کسی ہسپتال کو زکوۃ کے مال سے طبی آلہ فراہم كرنا
Question
کوئی مخیر کسی خیراتی ہسپتال کو ایک طبی آلہ دینا چاہتے ہیں ، وہ یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا اس آلے کی قیمت کو اس شخص پر عائد زکوۃ میں سے شمار کرنا ممکن ہے؟
Answer
اصل تو یہی ہے کہ زکوۃ صرف انہی آٹھ قسم کے لوگوں کے لئے ہے جن کے بارے میں اللہ تعالی نے اپنے کلام پاک میں بیان فرمایا ہے: (إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ''(زکوٰۃ تو انہی لوگوں کے لیے ہے ، محتاج اور نرے نادار ، اور جو اسے تحصیل کرکے لائیں ، اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے ، اور گردنیں چھڑانے میں ، اور قرضداروں کو ، اور اللہ کی راہ میں ، اور مسافر کو ، یہ ٹھہرایا ہوا ہے اللہ کا اور اللہ علم و حکمت والا ہے)[ سورہ توبہ : ٦٠] ، یعنی یہ زکوۃ تعمیرات سے پہلے انسان کی تعمیر کے لئے ہے ، اور علمائے کرام نے اس میں ملکیت کی شرط لگا ئی ہے لیکن وہ صورت اس شرط سے مستثنیٰ ہے جس میں ملکیت کا حصول مشکل امر ہو ، جیسا کہ فی سبیل اللہ یعنی اللہ کی راہ والے مصرف میں ہے ، اور محققین علمائے کرام نے اس مصرف کو جہاد ، علم اور اللہ تعالی کی طرف دعوت پر محدود رکھا ہے ، کیونکہ اللہ کی طرف بلانا جس طرح تلوار سے ہوتا ہے اسی طرح زبان سے بھی ہوا کرتا ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے:( فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا)''(تو کافروں کا کہنا نہ مان اور اس قرآن سے ان پر جہاد کر بڑا جہاد) [سورہ فرقان : ٥٢] ، لیکن بعض علماء نے اس کے علاوہ ضرورت کے وقت'' سبیل اللہ'' کے مصرف کو زکوۃ کے استعمال کا ایک وسیع ترمصرف ٹھہرایا ہے ، لہذا ا ن کی رائے کے مطابق ہر نیکی کا کام اور ہر کار خیر اس مصرف میں شامل ہے ، اس بنیاد پر لوگوں کی عام مصلحتوں میں زکوۃ کو خرچ کرنا جائز ہے ، یہاں تک کہ اگر اس میں ملکیت کی شرط بھی نہ پائی جائے.
امام کاسانی '' بدائع الصنائع'' میں لکھتے ہیں:'' اور رہا اللہ تعالی کا یہ ارشاد:'' و فی سبیل اللہ'' یعنی اللہ تعالیٰ کے راستے میں ، تو بھلائی کے سارے راستے اس مفہوم میں شامل ہیں ، اور اس میں ہر وہ شخص داخل ہے جو اللہ کی اطاعت میں کوشاں ہو اور خیر کی کاموں میں لگا ہو بشرطیکہ وہ محتاج ہو'' ، یہاں تک امام کاسانی کی عبارت ختم ہوتی ہے.
امام فخر الدین رازی اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں رقمطراز ہیں :( اور جان لیجئے کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد'' و فی سبیل اللہ'' کے لفظوں سے بھی یہی عیاں ہو رہا ہے کہ اس کا مفہوم مجاہدین کے ساتھ خاص نہیں ہے ، اور یہی معنی علامہ قفال نے اپنی تفسیر میں بعض فقہائے کرام سے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ ان علماء نے ہر خیر کی راہ میں زکوۃ کے استعمال کو جائز رکھا ہے جیسے مردوں کی تجہیز و تکفین ، قلعوں یا مسجدوں کی تعمیر کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد''و فی سبیل اللہ'' ہر چیز کو شامل ہے].یہاں تک امام رازی کی عبارت مکمل ہوتی ہے.
اور مذہب امامیہ میں بھی ایسا ہی قول پایا جاتا ہے، اور زیدی مذہب کے بعض فقہائے کرام نے بھی ''و فی سبیل اللہ'' کے مصرف میں عموم کے معنی کو ترجیح دی ہے.
اس لئے ضرورت کے وقت اس رائے کو اختیار کیا جاسکتا ہے ، جیسے خیراتی ہسپتال کی تعمیر کے لئے اگر چندے اور خیرات کے اموال نہ ہوں ، یا اس جیسے دیگر رفاہ عامہ کے کاموں کے لئے استعمال کرنا جن میں عام مسلمانوں کا مفاد ہو ، لیکن یہاں اس بات کا لحاظ رکھنا ضرور ی ہے کہ فقیروں اور محتاجوں کے لباس ، کھانے ، رہنے ، اور دیگر ضروریات زندگی اور ان کی تعلیم کو فوقیت و ترجیح حاصل ہونی چاہئے ، تاکہ زکوۃ کی وہ بنیادی حکمت حاصل ہو جس کی طرف حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اشارہ فرمایا ہے: '' وہ ان کے دولتمندوں سے لی جاتی ہے اور ان کے محتاجوں میں تقسیم کی جاتی ہے''، اور خیراتی ہسپتال بنانے اور ان کے لئے طبی آلات خریدنے میں اگر چہ فقیر بیماروں کا ہی فائدہ ہے لیکن بہرحال اس صورت میں زکوۃ پر فقیروں کی ملکیت براہ راست نہیں پائی جاتی ہے حالانکہ یہ اس کا بنیادی مقصد ہے ، اس کے باوجود یہ حکم جواز ضرورت کی وجہ سے اصل کے خلاف استثنائی طور پر دیا گیا ہے.
اگر ہم اس رائے کو اختیار کرلیتے ہیں تو ان عمارتوں ، ہسپتالوں ، اور طبی آلات وغیرہ پر تمام مسلمانوں کی یکساں ملکیت ثابت ہوگی جیسا کہ عام راستوں اور عام پلوں پر ہوتی ہے ، یہاں پر یہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ اس ملکیت کی وجہ سے غیر مسلموں کا ان راستوں اور پلوں سے استفادہ کرنا ممنوع نہیں ہوتا ، اور نہ ہی اس پر یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ زکوٰۃ تو مسلمانوں کے ساتھ خاص ہے! ، کیونکہ تعمیر کرنے کے بعد کسی چیز سے استفادہ کرنے کا حکم اس چیز کے ابتدائی ملکیت کے حکم سے جدا گانہ ہوتا ہے ، اور اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی مسلمان زکوۃ لے اور اس مال سے کسی غیر مسلم کی مہمان نوازی کرے ، اور یہ عمل بغیرکسی اختلاف کے جائز ہے ، کیونکہ قواعد فقہ میں یہ بات طے شد ہ ہے کہ '' کوئی چیز ابتدا میں تو جائز نہیں ہوتی لیکن بعد میں کبھی کبھی جائز میں تبدیل ہو جاتی ہے''.
اس بنیاد پر اور سوال کی صورت کے پیش نظر اگر یہ ہسپتال واقعتاً اس آلے کا ضرورت مند ہے اور اس کے پاس خریدنے کے لئے چندے یا صدقے کی کوئی رقم نہیں ہے تو شرعی طور پر اس عمل کی کوئی ممانعت نہیں ہے اور مذکورہ بالا شخص زکوۃ کے مال سے وہ آلہ خرید سکتا ہے، اور اس کی قیمت کی مقدار میں اس کے مال کی زکوٰۃ ادا ہو جائیگی ، اور یہ حکم مذکورہ بالا رائے کے مطابق ہے، اگر چہ زیادہ بہتر یہی ہے کہ وقف کی صورت میں ہو ، یعنی صدقہ جاریہ کے طور پر ہو تاکہ وقف کرنے والے کو اس وقت تک ثواب پہونچتا رہے جب تک کوئی بھی شخص اس آلے سے مستفید ہوتا رہے ، یہاں تک کہ آلہ بالکل ناکارہ ہو جائے اور اس سے استفادہ بالکلیہ موقوف ہو جائے ، اور اس صورت میں اس وقف پر ہسپتال کی حیثیت وہی ہوگی جوایک نگران کی ہوتی ہے جو اس آلے کو چلاتا اور نگرانی کرتا ہے اور اس کا فائدہ بیماروں کو حاصل ہوتا ہے اور چندہ دینے والے کو بھی مسلسل ثواب ملتا رہتا ہے.
و اللہ سبحانہ و تعالی اعلم.