرستان کا تنگ ہونا وغیرہ۔
جہاں تک بچے کی میت کو کسی میت کے ساتھ دفن کرنے کا تعلق ہے، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ اس بنا پر کہ بچے کو میت کے ساتھ دفن کرنے وجہ سے شاید اللہ تعالیٰ میت پر تخفیف فرماےٴ، یہ طریقہٴ کار شریعتِ مطہرہ میں وارد نہیں ہوا ہے ۔ کیونکہ ہر شخص اپنے کیے ہوےٴ اعمال کا ذمہ دار ہے اور کسی دوسرے کا بوجھ اس پر نہیں ڈالا جاےٴ گا اور جو نیکی کرے گا تو وہ اس کے اپنے لیے ہے اور جو ظلم کرے گا اس کا گناہ بھی اسی پر ہے، اس اصول کے اعتبار سے مردوں کو عورتوں کے ساتھ دفن کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ ہر ایک میت کی اپنی الگ مستقل قبر ہونی چاہیے، سوائے کسی ایسے امرِ ضرورت کے جو مردوں کو عورتوں کے ساتھ دف کرنے کا سبب بنے۔
جہاں تک اس بچے کا تعلق ہے جسے سائل کی ماں کے ساتھ دفن کیا جا چکا ہے تو اس سے اس میت کوئی فائدہ یا نقصان نہیں پہنچے گا اور لیکن اب اسے دفن کرنے کے بعد نکالنا جائز نہیں ہے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.