حج میں افراد، قِران اور تمتع کا معنی
Question
حج میں افراد، قِران اور تمتع کا کیا معنی ہے ان میں سے کونسا حج افضل ہے؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ ، وبعد
حج میں افراد، قِران اور تمتع کا معنی
مناسکِ حج ادا کرنے کے تین طریقے ہیں: افراد، قران اور تمتع
افراد بعض علماء -جیسے شافعیہ- کے نزدیک یہ ہے کہ حج کو عمرہ پر مقدم کرنا، وہ اس طرح کہ انسان میقات سے حج کا احرام باندھے اور اسے مکمل کرے، پھر مکہ مکرمہ سے نکل کر قریب ترین حلت کے مقام سے عمرے کا احرام باندھے اور عمرے کے تمام اعمال ادا کرے۔کچھ علماء حجِ افراد کے بعد عمرہ کی شرط نہیں لگاتے اور فرماتے ہیں کہ عمرہ کے بغیر صرف حج کے اعمال ادا کرنا افراد ہے۔
جہاں تک قِران کا تعلق ہے: اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان حج اور عمرہ دونوں کا احرام ایک ساتھ باندھنے کی نیت کرے یا صرف عمرہ کا احرام باندھے اور پھر عمرہ کے اعمال ادا کرنے سے پہلے اس پر حج داخل کرے، پھر دونوں صورتوں میں حج کے اعمال انجام دے، تو اس طرح دونوں حاصل ہو جائیں گے ۔
جہاں تک تمتع کا تعلق ہے تو اس کا مطلب ہے کہ عمرہ کو حج پر مقدم کرے اور دونوں کے درمیان میں احرام کھول دے ۔ اس طریقے کو تمتّع کہا جاتا ہے کیونکہ ایسا کرنے والا دونوں عبادتوں کے درمیان احرام کی ممنوع چیزوں سے مستفید ہوتا ہے۔
عمرہ کو حج پر داخل کرنے کا حکم
عمرہ کو حج پر داخل کرنا جائز نہیں کہ وہ حج کا احرام باندھے اور پھر اس پر عمرہ داخل کرے کیونکہ ایسا کرنے سے وہ کسی چیز سے مستفید نہیں ہوگا۔ اس کے برعکس قِران میں جب وہ حج کو عمرہ پر داخل کرتا ہے تو اسی احرام کے ساتھ وقوفِ عرفات، رمی اور رات گزارنے سے مستفید ہوتا ہے۔
حجِ افراد ادا کرنے والے پر دم واجب ہونے کا حکم
حجِ افراد ادا کرنے والے پر دم واجب نہیں ہے بلکہ اگر وہ چاہے تو نفلاً ذبح کرے اور اگر چاہے تو نہ کرے۔ لیکن حجِ تمتع کرنے والے پر دم واجب ہے۔ اس کے واجب ہونے کی وجہ اپنے ملک کے میقات سے حج کا احرام ترک کرنا ہے۔ حجِ تمتع کرنے والا مکہ مکرمہ سے حج کا احرام باندھتا ہے اور اگر وہ حجِ افراد کرتا تو اپنے ملک کے میقات سے حج کا احرام باندھتا۔
حجِ تمتع کی ہدی واجب ہونے کیلئے شرائط :
حجِ تمتع کی ہدی کے واجب ہونے کے لیے شرط ہے کہ حاجی حرم شریف کے شہریوں میں سے نہ ہو، اور یہ وہ لوگ ہیں جن کے گھر حرم شریف سے دو مراحل ۔ یعنی تقریباً 84 کلومیٹر- کے اندر ہیں۔ مفتی بہ قول کے مطابق ہدی واجب کے ثبوت کیلئے یہ بھی شرط ہے کہ وہ حج کے مہینوں میں عمرہ کا احرام باندھے اور اسی سال حج بھی کرے اور جس میقات سے اس نے عمرہ کا احرام باندھا ہو حج کا احرام باندھنے کیلئے اس کی طرف نہ لوٹے یا نہ کسی دوسرے میقات سے نہ احرام باندھے چاہے یہ میقات مکہ سے عمرہ کے احرام والے میقات سے زیادہ قریب ہو، یا اتنا ہی فاصلہ ہو۔ اور اگر وہ واپس آ جاۓ اور اس میقات سے حج کا احرام باندھے تو اس پر دم واجب نہیں ہو گا۔ اس لیے کہ جو چیز وجوبِ دم کی متقاضی ہے وہ میقات کی طرف نہ لوٹنے کا منافع ہے اور جب وہ لوٹ آیا تو یہ منافع زائل ہو گیا تو دم بھی واجب نہیں ہو گا، کیونکہ مقصود یہ ہے کہ یہ مسافت حالتِ احرام میں طے کی جاۓ۔ اسی طرح حجِ قِران ادا کرنے والے پر بھی ہدی واجب ہوتی ہے اس کا سبب یہ ہے اگر اس نے حجِ افراد ادا کیا ہے تو عمرے کا احرام اس کے میقات سے ترک کر دیا ہے۔ پس حجِ قِران کرنے والا ایک میقات سے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھتا ہے۔
تینوں میں سے افضل طریقہ
جہاں تک ان میں سے افضلیت کا تعلق ہے تو اس مسئلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے: مالکیوں اور شافعیوں کے نزدیک حجِ افراد افضل ہے، لیکن مالکیوں کا کہنا ہے کہ افراد کے بعد فضیلت میں قِران ہے، پھر تمتع ہے، جب کہ شافعیہ کا خیال ہے کہ اس کے بعد تمتع، پھر قرآن ہے، اور احناف کے نزدیک تینوں میں سب سے افضل قِران ہے، پھر تمتع، پھر افراد، اور حنابلہ کے نزدیک سب سے افضل تمتع پھر افراد اور پھر قِران۔ ایسے مسائل جن میں علماء کے درمیان اختلاف ہو آپ کسی فقیہ کا بھی قول لے سکتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں مشورہ یہ ہے کہ جو آپ کے لیے آسان ہو اس پر عمل کریں۔ کیونکہ حج ایک مشکل عبادت ہے اور جائز امور میں آپ جتنی زیادہ آسانی پیدا کریں گے اتنی ہی زیادہ اپنی جسمانی اور نفسیاتی قوت کو اپنی استطاعت کے مطابق بہتر طریقے سے حج ادا کرنے کے لیے بچائیں گے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.