مصنوعی بارآوری کے بعد عورت کے لیے غ...

Egypt's Dar Al-Ifta

مصنوعی بارآوری کے بعد عورت کے لیے غسل کا حکم

Question

مصنوعی بارآوری کے عمل کے بعد غسل کا کیا حکم ہے؟ ایک ڈاکٹر پوچھ رہی ہیں: آج میں نے کسی عورت کیلئے مصنوعی بارآوری کا عمل کیا ہے، جس میں شوہر کا مادہ منویہ تیار کر کے زوجہ کے رحم میں رکھا جاتا جاتا ہے، اور اس نے مجھ سے پوچھا: کیا مادہ منویہ رکھنے کے بعد اس عورت پر غسل کرنا لازم ہے جیسے جنابت میں غسل کیا جاتا ہے؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛

مصنوعی بارآوری سے مراد:

مصنوعی بارآوری: یہ ایک طبی عمل ہے جس کا مقصد طبعی طریقے کے بغیر بیوی کو شوہر کے مادہ منویہ کے ساتھ بارآور یعنی حاملہ کرنا ہے۔ اس کے دو طریقے ہیں: ایک یہ کہ بیضہ کو جسم سے باہر فرٹیلائز کر کے دوبارہ عورت کے رحم میں ڈال دیا جاتا ہے، جسے بیرونی بارآوری کہا جاتا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ شوہر کا مادہ منویہ لیبارٹری میں مخصوص طریقے سے تیار کر کے براہ راست عورت کے رحم میں داخل کیا جاتا ہے، تاکہ اندرونی طور پر بیضہ کی بارآوری ہو سکے، اور اسے اندرونی بارآوری کہا جاتا ہے۔ اور ان دونوں صورتوں میں مرد اور عورت کے درمیان جسمانی ملاپ نہیں ہوتا، بلکہ مادہ منویہ  مخصوص طبی آلات کے ذریعے داخل کی جاتی ہے۔ ملاحظہ کریں: "أطفال الأنابيب بين العلم والشريعة" از ڈاکٹر زیاد احمد سلامہ اور ڈاکٹر عبدالعزیز الخياط (ص: 77-79، طبع الدار العربية للعلوم)۔

اور مصنوعی بارآوری اپنی اس تفصیل کے مطابق استدخال (داخل کرنے) کی ایک جدید شکل ہے جس کا ذکر فقہاء نے پہلے کیا ہے، اور اس سے ان کی مراد یہ عورت کا اپنے رحم میں مادہ منویہ  کو داخل تھی۔

اور مصنوعی بارآوری اس طرح سے ایک جدید شکل ہے جسے فقہاء نے پہلے بھی بیان کیا ہے، اور ان کا مقصد عورت کے رحم میں مادہ منویہ کا داخل کرنا ہے۔ اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ آیا مادہ منویہ کو لبارٹری کے کسی ظرف میں علاج کے لیے رکھ کر اسے پراسس کیا جائے، جیسا کہ موجودہ دور کی بارآوری میں ہوتا ہے، یا عورت اسے براہِ راست داخل کرے جیسا کہ قدیم طریقوں میں ہوتا تھا۔

مصنوعی بارآوری کے بعد غسل کے وجوب کے بارے میں فقہاء کے اقوال:

حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی فقہاءِ عظام کی نصوص کے مطابق اگر بغیر دخول ہوۓ عورت مادہ منویہ کو اپنی اندام نہانی میں داخل کر لے ہے یا مادہ منویہ داخل ہو جاۓ تو اس پر غسل لازم نہیں؛ کیونکہ غسل کے وجوب کی صورت یا تو دخول ہونا اور ختنوں کا ملنا ہے چاہے انزال نہ بھی ہو، یا پھر شہوت کے ساتھ انزال ہونا ہے چاہے دخول نہ ہو۔ حنفی فقہاء نے اس میں ایک استثناء رکھا ہے وہ یہ کہ اگر حمل ہو جاۓ تو اس عورت پر غسل فرض ہے، ان کا کہنا ہے کہ حمل کا ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ عورت کو نزول ہوا ہے، لہذا احناف علماءِ کرام کے نزدیک اس صورت میں نزول کی وجہ سے غسل لازم ہوا ہے، نہ کہ محض مادہ منویہ داخل کرنے کی وجہ سے۔

علامہ ابن مازہ حنفی نے 'المحيط البرهاني' (1/ 83، ط۔ دار الكتب العلمية) میں فرمایا: امام محمد رحمہ اللہ نے فرماتے ہیں: اگر کنواری لڑکی کے ساتھ بغیر دخول کے مباشرت کی جائے ، اور مرد کا مادہ منویہ اس کی اندام نہانی میں داخل ہو جائے، تو اس پر غسل واجب نہیں ہے؛ کیونکہ غسل صرف ختنوں کے ملنے یا انزال ہونے سے واجب ہوتا ہے، اور ان میں سے کوئی صورت اس عورت میں موجود نہیں۔ تاہم، اگر وہ حاملہ ہو جائے تو اس پر غسل واجب ہوگا کیونکہ اس کا انزال ہونا متصور ہوگا۔

علامہ ابن نجیم حنفی نے 'البحر الرائق' (1/ 60، ط۔ دار الكتاب الاسلامی) میں فرمایا: [اگر عورت یا کنواری لڑکی کے ساتھ بغیر دخول کے مباشرت کی جائے اور مادہ منویہ اس کی اندام نہانی میں داخل ہو جائے تو اس پر غسل لازم نہیں، سوائے اس کے کہ حمل ظاہر ہو جاے؛ کیونکہ وہ صرف اس صورت میں حاملہ ہو سکتی ہے جب اس کا انزال ہو، اور اگر اس نے جماع کے بعد غسل نہیں کیا تھا تو جتینی نمازیں اس دوران پرھی تھیں وہ اسے دوبارہ پڑھنی ہوں گی؛ کیونکہ یہ واضح ہو گیا کہ اس نے بغیر طہارت کے نمازیں پڑھی ہیں]

"المدونة" میں امام مالک کی روایت امام سحنون بن سعید التنخی نے ابن القاسم سے نقل کی ہے (1/135، طبع دار الكتب العلمية): [ابن القاسم نے کہا: ... اور میں نے امام مالک سے پوچھا کہ اگر مرد اپنی بیوی سے بغیر دخول کے مباشرت کرے اور مرد کا انزال اندام نہانی سے باہر ہو اور پھر یہ مادہ منویہ عورت کی اندام نہانی کے اندر پہنچ جائے، تو کیا اس عورت پر غسل واجب ہوگا؟ امام مالک نے فرمایا: نہیں، جب تک کہ اسے لذت محسوس نہ ہو، یعنی اس کا انزال نہ ہوا ہو۔]

امام نووی شافعی نے "روضۃ الطالبین" (1/85، طبع المكتب الإسلامي) میں فرمایا: "اگر عورت نے اپنے اگلے یا پچھلے مقام میں مادہ منویہ  داخل کیا تو ہمارے مذہب کے مطابق اس پر غسل واجب نہیں ہوتا۔" اسی طرح، علامہ مرداوی الحنبلی نے "الإنصاف" (1/232، طبع دار إحياء التراث) میں فرمایا: "اگر مباشرت بغیر دخول کے ہوئی اور مادہ منویہ  اندام نہانی میں داخل ہوا پھر نکل گیا، تو صحیح مذہب کے مطابق عورت پر غسل لازم نہیں ہو گا۔

حنفیہ نے -بغیر دخول کیے عورت کا مادہ منویہ کو داخل کرنے یا ہونے کی صورت میں- غسل کو حمل کے ساتھ مشروط کیا ہے، اس بنیاد پر کہ انہوں نے غالب امکان یہ سمجھا کہ عورت کو انزال ہوا ہو گا تبہی تو حمل ٹھہرا ہے، یہ ان کا غالب امکان تھا یقینی اور ضروری نہیں، اور جدید طب نے ثابت کیا ہے کہ حمل کے وقوع اور عورت کے انزال کے درمیان کوئی لازمی تعلق نہیں ہے؛ لہذا، سائنسی اعتبار سے حمل ٹھہرنے کیلئے عورت کا انزال ہونا شرط نہیں۔ یہ بات ماہرینِ طب نے بیان کی ہے، اور شرعی نصوص نے بھی اس کی تائید کی ہے کہ حمل کا وجود مرد کے مادہ منویہ سے ہی ہوتا ہے جب وہ عورت کے بیضے کے ساتھ متحد ہوتا ہے، نہ کہ عورت کے پانی اور انزال سے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:'' کیا انسان گمان کرتا ہے کہ اسے بغیر پوچھے ہی چھوڑ دیا جائے گا؟ کیا وہ منی کا ایک قطرہ نہیں تھا جو گرایا جاتا ہے۔'') القيامة: 36-37)

امام طبری نے "جامع البيان" (23/527، طبع دار هجر) میں  اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنَى﴾... کی تفسیر میں فرمایا: " ’نطفہ‘ سے مراد وہ تھوڑا سا مادہ منویہ  ہے جو مرد کی صلب میں ہوتا ہے۔"

حاصلِ کلام یہ ہے کہ مصنوعی بارآوری کے عمل میں عورت کا انزال متصور نہیں ہوتا، چاہے حمل ہو یا نہ ہو؛ کیونکہ یہ ایک طبی عمل ہے جو مکمل بیہوشی میں یا جسم کے خاص حصے کو سُن کر کے کیا جاتا ہے، اور اس عمل کے دوران عورت اس پراسس کو محسوس نہیں کرتی، لہذا اس میں انزال کی متوقع لذت حاصل نہیں ہوتی۔

اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ چاروں فقہی مذاہب کی رو سے مصنوعی بارآوری کے عمل کے بعد عورت پر غسل فرض نہیں۔

خلاصہ:

لہذا، سوال کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مصنوعی بارآوری کے عمل کے بعد اس عورت پر غسل فرض نہیں ہے۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas