عام لوگوں کا مفتی سے دلیل کا مطالبہ...

Egypt's Dar Al-Ifta

عام لوگوں کا مفتی سے دلیل کا مطالبہ کرنے کا خطرہ

Question

  عام لوگوں کے مفتی سے دلیل کا مطالبہ کرنے میں کیا خطرہ ہے؟

Answer

شرعی علوم میں مہارت نہ رکھنے والے عام آدمی کا مفتی سے فتوے پر دلیل مانگنا ممنوع ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک غیر ماہرانسان  دلیل کو پرکھنے کا اہل نہیں ہوتا، اور ہو سکتا ہے کہ وہ ثبوت کو نہ سمجھ سکے یا اس سے وہ کوئی اور مطلب نکال لے، اور یہ وقت اور جہدکا ضیاع ہے یا جہالت پھیلانے کا سبب ہے،اور شریعت میں یہ دونوں چیزیں مذموم ہیں۔ مثال کے طور پر اگر سائل نے مفتی سے ظہر کی رکعات کی تعداد کے بارے میں پوچھا اور مفتی نے بتایا کہ چار ہیں پھر اس نے اس پر دلیل پوچھی اور مفتی نے اسے کہا کہ اس کی دلیل اجماع ہے تو سائل کو اب سمجھنا پڑے گا کہ اجماع کیا ہوتا ہے؟ اور اس کی حجیت کیا ہے؟اور اس کی حجیت  پر کیا دلیل ہے؟ اس کی اقسام کونسی ہیں؟ یہاں اجماع کی کون سی قسم پائی جا رہی ہے؟ علمِ اصول فقہ میں یہ ایک بہت بڑا موضوع ہے جسے ہر کوئی نہیں سمجھ سکتا، بلکہ پہلے اس کے مقدمات کا تعارف ہونا ضروری ہوتا ہے، اور اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ آئمہ  کرام رحمھم اللہ نے زما نۂ قدیم سے ہی یہ شرط رکھی کہ سائل کو مفتی سے فتوی کی دلیل کے بارے میں نہیں پوچھنا  چاہیے۔ لیکن اگر وہ علم حاصل کرنا چاہتا ہو، اگرچہ اس قدر ہی جس سے اسے اطمینانِ قلب ہو جاۓ اور اس کا ارادہ فتویٰ کو قبول کرنے یا مسترد کرنے کا نہ ہو تو دلیل پوچھ سکتا ہے۔

Share this:

Related Fatwas