عورتوں کا مردوں کو پڑھانا
Question
اگر کسی جگہ قرآن کریم کی قراءتیں ، تلاوت کا طریقہ ، قرآن کا رسم الخط اور متن وغیرہ پڑھانے کے لئے مرد ماہرین موجود نہ ہوں تو کیا عورت کے لئے وہاں مردوں کو یہ علوم پڑھانا جائز ہے؟
Answer
مردوں کے عورتوں سے تعلیم حاصل کرنے اور عورتوں کے مردوں سے علم سیکھنے میں شرعی لحاظ سے کوئی ممانعت نہیں ہے ، کیونکہ اگلے اور پچھلے مسلمانوں کا عمل اس بات کا گواہ ہے کہ مردوں کا عورتوں کے ساتھ ایک جگہ پر ہونا بذات خود حرام نہیں ہے ، لیکن اگر اس اجتماع کی صورت شریعت کے مخالف ہو تو حرام ہے ، مثال کے طور پر اگر عورتیں ان اعضاء کی نمائش کریں جن کا اظہار شرعی لحاظ سے نا جائز ہے ، یا یہ اجتماع برائی پر ہو یا برائی کے لئے ہو ، یا اس میں حرام خلوت پائی جائے تو حرام ہے ، چنانچہ علمائے کرام نے بیان کیا ہے کہ وہ اختلاط بذات خود حرام ہے جس میں ایک دوسرے سے چپکنا اور چھونا پایا جائے لیکن مردوں اور عورتوں کا ایک جگہ پر صرف جمع ہونا حرام نہیں ہے . اور یہی سنت نبوی سے بھی ثابت ہے ، چنانچہ صحیحین میں سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں: ''جب ابو اسید ساعدی نے شادی کی تو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کو دعوت دی ، ان کے لئے کھانا بھی ام اسید نے ہی بنایا اور پیش بھی اُنہوںنے کیا''. امام بخاری نے اس کا اس طرح باب قائم کیا ہے:" باب قيام المرأة علي الرجال في العرس و خدمتهم بالنفس" يعني شادی میں عورت کا بذات خود مردوں کی خدمت کرنا'' انتھی.
امام قرطبی نے تفسیر میں لکھا ہے: ''ہمارے علماء نے فرمایا ہے: اس حدیث شريف میں شادی میں دلہن کے اپنے شوہر اور ان کے دوستوں کی بذات خود خدمت کرنے کے جواز پر دلالت ہے'' انتھی.
ابن بطال بخاری شريف کی شرح میں اس کے ضمن میں یوں لکھتے ہیں: '' اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ حجاب( یعنی عورتوں کا مردوں سے بالکل الگ تھلگ دور رہنا یا بلا واسطہ معاملہ کرنا) مومنوں کی عورتوں پر فرض نہیں ہے ، بلکہ یہ صورت حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ازواج مطہرات کے لئے خاص ہے ، اور اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں اس امر کو اسی ضمن ميں بیان بھی فرمايا : (وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاء حِجَابٍ)(الأحزاب: 53) - اور جب تم ان سے استعمال کی کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو - انتھی.
نیز حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں لکھا ہے: '' اس حدیث میں اس بات کا جواز ہے کہ عورت اپنے شوہرکی خدمت کر سکتی ہے اور ان کی بهي خدمت کر سکتی ہے جن کو اس کا شوہر مدعو کرے ، ظاہر ہے کہ یہ فتنے سے محفوظ رہنے ، واجب پردے کی رعایت اور ان امور میں مرد کا اپنی بیوی سے کام لینے کی صورت میں ہے'' ، انتھی.
اس کے علاوہ صحیحین میں ہی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی سند سے حضرت ابو طلحہ انصاری کے اپنے مہمان کو کھلانے کے قصے میں بیان ہوا ہے کہ وہ اس کو یہ احساس دلانے لگے کہ وہ کھا رہے ہیں ، لیکن وہ رات بھر بھوکے رہے . اور ابن ابی الدنیا کی ''قری الضیف''( مہمان نوازی) میں حضرت انس کی روایت سے منقول ہے کہ اس آدمی نے اپنی بیوی سے کہا: "اس روٹی کو ثرید بنائے اور گھی کا سالن ڈال کر اس کو پیش کیجیے ، اور خادم کو حکم دیجیے کہ شمع بجھا دے ، اس کے بعد اس کی بیوی اور وہ دونوں یونہی چبانے لگے یہاں تک کہ مہمان کو یہ محسوس ہوا کہ وہ بھی کھا رہے ہیں" ، انتھی. اس کا ظاہر یہی بيان كرتا ہے کہ وہ سب ایک ہی برتن میں شریک تھے . اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ارشاد فرمایا: '' مہمان کے ساتھ تم دونوں کا رویہ اللہ تعالی کو پسند آیا'' ، اور ان دونوں کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی: (وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ) – اور وہ اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں ، اگرچہ انہیں شدید محتاجی ہو - [ الحشر: ٩].
اس کے علاوہ صحیح بخاری میں حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ کی سند سے منقول ہے فرماتے ہیں: حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان اور حضرت ابو درداء کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا ، تو حضرت سلمان حضرت ابو درداء سے ملنے گئے تو انہوں نے ام درداء کو پراگندہ صورت میں پایا ، پوچھا کیا بات ہے؟ اس نے جواب دیا تمہارے بھائی ابو درداء کو دنیا کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، اتے ميں ابو درداء آگئے اور ان کے لئے کھانا بنایا.... حدیث کے آخر تک.
حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں لکھا ہے: '' اس حدیث سے کئی سبق ملتے ہیں ، غیر محرم عورت سے بات چیت کرنا ، اور با مقصد سوال و جواب کرنا'' انتھی.
جہاں تک مردوں کے عالمہ عورت سے دینی علم سیکھنے اور وعظ و نصیحت سننے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں معروف ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات علم سکھایا کرتیں تھیں اور دین کی نشر و اشاعت کا کام کرتیں تھیں. اس بات کی گواہی ان سے روایت کردہ احادیث کے ضخیم دفاتر ہیں بلکہ ان کے بعد والی عورتوں کی مرویات بهى اس بات کی گواہی ہے جن سے مردوں نے روایت کی ہے اور ان سے علم سیکھا ہے ، حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب '' الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ'' ہی میں ایک ہزار پانچ سو تینتالیس خواتین کی سوانح بیان کی ہیں جن میں فقیہہ بھی ہیں محدثہ بھی اور ادیبہ بھی.
اس کے علاوہ مسلم خاتون شرعی لباس کی رعایت کرتے ہوئے اور اسلام کے دائرے میں رہ کر اور آداب و اخلاق کو ملحوظ رکھتے ہوئے سماجی زندگی میں مردوں کے ساتھ شریک ہوتی تھی ، یہاں تک کہ بعض صحابیات تو منصب حسبۃ( نگراني ) پر فائز تھیں ، چونکہ امام طبرانی نے ''المعجم الکبیر'' میں ابو بلج یحیی بن ابی سلیم سے ایسی سند کے ساتھ روایت کی ہے جس کے رجال ثقہ ہیں کہ انہوں نے کہا: '' میں نے سمراء بنت نہیک - جنہوں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا تھا - کو ایک موٹا کھوکھ پہنے اور ایک موٹی اوڑھنی اوڑھے اور ہاتھ میں کوڑا لئے ہوئے دیکھا جس سے لوگوں کو سزا دیتی تھی نیز بھلائی کا حکم دیتی اور برائی سے منع کرتی تھی''.
اس لئے سنت پاک اور تاریخ اسلامی میں ثابت شدہ واقعات کو جھٹلانے کا حق کسی کو نہیں پہونچتا ہے ، اور نہ ہی کسی خاص زمانے یا کسی خاص جگہ کے موروثی رسم و رواج کو دین اور شریعت پر تھوپنا درست ہے ، بلکہ شریعت کی بالا دستی ہے اس پر کسی کی بالا دستی نہیں . ہاں اگر کوئی شخص ورع اور پرہیزگاری کا کوئی طریقہ اختیار کرلیتا ہے تو یہ اس کا اپنا معاملہ ہے لیکن اس طریقے کو دوسروں پر تھوپنا اور دوسروں کو بھی اسی کا پابند کرنا جائز نہیں ، اسی طرح جن امور میں اللہ تعالی نے آسانی اور گنجائش رکھی ہے ان میں سختی اور تنگی پیدا کرنا نا جائز عمل ہے.
باقی اللہ سبحانہ و تعالی زیادہ بہتر جاننے والا ہے