جس پر مؤخر قرض ہو اس کے لیے حج کرنے کا حکم
Question
میں حج کرنا چاہتا ہوں لیکن مجھ پر قسطوں میں اپارٹمنٹ خریدنے کے نتیجے میں قرضِ مؤخر بھی ہے۔ کیا میرے لیے حج کرنا جائز ہے یا مجھے پہلے قرض ادا کرنا ہوگا؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ حج ہر صاحبِ استطاعت مکلف مسلمان پر عمر میں ایک مرتبہ فرض ہے؛ الله تعالى نے فرمایا ہے: ﴿وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ﴾ [آل عمران: 97]، .[ ترجمہ: " اور لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا اللہ کا حق ہے جو شخص اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔ اور جس نے انکار کیا تو پھر اللہ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے"۔ استطاعت - جیسا کہ فقہاء نے فرمایا ہے – یہ ہے کہ انسان جسم میں حج کرنے اور سفر کرنے کی قوت اور برداشت ہو، اور یہ کہ حاجی کا راستہ بھی محفوظ ہو، اور اس کے پاس اتنا وقت بھی ہو جس میں وہ حج کر سکے، اور یہ کہ اس شخص کے پاس اتنا زادِ راہ بھی موجود ہو کہ وہ بخل اور اسراف کے بغیر فرض ادا کر سکے۔ اور یہ کہ حج کےلئے جمع کئے گئے اخراجات اس کی اصل ضروریات سے زائد ہو اور جن لوگوں کا اس شخص پر انحصار ہے ان کی رہائش، کپڑے، گھر کے سامان، اس کے گھر والوں اور نوکروں کے نان نفقے، لباس اور اس کے قرضوں کی ادائیگی سے بھی زائد ہو.
علامہ محمود بن مودود موصلی رحمه الله "الاختيار لتعليل المختار" (1/ 139، ط. دار الكتب العلمية) میں فرماتے ہیں: ](یہ پوری زندگی کا فرض ہے، جس کی ادائیگی ہر آزاد، عاقل، بالغ، صحت مند اور زادِ راہ اور سفر کی استطاعت رکھنے والے مسلمان پر صرف ایک بار فرض ہے.. اور حاجی کے آنے اور جانے کے اخراجات اس کی اصل ضروریات اور اس کے واپس آنے تک اس کے خاندان کے اخراجات کے علاوہ ہوں، اور اس کا راستہ بھی محفوظ ہو۔ زادِ راہ کا ضروریاتِ اصلیہ سے زائد ہونا اس لیے ضوری ہے کیونکہ ضروریاتِ اصلیہ اللہ تعالی کے حقوق پر مقدم ہیں اور اسی طرح اس کے ملازموں کے نفقے سے بھی زائد ہو کیونکہ وہ اس نفقے کے مستحق ہیں اور ان کے حقوق اللہ تعالیٰ کے حقوق پر مقدم ہیں؛ اس لئے اللہ تعالی غنی ہے اور یہ لوگ فقیر ہیں اور اس کے قرضوں کی ادائیگی سے زیادہ ہوں اسی وجہ سے جو ہم نے بیان کی ہے[۔
علامہ محمد عليش مالکی رحمہ اللہ "منح الجليل" (2/ 405، ط. دار الفكر) میں فرماتے ہیں: [(حج سے منع کرنے والے اسباب یہ ہیں: قرض جس کی ادائیگی فورا کی جانی ہو، یا وہ قرض جس کی ادائیگی کا وقت اس کے جانے بعد آ جاۓ اور وہ مال دار ہو، تو اس حج کیلئے جانے سے باز رہے سواۓ اس صورت کہ وہ کسی شخس کو اپنا وکیل بنا کر جاۓ جو ادائیگی کا وقت آنے پر قرض ادا کر دے)[۔
امام رافعی رحمہ اللہ "العزيز شرح الوجيز" (3/ 534، ط. دار الكتب العلمية) میں فرماتے ہیں: [ اگر اس پر قرض ہو اور وہ مالدار بھی ہو تو مستحق اسے جانے سے روک سکتا ہے، اس لئے نہیں کہ اسے حج سے منع کرنے کا حق ہے بلکہ اس لئے کہ وہ اس سے اپنا حق وصول کر سکے، پس اگر اس نے احرام باندھ لیا ہو تو اس حالت میں اس کیلئے احرام کھولنا جائز نہیں ہے بلکہ اس پر واجب ہے کہ قرض ادا کرے اور سفرِ حج پر چل پڑے۔ اور اگر وہ تنگدست ہو تو نہ اس سے مطالبہ کیا جاۓ گا اور نہ ہی اسے حج پر جانے سے روکا جاۓ گا؛ اس لئے کہ اسے خوشحال ہونے تک مہلت دی جاۓ گی، اور اسی طرح اگر اس پر قرض مؤجل ہو تو بھی حج پر جانے نہیں روکا جاۓ گا؛ کیونکہ قرض فورا ادا کرنا اس پر لازم نہیں ہے اور نہ ہی مستحق ابھی مطالبہ کر سکتا ہے، لیکن اولی یہ ہے وہ قرض کی ادائیگی کیلیے کسی کو اپنا وکیل بناۓ بغیر حج پر نہ جاۓ[ اهـ.
امام ابنِ قدامہ رحمہ اللہ "المغني" (3/ 217، ط. مكتبة القاهرة): میں فرماتے ہیں: [ یہ کہ (حج کے اخراجات) قرض کی ادائیگی سے زائد ہو؛ کیونکہ اداۓ قرض حاجاتِ اصلیہ میں سے ہے اور اس کے ساتھ انسانوں کے حقوق وابسہ ہیں، اور اس کی تاکید بھی زیادہ ہے، اسی وجہ مقروض کو سے زکاۃ کی ادائیگی سے روکا جاتا ہے، حالانکہ زکاۃ کے ساتھ فقراء کے حقوق اور ان کی ضروریات وابستہ ہوتی ہیں، تو حج جو کہ خالص اللہ تعالی کا حق ہے اس سے بدرجہ اولی روکا جاۓ گا، اور چاہے کسی معین شخص کا دین ہو، یا حقوق اللہ میں کئی حق ہو جیسے اس کے ذمہ زکاۃ ہو، یا کفارات وغیرہ ہوں۔
مقتضئ کلام یہ ہے کہ جو شخص حج ادا کرنا چاہتا ہو اور اس پر قرض بھی ہو تو اس شخص کے حج پر جانے کیلئے شرط یہ ہے اس پر جو قرض ہے وہ مؤجل ہو اور فریضہ حج کی ادائیگی قرض ادا کرنے پر اثر انداز نہ ہو، اور یہ ایسے ہو سکتا ہے کہ اتنا مال چھوڑ کر جاۓ جو قرض کی ادائیگی کیلئے کافی ہو، یا قرض دار اسے حج پر جانے کی اجازت دے دے؛ یہ بات موجودہ زمانے میں متعارف قسطوں کے اس منظم معاملات میں صحیح متحقق ہوتی ہے، جس میں قسطیں پہلے سے طے شدہ ہوتی ہیں، اور دونوں فریق واضح طور پر اس بات پر متفق ہوتے ہیں کہ یہ قسطیں کیسے اور کب ادا کی جائیں گی۔
اور جب فقہاء نے حج پر جانے کے لیے پر قرض لینے کی اجازت دی ہے بشرطیکہ اس کے پاس اتنی رقم موجود ہو کہ جب قرض کی ادائیگی کا وقت آۓ تو وہ ادا کر سکتا ہے؛ تو اس مسئلے پر قیاس کرتے ہوۓ اس شخص کیلئے حج ادا کرنا بدرجہ اولی جائز ہے جس پر ایسا قرض ہے جسے اس نے مقررہ تاریخوں میں قسموں کی شکل میں ادا کرنا ہے۔
امام ابن أبو شيبہ رحمہ اللہ نے "المصنَّف" میں اور امام بيهقی رحمہ اللہ نے "السنن الكبرى" میں روایت کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ تعالی عنهما سے موقوفًا مروی ہے: آپ سے ایک آدمی کے بارے میں پوچھا گیا کہ وہ قرض لے کر حج کر آے تو آپ نے فرمایا: اللہ تعالی سے وہ رزق مانگے اور قرض نہ مانگے، آپ نے کہا کہ ہم کہا کرتے تھے کہ قرض نہ لے مگر اس صورت میں کہ اس کے پاس لوٹانے کیلئے بھی مال ہو۔
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے "التمهيد لما في الموطأ من المعاني" (9/ 135) میں جناب سفيان الثوري رحمہ اللہ سے نقل کیا کہ آپ نے فرمایا ہے: [اس صورت میں قرض کے ساتھ حج کرنے میں کوئی حرج نہیں، جب آدمی کے پاس سامان ہو، کہ اگر فوت ہو جاۓ تو ادائیگی کیلئے مال چھوڑ گیا ہے۔] اهـ.
اس بنا پر اور سوال کے تناظر میں ہم کہیں گے: شریعت کی رو سے کسی ایسے شخص کے لیے حج کرنا جائز ہے جس پر قسطوں کی صورت میں موخر قرض ہو بشرطیکہ اسے یقین ہو کہ حج ادا کرنے سے ان قسطوں کی مقررہ اوقات پر ادائیگی میں کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ جیسے: اس کے پاس اتنی رقم موجود ہو کہ اس قرض کی مدت آنے پر اسے ادا کر سکے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.