سید احمد البداویؒ کا اپنی حیات میں ...

Egypt's Dar Al-Ifta

سید احمد البداویؒ کا اپنی حیات میں اور بعد از وفات لوگوں کے ہاں مقام ومرتبہ

Question

سائل پوچھ رہا ہے کہ کچھ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ سید البدوی رحمہ اللہ کو امراء، علماء، اور عام و خاص کے ہاں بہت وقار اور عزت حاصل تھی۔ تو یہ بات کس حد تک صحیح ہے؟ 

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ سید احمد البدوی رحمہ اللہ ایک عارف باللہ، امام، قاری، فقیہ اور امت کے ممتاز علماء کرام میں سے ایک ہیں۔ وہ ان اولیاء میں سے ہیں جن کے لیے اللہ تعالی نے اپنی زمین پر عوام الناس وخواص کے اندر قبولیت رکھ دی ہے۔ وہ امراء، علماء، امیر اور غریب سب کیلئے قابل تعظیم اور حکمرانوں اور حکمرانوں کے ہاں قابل احترام تھے، سب لوگ آپ کی حیاتِ طیبہ میں اور بعد از وفات آپ کی ولایت کے معتقد تھے، اور جب آپ مصر میں داخل ہوئے تو آپ کو علماء کرام کے ہاں، حکمرانوں کے ہاں اور ہر عام وخاص لوگوں کے ہاں قبولیتِ تامہ حاصل ہو گئی.
چنانچہ الملک الظاہر بیبرس البندقداری [ط: 676ھ] کے ہاں جب آپ تشریف لاتے توہ وہ آپ کا استقبال کیا کرتا تھا، تعظیم وتکریم کیا کرتا تھا، اور آپ کوشاہی مہمان خانے میں ٹھہرایا کرتا تھا، اور الملک الظاہر بیبرس البندقداری بھی طنطہ میں آپ کی زیارت کے لیے جا یا کرتا تھا۔ امام الشعرانی رحمہ اللہ نے "الطبقات الوسطى" (ق: 103أ، مخطوط راغب) میں فرمایا: اور جب سیدی احمد البدوی مصر تشریف لائے تو ابو فتوحات الملک الظاہر بیبرس اور اس کی فوج نے باہر نکل کر سیدی احمد البدوی رحمہ اللہ کا استقبال کیا، آپ کی بہت عزت و تکریم کی اور آپ کو مہمان خانے میں ٹھہرایا۔ جب آپؒ طنطہ کے علاقے میں رہائش پذیر ہوئے تو الملک الظاہر بیبرس آپ سے ملنے جایا کرتا تھا اور آپ کا بہت معتقد تھا۔
علامہ مؤرخ علی پاشا مبارک [متوفی: 1311 ہجری] "الخطط التوفیقیہ" (13/49، ط. المطبعة الأميرية) میں فرماتے ہیں: [لوگوں کے ہاں آپ کی زندگی میں بھی آپ کا بہت زیادہ احترام تھا اور لوگ آپ کے زیادہ معتقد تھے، آپ سے محبت کرتے تھے، آپ آفاقِ عالم میں مشہور اورعزت و وقار کے اعلیٰ رتبے پر فائز تھے، اور ابو الفتوحات الملک الظاہر بیبرس البندقداری آپ کے بہت زیادہ معتقد تھے اور آپ کی تعظیم بہت زیادہ کیا کرتے تھے۔
سلطان الاشرف ابو النصر سیف الدین قطبی محمودی، سید احمد البدوی رحمۃ اللہ علیہ کی قبرِ انور کی زیارت کیلئے آیا کرتے تھے۔ جیسا کہ " نيل الأمل في ذيل الدول" (7/ 336، ط. المكتبة العصرية) میں آمذکور ہے۔
سید البدوی کے خلفاء - رحمھم اللہ - کی بھی حکمرانوں کے ہاں بہت تعظیم کی جاتی تھی۔ علامہ الغزی رحمہ اللہ نے "الكواكب السائرة" (1/ 27-28، ط. دار الكتب العلمية): میں احمدیہ کے شیخ بدر الدین الصعیدی کے حالاتِ زندگی لکھتے ہوئے فرمایا: دونوں ملکوں میں آپ کی شفارش قول کی جاتی تھی بادشاہ اور اس کے نیچے سب امراء وغیرہ آپ کی بات سنتے تھے اور جب آپ مصر کے نائب کے پاس جاتے تو وہ آپ کے لیے کھڑا ہوتا، آپ کو علیحدگی میں وقت دیتا، آپ کی حاجتیں پوری کرتا، سفارش قبول کرتا، آپ کی بات کو اہمیت دیتا، اسے اشرافیہ اور اپنے حلقہ احباب میں بیان کرتا، اور آپ کو اپنے والدِ گرامی جیسا احترام دیتا، اور آپ جھگڑے ختم کراتے، اور تعلیمات کو ایسے نافذ کرتے کہ کوئی دوسرا نہیں کر سکتا تھا، اور آپ قتل سے خلاصی دلاتے تھے، اور آپ پرسکون اور با وقار رہتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے ولی سید احمد البدوی رحمہ اللہ کو عوام الناس اور خواص الناس سب لوگوں کے اندر مقبولیت عطا کر کے ایسا مقام عطا فرمایا کہ بہت سے علماء نے حصول برکت کیلئے اپنے علماء بچوں کے نام آپؒ کے نام اور لقب پر "سید البدوی" رکھے۔ یہاں تک کہ لوگوں میں اس نام کا بہت زیادہ اضافہ ہو گیا: جیسے شیخ العلامہ محمد بن ابی احمد اموی مجلسی شنقیطی، اور ان کے فرزند علامہ احمد البداوی شنقیطی مجلسی ہیں، جو کہ نظم "عمود النسب " کے مصنف ہیں؛ آپؒ نے اپنے اس بیٹے کا نام اور لقب حصول برکت کیلئے سید البدوی رضی اللہ عنہ کے نام اور لقب پر "احمد البداوی" رکھا؛ جیسا کہ "رياض السيرة والأدب، في إكمال شرح عمود النسب" کے مصنف نے اپنی اس کتاب کے (جلد1 صفحہ 3، ایڈیشن دار الفتح) میں ذکر کیا ہے۔
اسی طرح علامہ محدث سید محمد ابو النصر الخطیب الشافعی ہیں جنہوں نے اپنے بیٹے کا نام "سید احمد البداوی شیخ العرب" رکھا اور ان کا بیٹا معرۃ النعمان کا قاضی بنا؛ جیسا کہ علامہ عبدالستار دہلوی صدیقی رحمہ اللہ نے "فيض الملك الوهاب المتعالي بأنباء أوائل القرن الثالث عشر والتوالي" (3/1705) میں ذکر کیا ہے۔
اوراسی طرح احمدی مسجد کے امام شیخ ابراہیم بن ابراہیم ظواہری شافعی رحمہ اللہ نے حصولِ برکت کیلئے اپنے بیٹے کا نام امام سید احمد البداوی رحمۃ اللہ علیہ کے نام کی نسبت سے "محمد الاحمدی" رکھا، اور ان کے یہ بیٹے شیخ الاسلام امامِ اکبر محمد احمدی ظواہری امام جامع الازہر ہیں۔ اور اس تفصیلِ مذکور سے سوال کا جواب معلوم ہو چکا ہے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.
 

Share this:

Related Fatwas