سرپرست کے بغیر عورت کی شادی
Question
میں نے عرب امارات کی شہریت والی ایک خاتون سے شادی کی ہے جو پہلے شادی شدہ تھی اور اب اس کی عمر سینتیس سال ہو چكى ہے ، یہ عقد نکاح گواہوں ، مہر اور سارے شروط کے ساتھ ایک وکیل کے پاس مکمل ہوا ۔ کمی اگر رہی تو صرف یہ کہ اس کا سرپرست اس نکاح سے ناراض تھا کیونکہ میاں بیوی دونوں کی شہریت الگ الگ ہے ، عقد نکاح لکھنے کے بعد میں نے دستخط بھی کرديا ، مزید براں درستگی کا معاملہ عدالت میں پیش کیا اور عدالت نے بھی اس کی تائید میں اپنا فیصلہ دے دیا ، صرف یہی نہیں بلکہ اس کے بعد میں نے یہ فیصلہ وزارت عدل ، وزارت خارجہ اور اماراتی سفارت خانے سے بھی مصدقہ کرا دیا ، اس کے بعد میں نے کھلے عام شادی کا اعلان کیا حتی کہ بیوی کے گھر والوں کو بھی اس کی خبر دی ، لیکن اس کے باوجود اس کے باپ نے عرب متحدہ امارات کی ایک عدالت میں مقدمہ دائر کیا اور یہ دعوی کیا کہ یہ نکاح صحیح نہیں ہے کیونکہ اس میں سرپرست کی شرط نہیں پائی گئی ہے.
تو کیا یہ شادی جائز شادی ہے؟ اور اس بارے میں شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟
Answer
نکاح میں سرپرستی ایک قسم کی نگرانی ہے جس کو شریعت مطہرہ نے عورت کی حفاظت کی ضمانت کے طور پر متعین کیا ہے کیونکہ نکاح سے عورت اپنی زندگی کا ایک بڑا مرحلہ شروع کرتی ہے ، اور شریعت نے اس سرپرستی کے احکام کی تعیین کے وقت اس بات کی رعایت رکھی ہے کہ اس سرپرستی کی بنیاد عورت پر شفقت اور اس کی مدد اور نصرت پر ہونی چاہئے.
امام ابو حنیفہ کی رائے یہ ہے کہ بالغ لڑکی پر کسی کی سرپرستی نہیں ہے ، اور اس بنا پر وہ اپنی شادی خود کر سکتی ہے چاہے وہ کنواری ہو یا شادی شدہ ہو وہ اپنا عقد نکاح خود کرسکتی ہے . اور انہوں نے حقیقی سرپرستی کو صرف چھوٹی نابالغ لڑکی تک محدود رکھا ہے ، اور عقلمند بالغ لڑکی پر ولایت کو انہوں نے وکالت قرار دیا ہے سرپرستی نہیں.
اور اس بارے ميں مصری قانون احناف کے مذہب سے لیا گیا ہے ، اس لئے اس قانون کے مطابق بالغ عورت کو اپنے آپ کی شادی کرانے کا مکمل حق حاصل ہے ، اور اس کا نکاح درست مانا جاتا ہے بشرطیکہ وہ اپنے ہم پلے کے ساتھ شادی کرے اور رائج مہر پر شادی کرے.
واضح رہے کہ شریعت نے بلوغ کو کمال عقل کی علامت قرار دیا ہے ، اور دیگر علامات کے نہ پائے جانے کے وقت عمر کے لحاظ سے بالغ ہونے کو بھی قابل اعتبار قرار دیا ہے . لیکن فقہائے کرام کے درمیان بالغ ہونے کی عمر کے بارے میں اختلاف ہے ، شافعی اور حنبلی حضرات اور صاحبین ابو یوسف اور محمد کے نزدیک بچہ اور بچی کے بالغ ہونے کی عمر قمری پندرہ سال ہيں اور مالکی حضرات کے نزدیک اٹھارہ سال ہيں ، اور دوسری عمروں کا تعین بھی وارد ہے : چنانچہ پندرہ ، انیس اور سترہ بھی کہا گیا ہے ، مگر امام ابو حنیفہ نے اس بارے میں تفصیلی بحث کی ہے اور انہوں نے لڑکے کے بالغ ہونے کی عمر اٹھارہ سال قرار دی ہے ، اور لڑکی کے بالغ ہونے کی عمر سترہ سال قرار دی ہے.
مصری قانون كے پرسنل لا سے متعلق مقدموں کی کاروائیوں كے قا نون نمبر ٥٦ بابت سال ١٩٢٣ میں بیان ہوا ہے ، اس قانون میں انتظامی نقطہء نظر سے اور عدالتی لحاظ سے شادی کے لئے کم سے کم عمر طے کی گئی ہے ، اور اگر شادی کے وقت بیوی کی عمر سولہ سال سے کم ہو اور شوہر کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہو تو اس قانون کے پیش نظر ان کی ازدواجی مقدمہ کی شنوائی ممنوع ہے ليكن اگر سرپرست کے حکم سے ہوئی ہو تو شنوائی ہوگى ۔ اس کے بعد قانون نمبر ٧٨ بابت سال ١٩٣١ کا سرکاری پروان صادر کیا گیا جو گذشتہ قانون کے موافق تھا پھر اس کے بعد قانون نمبر ٨٨ بابت سال ١٩٥١ کی دفعہ نمبر ٩٩/٥ میں ترمیم کی گئی ، جس ميں ہجری تاریخ کے مطابق سالوں کی تحدید کی گئی ، پھر سال ٢٠٠٠ کے قانون نمبر ایک میں عیسوی تاریخ کے مطابق عمر متعین کرنے کا معاملہ طے ہوا ہے.
لہذا سوال کے پیش نظر مذکورہ بالا عورت کے ساتھ جو عقد نکاح ہوچکا ہے وہ شرعی لحاظ سے بھی درست ہے بشرطیکہ شوہر اس کا ہم پلہ ہو ، اور شوہر نے اس کو اس جیسی عورتوں میں رائج مہر دے دیا ہو.
باقی اللہ سبحانہ و تعالی زیادہ بہتر جاننے والا ہے.