تحیۃ المسجد الحرام کا بیان

Egypt's Dar Al-Ifta

تحیۃ المسجد الحرام کا بیان

Question

مسجدِ حرام کیلئے تحیۃ المسجد کیا ہے؟ میں - انشاء اللہ - اس سال حج کرنا چاہتا ہوں اور یہ جانتا ہوں کہ مسجد حرام میں داخل ہوتے وقت سب سے پہلے بیت اللہ شریف کا طواف کیا جاتا ہے، لیکن میرے ایک رشتہ دار نے مجھ سے کہا: تم پہلے دو رکعت نماز پڑھنا، تو ہمیں بتائیں کہ سب سے پہلے کون سا عمل کیا جاۓ؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ مسجدِ حرام کیلئے تحیۃ المسجد کعبہ شریف کا سات مرتبہ طواف کرنا ہے؛ مگر جب مسلمان کو فرض نماز، یا سنتِ مؤکدہ، یا فرض نماز کی جماعت کے چھوٹ جانے کا اندیشہ ہو خواہ اس کا وقت ابھی کافی ہو، یا اس کی فرض نماز قضا ہو گئی ہو، تو وہ ان سب  کو پہلے ادا کرے اور پھر طواف کرے۔

تفصیل:

اسلام میں مساجد کا مقام ومرتبہ

اللہ تعالیٰ نے اسلامی شریعت میں مساجد کو ایک اعلیٰ مقام اور عظیم مرتبہ عطا کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کی تعظیم اور شرف کیلئے ان نسبت اپنی طرف کی ہے اور ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {اور مسجدیں اللہ کے لیے ہیں پس تم اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو} [الجن:18]۔

اور چونکہ مسجد کو یہ مقام حاصل ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ مسجد میں داخل ہوتے ہی دو رکعت نماز پڑھا کریں، ابو قتادہ سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھے۔" اسے شیخین نے روایت کیا ہے۔

مسجد حرام میں داخل ہونے پر تحیۃ المسجد اور اس بارے میں فقہاء کے اقوال

چونکہ مسجد حرام کی ایک خاص فضیلت ہے، اس لیے اس میں داخل ہونے والوں کے لیے سنت ہے کہ پہلے طواف کریں کیونکہ طواف ہی مسجد حرام کا سلام یعنی تحیۃ المسجد ہے، الا یہ کہ اسے فرض نماز، جماعت یا سنتِ مؤکدہ کے چھوٹ جانے کا اندیشہ ہو۔

اسی پر فقہاء کی نصوص ہیں:

امام کمال ابن ہمام رحمہ اللہ نے فتح القدیر (2/448، ط. دارالفکر) میں کہا ہے: [انہوں نے کہا: مسجد میں داخل ہونے والا سب سے پہلی عمل جو ادا کرے گا وہ طواف ہے نماز نہیں خواہ وہ محرم ہو یا محرم نہ ہو ، سواۓ اس صورت کے کہ وہ اس وقت داخل ہوا ہو کہ لوگ طواف کرنے سے رک گئے ہوں یا اس پر کوئی فرض نماز کی قضا باقی ہو، یا فرض نماز، وتر، یا سنتِ مؤکدہ کے چھوٹ جانے کا ڈر ہو، یا فرض نماز کی جماعت چھوٹ جانے کا اندیشہ ہو، اگر ایسی کوئی صورتِ حال ہو تو پہلے وہ ان تمام چیزوں کو ادا کرے اور پھر طواف کرے] ھ۔

امام حصکفی حنفی رحمہ اللہ نے "الدر المختار" (ص: 160، ط۔ دار الکتب العلمیہ) میں کہا ہے: [(اور جب کوئی مکہ میں داخل ہو تو سب سے پہلے مسجدِ حرام میں جاۓ.. (پھر) سب سے پہلا عمل طواف کرے۔ کیونکہ یہ بیت اللہ کا سلام ہے جب تک کہ اس کو فرض نماز، اس کی جماعت، نماز وتر یا سنتِ مؤکدہ کے چھوٹ جانے کا اندیشہ نہ ہو۔

اور امام حطاب مالکی رحمہ اللہ نے "مواہب الجلیل" (2/69، ط. دار الفکر) میں کہا ہے: [(اور مسجدِ مکہ کیلئے تحیۃ المسجد طواف ہے) کا مطلب ہے: جو شخص مکہ کی مسجد یعنی المسجد الحرام میں داخل ہو اس کے حق میں تحیۃ المسجد طواف ہے] آہ۔

اور امام نووی شافعی رحمہ اللہ نے "المجموع" (8/11،ط۔ دارالفکر) میں کہا ہے: [ہمارے اصحاب نے کہا: ہر داخل ہونے والے کے لیے پہلے طواف کرنا مستحب ہے؛ خواہ وہ حالتِ احرام میں ہو یا  اس حالت میں نہ ہو ، مگر یہ کہ اسے فرض نماز، یا سنتِ مؤکدہ ، یا فرض نماز کی جماعت کے چھوٹ جانے کا اندیشہ ہو خواہ اس کا وقت کافی ہو، یا اس پر فرض نماز کی قضا باقی ہو تو ان تمام چیزوں کو پہلے ادا کرے اور پھر طواف کرے۔

اور امام ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ نے "المغنی" (3/338، ط. مکتبہ القاہرہ) میں کہا ہے: [طواف مسجد حرام کا سلام ہے، اس لیے طواف سے ابتدا کرنا مستحب ہے، جیسا کہ دوسری مساجد میں داخل ہونے والوں کیلئے مستحب ہے کہ  دو رکعت نماز پڑھیں] آہ۔

اس پر دلیل کہ طواف مسجدِ حرام کیلئے تحیۃ المسجد ہے

اس کی دلیل یہ ہے کہ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا، تو ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے مجھے بتایا:  مکہ آکر آپ نے جو کام سب سے پہلے کیا ، یہ تھا کہ آپ نے وضوفرمایا اور پھر بیت اللہ کاطواف کیا پھر عمرہ نہ کیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدحضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی حج کیا ، انھوں نے بھی ، سب سے پہلے جو کیا ، یہی تھا کہ بیت اللہ کا طواف کیا پھر عمرہ نہ کیا ، پھرحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ایسا ہی کیا ۔ پھرحضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حج کیا ۔ میں نےانھیں دیکھا ، انھوں نے بھی سب سے پہلا کام جس سے آغاز کیا ، بیت اللہ کاطواف تھا پھر عمرہ نہ کیا ۔ پھرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورعبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( نے بھی ایسا ہی کیا ) پھر میں نے اپنے والد زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ حج کیا ، انھوں نے بھی سب سے پہلے جس سے آغاز کیا بیت اللہ کاطواف تھا پھر عمرہ نہ کیا ، پھر میں نے مہاجرین وانصار ( کی جماعت ) کو بھی ایسا ہی کرتے دیکھا ۔ (انہوں نے بھی) پھر عمرہ نہ کیا ۔ پھر سب سے آخر میں جسے میں نے یہ کرتے دیکھا وہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ۔ انہوں نے بھی عمرے کے ذریعے سے اپنے حج کو فسخ نہیں کیا ، اور یہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کے پاس موجود ہیں ۔ یہ انھی سے کیوں نہیں پوچھ لیتے؟اور نہ گزرے ہوئے لوگوں ( صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین ) میں سے کسی نے ( یہ کام ) کیا ۔ وہ ( صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین ) جب بھی بیت اللہ میں قدم رکھتے تو طواف سے پہلے اور کسی چیز سے ابتداء نہ کرتے تھے ( طوا ف کرنے کے بعد ) احرام نہیں کھولتے تھے ۔ میں نے اپنی والدہ اور خالہ کو بھی دیکھا ، وہ جب بھی مکہ آتیں طواف سے پہلے کسی اور کام سے آغاز نہ کرتیں ، اس کا طواف کرتیں ، پھر احرام نہ کھولتیں ( حتیٰ کہ حج پورا کرلیتیں ) اسے امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔

امام بدر عینی رحمۃ اللہ علیہ نے "عمدۃ القاری" (9/284،ط۔ دار احیاء التراث العربی) میں فرمایا: [مطلب: وہ مسجدِ حرام میں تحیۃ المسجد کی نماز نہیں پڑھتے تھے اور نہ ہی طواف کے علاوہ کسی عمل میں مشغول ہوتے تھے۔ ]آہ۔

خلاصہ:

اس بنا پر: جو شخص مسجد حرام میں داخل ہو وہ سب سے پہلا کام یہ کرے کہ  کعبہ شریف کا سات مرتبہ طواف کرے۔ کیونکہ یہی مسجد حرام کا سلام ہے یعنی طواف ہی تحیۃ المسجد ہے،  مگر جب تک اسے فرض نماز، یا سنتِ مؤکدہ چھوٹ جانے کا اندایشہ ہو، یا، یا فرض نماز کی جماعت کے چھوٹ جانے کا ڈر ہو خواہ اس کا وقت وسیع ہو، یا اگراس پر کوئی قضا نماز باقی ہو تو ان تمام چیزوں کو طواف سے پہلے ادا کرے اور پھر طواف کرے۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas