اس دعوے کا رد کہ قرآنِ مجید نے معراج کا اس طرح ذکر نہیں کیا جیسے اسراء کا ذکر کیا ہے
Question
ہماری گزارش ہے کہ شکوک پیدا کرنے والوں کی اس بات کا جواب دیں کہ قرآنِ مجید نے معراج کا اس طرح ذکر نہیں کیا جیسے اسراء کا ذکر سورۃ الاسراء کے آغاز میں کیا گیا ہے۔
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾ ترجمہ: وہ پاک ہے جس نے راتوں رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک سیر کرائی جس کے اردگرد ہم نے برکت رکھی ہے تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں، بے شک وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔ (سورۃ الاسراء: 1)
اسراء اس واقعه کا عنوان ہے جو اس واقعہ کے آغاز سے لے کر اختتام تک کا احاطہ کرتا ہے، اور معراج اس واقعه کا تسلسل یا تکمیل ہے۔ یعنی آیت میں اس واقعے کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے، جب کہ اس کی تفصیل احادیث نبویہ میں وضاحت سے ملتی ہے۔
جب اسراء اور معراج میں سے صرف ایک سفر کا ذکر کیا جائے، تو یہ دوسرے سفر پر بھی دلالت کرتا ہے کیونکہ دونوں باہم مربوط ہیں اور ان کا ذکر عموماً ایک ساتھ ہوتا ہے، امام بیجوری اپنی کتاب "حاشیہ على جوہرة التوحید" (ص: 233، ط. دار السلام) میں علامہ ناظم کے قول کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ناظم نے 'معراج' کا ذکر کیا، حالانکہ انہیں 'اسراء' کا بھی ذکر کرنا چاہیے تھا، مگر انہوں نے معراج کے ذکر سے اسراء کو شامل کر لیا ہے، کیونکہ ان دونوں ناموں—اسراء اور معراج—کا ذکر عام طور پر ایک ہی مفہوم پر دلالت کرتا ہے، یعنی نبی کریم ﷺ کا رات کے وقت مخصوص مقامات کی طرف ایسا سفر جو غیر معمولی اور عادت کے خلاف ہو۔ یہ ایک ایسا جامع تصور ہے جو دونوں مدلولوں کو شامل ہے۔
اس بنیاد پر، جب صرف اسراء کا ذکر کیا جاتا ہے، جیسا کہ سورۃ الاسراء کے آغاز میں ہے، یا جب معراج کا ذکر منفرد طور پر کیا جاتا ہے، جیسا کہ ناظم کے اشعار میں ہے، تو یہ دونوں سفروں کو شامل ہوتا ہے۔ اس لیے اسراء اور معراج پر مشتمل سفر کو اسراء کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔
اسی طرح امام ابو الحسن اشعری نے اپنی کتاب "رسالہ الى أهل الثغر" (ص: 291، ط. مكتبة العلوم والحكم) میں فرمایا: [وعلى أن الإيمان بما جاء من خبر الإسراء بالنبي إلى السماوات واجب] اور یہ کہ نبی ﷺ کے آسمانوں تک اسراء والی خبر پر ایمان لانا واجب ہے۔
یہاں امام اشعری نے واقعہ کو لفظِ اسراء سے تعبیر کیا ہے اور اس کے بعد کہا 'آسمانوں تک' ، حالانکہ آسمان تک سفر اسراء کا نہیں تھا بلکہ معراج کا تھا۔ لہٰذا، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ لفظ "اسراء" دونوں سفروں—ارضی اور آسمانی—کو دونوں شامل ہے۔
اسی طرح امام بخاری نے اپنی "جامع صحیح" میں حدیثِ معراج کے باب کا عنوان یوں بیان کیا: "باب کیفیة فرض الصلاة في الإسراء" (اسراء میں نماز کیسے فرض ہوئی) حالانکہ نماز معراج میں فرض کی گئی تھی، نہ کہ اسراء میں۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اہل علم کے درمیان اس لفظ کا اس طرح استعمال کرنا معروف تھا۔ اسی طرح اسلام اور ایمان کے درمیان ہے اور یہ بھی ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے رہتے ہیں۔
اس وضاحت سے سوال کا جواب بھی سمجھ میں آ جاتا ہے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.