ظلم وستم کا احساس

Egypt's Dar Al-Ifta

ظلم وستم کا احساس

Question

ظلم وستم کے احساس اور عذاب الٰہی کی فکر نے انتہا پسند تحریکوں کے خیالات کو کیسے متاثر کیا؟

Answer

شدت پسند کے ہاں نفسیاتی ہم آہنگی کی کیفیت پیدا کرنے کے لیے ظلم وستم کا احساس ایک ضروری علامت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انتہا پسند کے طرز عمل اور خیالات کو ارد گرد کے ماحول سےبہت مذمت اور سخت ناپسندیدگی ملتی ہے اور یہ منفی جذبات اس کے قریبی سماجی حلقوں مثلا خاندان تک پہنچ جاتے ہیں۔ انتہا پسند اپنے آپ اور اپنے رویے کے لیے عوامی نفرت کی کیفیت کا جواز تلاش کرنے کے لیے وہ اس عقیدے کا سہارا لیتا ہے کہ وہ مظلوم ہے۔ اور یہ کہ یہ کیفیت پیدا ہو جانا سنت ہے کیونکہ وہ اپنے دین پر تھامے ہوۓ ہے۔ اپنے دین پر قائم رہنے والا " کوئلوں کو پکڑنے والے کی مانند ہوتا ہے " اور چونکہ وہ دین کا پابند ہے، اس لیے اس کا جاہلی معاشرہ اس سے دشمنی رکھتا ہے اور جب بھی اسے موقع ملتا ہے اس پر ظلم وستم ڈھاتا ہے۔

اسی لئے انتہا پسند کو ہمیشہ اپنے منہج کے درست ہونے اور دوسروں کے اختیار کردہ منہج کے غلط ہونے کے لیے براہین الٰہیہ کی ضرورت ہوتی ہے، خواہ ان دوسرے لوگوں کا بھی یہی دین ہو یا اس کے خلاف کوئی اور دین ہو۔ اس لیے انتہا پسند لوگ عذاب الٰہی کے تصور کو اپنے  مناہج اور افکار کی سچائی کی بہترین برہان سمجھتے ہیں، مثال کے طور پر، داعش نے چین میں اور پھر کچھ یورپی ممالک جیسے اٹلی اور اسپین میں کورونا وائرس پھیلنے کے آغاز میں ایک بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ یہ وبا اللہ تعالی کی طرف سے "صلیبی جنگجو قوموں کے لیے ایک دردناک عذاب ہے۔"اور یہ بیان یقیناً  اس وبا کے پوری دنیا میں اور تمام اسلامی ممالک میں پھیلنے  سے پہلے کا ہے۔

Share this:

Related Fatwas