مسجد کا بیرونی مائکروفون چلانا۔
Question
کیا نماز پڑھنے سے پہلے رڈیو پر قرآن شریف کا سٹیشن لگا کر بیرونی مائیکروفون یعنی باہر والے لاؤڈ سپیکر چلانا، جہری نماز کے دوران اور نماز کے بعد ہونے والی گفتگو میں بیرونی مائیکروفون چلانا جائز ہے؟ کیوں کہ اس کی وجہ سے کچھ مسائل پیدا ہوۓ ہیں، اور اس بارے میں علاقہ کے باسیوں نے شکایت بھی کی، اور یہ مسئلہ اب بھی موجود ہے؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ فقہاءِ کرام نے یہ بات صراحت کے ساتھ بیان کی ہے کہ امام کے لیے تکبیرِ تحریمہ اور نماز میں ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف منتقل ہونے کیلئے پڑھی جانے والی تکبرات کو جہرا پڑھنا اس لئے جائز ہے تاکہ مقتدی سن کر اس کی متابعت کر سکیں اور اس کا تقاضہ یہ ہے کہ آواز کو اس سے زیادہ اونچا کہ جائز نہیں۔ اور جب مساجد میں نماز قائم کرنا اور اذان دینا ان شعائرِ دین میں سے ہیں جن کا حکم دیا گیا ہے تو شریعت کے مقاصد میں سے یہ نہیں ہے کہ نمازیوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کو جہری نمازوں کی قرات اور ریڈیو کے ذریعے سے قرآن کی تلاوت، اور مذہبی دروس سناۓ جائیں اس لئے کہ لوگوں کو نماز کی طرف تنبیہ اس اذان کے ساتھ ہی ہو جاتی ہے، جو کہ وقتِ نماز شروع ہونے کی اطلاع دینے کے لیے مشروع کی گئی تھی، اور اقامت نماز کا انتظار کرنے والوں کو اس کے شروع ہونے سے خبردار کرنے کے لیے مشروع کی گئی ہے۔ اگر سربراہانِ مملکت - جن کی نمائندگی وزارتِ اوقاف کرتی ہے – یہ دیکھتے ہیں کہ نماز کی نشریات یا دیگر نشریات اور دروس وغیرہ کے لیے لاؤڈ اسپیکر چلانے سے لوگوں کو نقصان اور پریشانی لاحق ہوتی ہے، تو وہ لاؤڈ اسپیکر چلانے سے روک سکتے ہیں؛ شریعت نے انہیں جب مباح عمل کو مصلحت کی خاطر مقید کرنے کی اجازت دی ہے تو جو کام بالکل جائز ہی نہ ہو تو انہیں تو بدرجہ اولی انہیں روکنے حکم ہو گا، اور لاؤڈ سپیکر چلا کر ان کی نافرمانی کرنا حرام ہو گا؛ کیونکہ جس کام میں گناہ نہ ہو اس میں حکمرانوں کی اطاعت کرنا واجب ہے،
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ﴾ [النساء: 59]، ترجمہ: ’’اے ایمان والو، اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور جو تم میں سے اربابِ اختیار ہیں (ان کی اطاعت کرو)‘‘ اس سے لوگوں کو اذیت کا پہنچنا اس کے علاوہ ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا سوال میں مذکور ہے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.