میلاد النبی ﷺ کی شیرینی خریدنا اور ...

Egypt's Dar Al-Ifta

میلاد النبی ﷺ کی شیرینی خریدنا اور ایک دوسرے کو بطورِ تحفہ دینا

Question

میلاد النبی ﷺ کی شیرینی خریدنے اور یہ ایک دوسرے کو بطور تحفہ دینے کا کیا حکم ہے؟ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ بت ہیں (کیونکہ مصر میں یہ مٹھائی گڑیا اور گھڑ سوار کی شکل میں بھی بنی ہوتی ہے) یہ بدعت ہے اور حرام ہے، اس کا کھانا مسلمان کیلئے حرام ہے، اس کی خرید وفروخت کرنا اور بطور تحفہ دینا جائز نہیں ہے۔ 

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد! نبی اکرم ﷺ کا میلاد مبارک منانا اور اس موقع پر خوشی کا اظہار کرنا افضل ترین اعمال اور قرب الٰہی کے بڑے اسباب میں سے ہے۔
فرحت اور سرور کے ہر قسم کے اظہار کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کا میلاد مبارک منانا مستحب ہے، اور ہر اس عمل سے جو قرب الٰہی کا سبب بنتا ہے، اس میں میلاد کے موقع پر لوگوں میں مروجہ ان میٹھائیوں کا خریدنا اور بطورِ تحفہ دینا بھی شامل ہے؛ کیونکہ اس کے ساتھ وہ لوگ میلاد پاک پر اظہار خوشی کر رہے ہوتے ہیں، اور اس چیز کے ساتھ محبت کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں جو نبی اکرم ﷺ کو پسند تھی؛ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں: "كَانَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم يُحِبُّ الحَلْوَاءَ، وَيُحِبُّ العَسَلَ" رواه البخاري وأصحاب السنن وأحمد، یعنی: نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم میٹھائی اور شہد پسند فرمایا کرتے تھے۔'' تو ان لوگوں کا فعل یہ افعالِ حسنہ میں سے ہے، کیونکہ آپس میں ایک دوسرے کو تحفے تحائف دینا فی ذاتہ شرعا امرِ مطلوب ہے؛ اس لئے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: «تَهَادوْا تَحَابوْا» رواه الإمام مالك في "الموطأ" یعنی ایک دوسرے کو تحفے دیا کرو اس سے محبت بڑھتی ہے، شریعتِ مطہرہ میں کوئی ایسی دلیل وارد نہیں ہوئی جو اس عمل سے منع کرتی ہو، یا کسی ایک وقت میں جائز اور دوسرے وقت ناجائز قرار دیتی ہو، اور پھر جب یہ فعل نیک مقاصد کے ساتھ مل جائے مثلا گھر والوں کو خوش کرنا یا صلہ رحمی کرنا تو مستحب اور مندوب بن جاتا ہے، اور جب اس کے ساتھ میلادِ مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی خوشی کا اظہار شامل ہوجائے تو بدرجہ اولی مستحب اور مندوب ہوجاتا ہے؛ کیونکہ ''مقاصد تک پہنچانے والے وسائل کا بھی وہی حکم ہوتا ہے جو مقاصد کا ہوتا ہے'' میلاد شریف کے ذکرِ پاک میں جائز طریقے سے فرحت وسرور کے ہر قسم کے اظہار کے مستحب ہونے پر علماءِ اسلام کی نصوص موجود ہیں۔
امام سیوطی رحمہ اللہ اپنی کتاب " حسن المقصد في عمل المولد" میں فرماتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پر اجتماع کرنا، کھانا کھلانا اور اس قسم کے دوسرے کام کرنا جو قربِ الٰہی کا سبب ہوں اور خوشی کے اظہار کا باعث ہوں، ہمارے لئے مستحب ہے۔
إمام القراء حافظ شمس الدين ابن جزري رحمہ اللہ اپنی كتاب "عرف التعريف بالمولد الشريف " میں بیان کرتے ہیں: مروی ہے کہ ابو لہب کو اس کی موت کے بعد خواب میں دیکھا گیا، اس سے پوچھا گیا تیرا کیا حال ہے؟ تو اس نے کہا: آگ میں ہوں مگر ہر پیر کی رات عذاب میں تخفیف کی جاتی ہے اور میں اپنی دو انگلیوں کے درمیان سے اس قدر پانی چوستا ہوں – اور اس نے اپنی انگلی کے پورے کی طرف اشارہ کیا – اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب سویبہ نے جب نبی اکرم ﷺ کی ولادت اور آپ ﷺ کو اپنا دودھ پلانے کی مجھے خبر دی تھی تو میں نے اسے آزاد کیا تھا۔ تو جب ابو لہب جس کی مذمت قرآن میں نازل ہوئی، میلادِ مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم پر خوش ہونے کی وجہ سے آگ میں بھی اسے اس خوشی کے اظہار کا اجر ملتا ہے تو نبی رحمت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے اس موحد امتی کی کیا شان ہوگی جو میلادِ مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم پر خوش ہوتا ہے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں اپنی استطاعت کے مطابق خرچ کرتا ہے! یقینا اللہ کریم کے ہاں اس کی جزاء یہ ہوگی کہ اسے اپنے فضل سے جنت میں داخل فرمائے گا۔''
حافظ شمس الدين بن ناصر الدين الدمشقي اپنی كتاب "مورد الصادي في مولد الهادي" میں فرماتے ہیں: یہ بات صحیح ہے کہ ابو لہب سے پیر کے دن جتنا وقت عذاب میں تخفیف کی جاتی ہے اس وجہ سے کہ اس نے میلادِ مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں سویبہ کو آزاد کیا تھا، پھر آپ نے یہ اشعار پڑھے۔
إذا كان هذا كافــرًا جاء ذَمُّـــــــــــــــــــهُ ... وتبَّتْ يداه في الجحـيم مُخَلَّدا أتى أنه في يوم الاثنـــــــــــــــــين دائمًـــا ... يخفف عنه للسرور بأحمـــــــدا
فما الظنُّ بالعبد الذي كان عمرَه ... بأحمدَ مسرورًا ومات موحدًا
علامہ کمال ادفوی رحمہ اللہ اپنی کتاب "الطالع السعيد" میں بیان کرتے ہیں: ہم سے ہمارے ایک سچے ساتھی ناصر الدین محمود بن عماد نے بتایا کہ أبو طيب محمد بن إبراهيم سبتي مالكي جو ''قوص'' کے رہائشی اور عالم دین تھے میلادِ مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے دن مدرسے کے پاس سے گزر رہے تھے کہنے لگے اَے فقیہ! آج خوشی کا دن ہے بچوں کو چھٹی دے دیں تو انہوں دے ہمیں چھٹی دے دی۔ اس میں ان کے میلادِ مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم منانے کا اقرار کرنے اور اس کا انکار نہ کرنے کی دلیل ہے، یہ آدمی مالکی فقیہ تھے علوم اسلامیہ میں ماہر تھے، اور پرہیز گار تھے، ابو حیان اور ان کے علاوہ اور علماء نے بھی ان سے اخذ کیا ہے اور آپ رحمہ اللہ کی وفات 695 ہجری میں ہوئی۔
یہ خیال کرنا کہ میلاد النبی ﷺ کی شیرینی بت ہیں، یہ شیرینی خریدنا بدعت ہے، حرام ہے، اسے کھنا اور تحفہ دینا ناجائز ہے تو یہ خیال اور اس قسم کا کلام باطل ہے بلکہ یہ اقوال اپنے قائل کی شریعتِ مطہرہ کے مقاصد اور اس کے احکام کی فہم سے جہالت پر دلالت کرتے ہیں، بلکہ یہ اقوال خود بدعت ہیں قدیم اور جدید زمانے میں کبھی علماء نے اسے بدعت اور حرام نہیں کہا، تو ان اقوال کو لینا اور ان پر عمل کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ ان میں اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرنے والے لوگوں کو مشرکین اور بت پرستوں سے تشبیہ دی جا رہی ہے، اور یہ ان خوارج کا مسلک ہے جو مشرکین کے بارے میں نازل ہونے والی نصوص کے ساتھ مسلمانوں پر فتوے لگاتے تھے، اس نہج پر چلنے والوں کے رد میں اللہ تعالی فرماتا ہے :﴿أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ ۝ مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ﴾ [القلم: 35-36]، یعنی: کیا ہم فرمانبرداروں کا حال مجرموں کا سا کر دیں گے، تمہیں کیا ہوگیا تم کیسے فیصلے کرتے ہو۔''
ان فاسد اقوال کو تسلیم کرنے سے میلادِ مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم پر خوشی کے مظاہر کی تحریم لازم آتی ہے اور یہ فطرتِ سلیمہ کے مخالفت ہونے کے ساتھ ساتھ امت محمدیہ ﷺ کے عمل کے بھی خلاف ہے، صدیوں سے مسلمان اس موقع پر تحفے تحائف دیتے آرہے ہیں اور بغیر کسی انکار کے میلادِ مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں فقراء اور اپنے اہل عیال پر فراخدلی سے خرچ کرتے رہے ہیں، اور انسان کی جبلت میں ہے کہ جس سے پیار کرتا ہے اس کے ساتھ فرحت وسرور پاتا ہے اور نبی اکرم سب سے اعلی محبوب اور وہی سب سے اولی باعث فرحت وسرور ہیں۔ ان لوگوں کے فاسد دعوؤں کو اگر سچ مانا جائے تو امتِ مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کو گمراہ اور تمام زمان و مکان کے علماءِ اسلام کو جاہل ماننا پڑے گا۔
لہذا: میلاد النبی ﷺ کی شیرینی خریدنا اور یہ ایک دوسرے کو بطور تحفہ دینا میلاد النبی ﷺ کے دن فقراء اور اپنے اہل وعیال پر فراخدلی سے خرچ کرنا اور ان کے علاوہ بھی دنیوی فرحت کے جائز مظاہر کے ساتھ میلاد مصطفی ﷺ منانا شرعا جائز ہے، اس میں نبی اکرم ﷺ کی محبت اور آپ ﷺ کی تعظیم کی وجہ سے مسلمان کو ثواب بھی ملے گا اور اس عمل کی بہت بڑی فضلیت ہے؛ کیونکہ ''مقاصد تک پہنچنے والے وسائل کا بھی وہی حکم ہوتا ہے جو مقاصد کا ہوتا ہے''(اور اس کا مقصد نبی اکرم ﷺ سے محبت کا اظہار کرنا ہے)
لیکن اولی یہ ہے میلادِ مصطفی ﷺ مظاہر دینیہ کے ساتھ منایا جائے، جیسے تلاوتِ قرآنِ پاک، نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کی تلاوت، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ واصحابہ وسلم پر درود وسلام کی محافل منعقد کرنا آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی شان میں نعتیں پڑھنا اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی عظیم خصوصیات اور شمائل بیان کرنا۔
جو اوقوال میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے اور کسی بھی جائز طریقے کے ساتھ میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر خوشی کے اظہار کو حرام قرار دیتے ہیں وہ اقوال فاسد اور بے بنیاد آراء ہیں جنہیں ان بدعتیوں سے پہلے کسی نے بھی نہیں کہا، ان اقوال کو لینا اور ان پر اعتماد کرنا جائز نہیں ہے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.

 

Share this:

Related Fatwas