قدیم تراثی تصورات اور دہشت گردی کے ...

Egypt's Dar Al-Ifta

قدیم تراثی تصورات اور دہشت گردی کے پھیلاؤ پر اس رجحان کے اثرات

Question

  کیا قدیم تراثی تصورات کو واقعِ حال میں لانا مناسب ہے؟ اس رجحان کے دہشت گردی کے پھیلاؤ پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

Answer

واقع کا فقہی تشکیل اور شرعی فتویٰ پر بہت زیادہ اثر ہوتا ہے، اور یہ شرعی احکام کے تدریجاً نفاذ  کی ایک اہم ترین وجہ ہے، مثلاً  ہم جانتے ہیں کہ شریعت کے آغاز میں نماز کی وہ صورت نہیں تھی جو اخیر عہد نبوی میں تھی۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ( پہلے ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے ہوتے اور ہم سلام کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا جواب دیتے تھے۔ جب ہم نجاشی کے یہاں سے واپس ہوئے تو ہم نے ( پہلے کی طرح نماز ہی میں ) سلام کیا۔ لیکن اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا بلکہ نماز سے فارغ ہو کر فرمایا کہ نماز میں آدمی کو فرصت کہاں۔" متفق علیہ۔ انتہا پسند دھاروں کی مصیبت یہ ہے کہ وہ موجودہ واقع کو مدِ نظر نہیں رکھتے بلکہ ہر اس واقع کو مذموم کہتے ہیں جو اس واقع کے خلاف ہو جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی گزاری۔ اور موجودہ واقع کو مختلف طریقوں سے بدلنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ہمارے اسلاف نے ایسا نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنے واقع کی رعایت کرتے ہوۓ بہت سے مسائل میں اپنے سے پہلے علماء سے اختلاف کیا ہے، اور ایسے مسائل سے کتابیں بھری پڑی ہیں؛ لہٰذا ہمیں ان کی تقلید کرتے ہوئے اپنے واقع کو مدنظر رکھنا چاہیے اور ان کے اجتہادی مسائل کو جوں کے توں اپنے واقع میںکھینچ کر نہیں لانا چاہیے؛ کیونکہ ماہرین علماء کا یہی کردار ہوتا ہے۔

Share this:

Related Fatwas