"کوست پلس" نظام کی کسی صورت میں معا...

Egypt's Dar Al-Ifta

"کوست پلس" نظام کی کسی صورت میں معاہدہ کرنا

Question

ایک شخص جو انجینئر کے طور پر تعمیرات اور تزیینات کے شعبے میں متعدد گاہکوں کے پاس کام کرتا ہے، اور اس کے کاروبار کی ایک صورت یہ ہے کہ وہ مالکِ مکان کے ساتھ کبھی اس بات پر اتفاق کر لیتا ہے کہ مزدوری کی قیمت "کوست پلس" کے نظام کے تحت طے کی جائے گی۔ اس میں مزدوری کو خام میٹیریل  کی قیمت سے ایک مخصوص فیصد کی بنیاد پر طے کیا جاتا ہے، جو عموماً 15٪ سے کم نہیں ہوتی۔ یاد رہے کہ مالکِ مکان معاہدے کے دوران خام میٹیریل  کی نوعیت اور قیمت خود منتخب کرتا ہے، جیسا کہ وہ بیچنے والے مقامات پر قیمتیں متعین ہوتی ہیں۔ پھر مالک خود خام میٹیریل  خرید کر لاتا ہے، یا خریداری کے وقت انجینئر کو اپنے ساتھ لے جاتا ہے، یا انجینئر کو مکمل طور پر خریداری کا اختیار دے دیتا ہے۔ اس صورتِ حال میں اس معاہدے کا شرعی حکم کیا ہوگا؟ براہ کرم اس کی وضاحت فرمائیں، اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرماۓ۔

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ نظام "کوست پلس" یا لاگت کے ساتھ منافع کا اضافہ ایک معاہدہ کی ایک ایسی قسم ہے جو عموماً تعمیراتی منصوبوں اور تکمیل کے کاموں کی نگرانی کی خدمات میں سامنے آتی ہے۔ ماہرین کے مطابق، اس کی مختلف صورتیں ہیں اور سب میں یہ بات مشترک ہے کہ (گاہک یا مالک) خریداری کی مکمل قیمت برداشت کرتا ہے جو کہ متعلقہ رسیدوں میں درج ہوتی ہے۔ پھر اس پر انجینئر یا ٹھیکیدار کا منافع مختلف طریقوں سے شامل کیا جاتا ہے، جن میں سے بعض یہ ہیں: لاگت کے ساتھ ایک مخصوص رقم کا اضافہ کیا جاتا ہے، یا لاگت کے ساتھ صرف رسیدوں پر کوئی تناسب اور پرسنٹیج دیا جاتا ہے، یا لاگت اور رسیدوں پر ایک تناسب سے رقم دی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کام کو کم وقت میں مکمل کرنے کی ترغیب کے لیے کچھ رقم کا اضافہ کیا جاتا ہے۔

اور سوال سے متعلقہ صورت میں مالکِ مکان تزییناتی انجینئر کے ساتھ اس بات پر اتفاق کرتا ہے کہ مزدوری اس خام میٹیریل  کی قیمت کا 15% دی جائے گی، جس کی نوعیت، خصوصیات اور معیار پر اتفاق ہو چکا ہے اور اس کی قیمت بھی معاہدے کے وقت معلوم ہوتی ہے۔ اس صورت میں یہ معاہدہ "اجارہ" کے تحت آتا ہے، کیونکہ انجینئر ایک طے شدہ اجرت کے بدلے کام کرتا ہے جو وہ گاہک سے لیتا ہے۔ یہ معاہدہ اسلامی فقہ میں اجارہ کی طبیعت کے موافق ہے، کیونکہ اجارہ فقہ اسلامی میں ایک ایسا معاہدہ ہے جس کسی مقصود، معلوم، قابلِ استعمال اور حلال منفعت کے لیے کسی معین معاوضے پر اتفاق کیا جاتا ہے، جیسا کہ امام خطيب شربینی شافعی نے "مغنی المحتاج" (3/ 438) میں بیان کیا ہے۔

اور اس صورت میں انجینئر ایک "مشترك اجیر " ہوتا ہے؛ کیونکہ اس کا کام اور سرگرمیاں صرف اسی گاہک تک محدود نہیں ہوتیں، بلکہ وہ ایک ہی وقت میں دیگر گاہکوں کے لئے بھی کام قبول کرتا ہے، پس وہ سب اس کی منفعت اور اس کے مستحق ہونے میں شریک ہوتے ہیں۔ برعکس "اجیر خاص" کے ، جو صرف ایک شخص کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے اور اسی کے لیے کام کرتا ہے، اور کسی دوسرے سے کام نہیں لے سکتا۔ جیسے امام ابن عابدین الحنفی نے "رد المحتار" (6/ 64)، امام ابن رشد مالکی نے "بداية المجتهد" (4/ 17)، امام عمرانی شافعی نے "البيان" (7/ 385-386)، اور امام ابن قدامہ حنبلی نے "المغني" (5/ 388) میں بیان کیا ہے۔

اور اجارہ کی اس قسم کے جواز پر فقہاء کی نصوص ہیں، جو فریقین کے لیے باعثِ منفعت ہو، بشرطیکہ کام کی نوعیت متعین ہو اور اجرت بھی واضح طور پر معلوم ہو، تاکہ کسی قسم کا ابہام اور تنازع نہ رہے۔ شرعاً یہ بات مسلم ہے کہ اجرت میں بھی وہی شرائط ہیں جو بیع کی ثمن یعنی قیمت کے لیے ضروری ہوتی ہیں، یعنی اجرت کا مال پاک ہو، فائدہ مند ہو، اس کا ادا کیا جانا ممکن ہو اور متعین اور معلوم ہو۔ امام مرغینانی حنفی نے "بداية المبتدي" (ص: 186) میں فرمایا: [اجارہ ایک ایسا معاہدہ ہے جس میں منافع کے بدلے کوئی عوض متعین کیا جاتا ہے، اور یہ اس وقت تک صحیح نہیں ہوتا جب تک منافع اور اجرت دونوں معلوم نہ ہوں، اور جو چیز بیع میں قیمت کے طور پر جائز ہوتی ہے، وہ اجارہ میں اجرت کے طور پر بھی جائز ہے]۔

اور امام دردیر مالکی نے "الشرح الصغير" (4/ 8-9) میں اجارہ کے ارکان کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: [(اور) تیسرا رکن: اجرت ہے، یعنی وہ بیع کی طرح طاہر ہو، اس سے فائدہ اٹھایا جانا ممکن ہو، اسے سپرد کرنا ممکن ہو، اور یہ ذاتی طور متعین اور اس کا ادھار ہونا یا نقد ہونا بھی معلوم ہو ۔ اور چوتھا: منفعت ہے، یعنی وہ فائدہ جس پر معاہدہ کیا گیا ہو... اس کی قیمت ہونی چاہیے اور وہ خاص ملکیت میں ہو... معلوم اور متعین ہو، تاکہ اس میں کوئی ابہام نہ رہے، اور مدت کے اعتبار سے بھی واضح ہو... مستاجر کو حوالگی کے قابل ہو، تاکہ مفرور غلام، آوارہ جانور یا غصب شدہ چیز کی منفعت سے بچا جا سکے] ۔

اور امام ابن حجر هيتمي شافعی نے "تحفة المحتاج" (6/ 127) میں فرمایا: [اور اجارہ کی صحت کے لیے یہ شرط ہے کہ اجرت کی جنس، مقدار، یا صفت معلوم ہو، اگر وہ ذمہ میں ہو]۔

اور امام زرکشی حنبلی نے "شرح مختصر الخرقی" (4/ 221) میں فرمایا: [(اور جہاں تک اجرت کا تعلق ہے): اس کی یہ بھی شرط ہے کہ بیع میں قیمت کی طرح وہ متعین اورمعلوم ہو]۔

اور اجرت کو خام میٹیریل  کی قیمت سے فیصدی تناسب کے طور پر متعین کرنا – جیسا کہ سوال میں مذکور ہے – اجرت کے متعین ہونے کے منافی نہیں ہے، کیونکہ اجرت خام میٹیریل  کی قیمت پر طے شدہ اور متفقہ فیصدی تناسب کے ذریعے واضح طور پر معلوم اور متعین ہوتی ہے، اور خام میٹیریل  کی نوع اور قیمت معاہدے کے وقت خود گاہک (مالک) منتخب کرتا ہے، اور اس کے اس انتخاب کے ساتھ ہی تعمیرات یا تزئینات کی ہر شق اور بند میں انجینئر کی اجرت متعین ہو جاتی ہے ۔ چونکہ خام میٹیریل  کی قیمت پر 15% کی شرح پر اتفاق کیا گیا ہے اس لیے جب گاہک کسی خاص قسم اور قیمت کے میٹیریل کا انتخاب کرتا ہے تو انجینئر اس قیمت کا 15% لینے کا حقدار بن جاتا ہے، یوں اجرت کے بارے میں مکمل وضاحت ہو جاتی ہے اور ابہام ختم ہو جاتا ہے۔

اور اس بنا پر، واقعۂ سوال میں: "کوست پلس" کے نظام کے تحت معاملہ کرنا شرعاً جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ امانتداری کا خیال رکھا جائے، خام میٹیریل کی قیمت میں کسی قسم کا جھوٹ یا چالاکی نہ کی جائے، اور مالی معاملات کے لیے مقررہ قوانین اور ضوابط کی خلاف ورزی نہ کی جائے ۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas