معجزۂ اسراء ومعراج اور اس کے
Question
کیا نبی کریم ﷺ کے اسراء کا شمار معجزات میں ہوتا ہے؟ اور کیا یہ روح اور جسم دونوں کو ہوا تھا یا صرف روح کو؟ اور کیا معراج مسلمانوں کے قطعی عقائد میں سے ہے؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛
نبی کریم ﷺ کو اسراء اور معراج کی فضیلت سے نوازا جانا
ہر سال ماہِ رجب کی آمد کے ساتھ، دنیا بھر کے مسلمان نبی کریم ﷺ کے معجزات میں سے ایک عظیم معجزے "سفرِ اسراء و معراج" کو یاد کرتے ہیں۔ یہ سفر نبی کریم ﷺ کے لیے اللہ جل جلالہ کا ایک خاص انعام، عزت افزائی، اور دل جوئی اور اللہ کے ہاں نبی کریم ﷺ کی عظمت اور مقام ومرتبے کا بیان تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ مبارک سفر اس لئے کروایا تاکہ اپنے محبوب ﷺ کو بڑی نشانیوں کا مشاہدہ کروائے، جیسا کہ قرآنِ پاک میں ارشاد ہوا: ﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾ ترجمہ: پاک ہے وہ جس نے اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی، جس کے ارد گرد ہم نے برکت رکھی، تاکہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔ [الإسراء: 1]
اسراء کےمفہوم کا بیان
لغت میں "اسراء" کا لفظ"سرى" اور "أسرى" دونوں فعلوں سے آتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ﴾ ﴾ ترجمہ: پاک ہے وہ جس نے اپنے بندے کو رات کے وقت سیر کررائی۔ [الإسراء: 1] اور فرمایا: ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا يَسْرِ﴾ ترجمہ: اور رات کی قسم جب وہ گزر جائے [الفجر: 4]
پس قرآن کریم میں دونوں الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ امام ابو عبید نے اپنے اصحاب کے حوالے سے کہا ہے: "میں نے رات میں سیر کی (سَرَيْتُ) اور (أَسْرَيْتُ)"، یعنی دونوں الفاظ مستعمل ہیں۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیں: "لسان العرب" لابن منظور، جلد 14، صفحہ 382، دار صادر)۔
"السُّرَى" ، "الهُدَى" کے وزن پر ہے، یعنی: رات کو سفر کرنا، اور ﴿أَسْرَى بِعَبْدِهِ﴾ تاکید ہے یا اس کا معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو سیر کرائی۔
اس کا مطلب نبی کریم ﷺ کو مکہ مکرمہ میں واقع مسجد حرام سے شام میں بیت المقدس تک رات کو سیر کرانا ہے۔
سفر اسراء کا رات میں ہونا
چونکہ اسراء رات کے وقت ہی ہوتا ہے، اس لیے علماء نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارشادِ گرامی میں ﴿لَيْلًا﴾ کا لفظ تاکید کا فائدہ دے رہا ہے یا تبعیض (رات کے کچھ حصے) کا۔ پس امام رازی اپنی تفسیر (جلد 20، صفحہ 292، دار احیاء التراث العربی) میں فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے ﴿لَيْلًا﴾ کے لفظ کو نکرہ (غیر معین) ذکر کیا تاکہ اسراء کے وقت کی قلت کو ظاہر کرے، کہ نبی کریم ﷺ کو رات کے کچھ حصے میں مکہ سے شام تک لے جایا گیا جس کا سفر عام طور پر چالیس راتوں کا ہوتا تھا؛ کیونکہ نکرہ کا استعمال یہاں بعضیت (رات کا کچھ حصہ) کے معنی پر دلالت کر رہا ہے۔"
امام طاہر بن عاشور اپنی تفسیر "التحریر والتنویر" (جلد 15، صفحہ 11، الدار التونسية للنشر) میں فرماتے ہیں: چونکہ ''سُرَى'' خاص طور پر رات کے سفر کو کہتے ہیں، اس باوجود آیت میں ﴿لَيْلًا﴾ کا لفظ بھی ذکر کیا تاکہ اس بات کی طرف اشارہ ہو جاۓ کہ نبی کریم ﷺ کو مسجد اقصیٰ تک رات کے ایک جزو میں لے جایا گیا، ورنہ اس کا ذکر صرف تاکید کے لیے ہوگا، جبکہ نئی معلومات دینا تکرار سے بہتر ہوتا ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ یہ ایک غیر معمولی اور معجزاتی سفر تھا، کیونکہ معمول کے مطابق اتنی طویل مسافت کو اتنے قلیل وقت میں طے نہیں کیا جا سکتا۔ مزید برآں ''لیلاً'' کو نکرہ (غیر معین) ذکر کرنے سے عظمت کو ظاہر کرنا مقصود ہے۔
معراج کےمفہوم کا بیان
"معراج" اور "معرج" کا مطلب ہے سیڑھی یا وہ ذریعہ جس کے ذریعے اوپر چڑھا جائے۔ یہ "عرج" سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے بلند ہونا یا چڑھنا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا: ﴿تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ﴾ [المعارج: 4] یعنی فرشتے اور روح (حضرت جبرائیلؑ) اللہ کی طرف چڑھتے ہیں۔تفصیل کے لیے ملاحظہ کریں: لسان العرب" لابن منظور (جلد 2، صفحہ 321-322)، القاموس المحيط" للفيروزآبادی (جلد 1، صفحہ 198)۔
معراج سے مراد نبی کریم ﷺ کا بیت المقدس، یعنی مسجد اقصیٰ سے آسمانوں کی طرف بلند ہونا ہے۔ یہ عروج سدرۃ المنتہیٰ تک ہوا، اور وہاں تک جہاں آپ ﷺ نے قلموں کے سرسراہٹ سنی۔
اسراء ومعراج نبی کریم ﷺ کے عظیم معجزات میں سے ہیں
اسراء اور معراج دو مقدس سفر ہیں:
- پہلا سفر مسجد حرام (مکہ مکرمہ) سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) تک ہوا۔
- دوسرا سفر مسجد اقصیٰ سے سدرۃ المنتہیٰ تک کا عروج تھا۔
یہ دونوں سفر نبی کریم ﷺ کے عظیم معجزات میں سے ہیں۔معجزہ ایک ایسا عمل ہوتا ہے جو عام عادت سے ہٹ کر ہو، رسالت یا نبوت کے دعوے سے جڑا ہو، اسے ایک چیلنج کے ساتھ پیش کیا جائے، کہ کوئی اس کی مثل پیش نہ کر سکے۔ یہ معجزہ نبی کریم ﷺ کی سچائی اور صداقت کی واضح حجت اور دلیل ہے۔
اور معجزہ اپنی دلالت میں نبی کی صداقت پر ایسے ہی ہے جیسے کہ اگر اللہ تعالیٰ خود اپنے کلام کو سمعی طور پر سنوا دیتے اور فرماتے: ''صَدَقَ عَبْدِي فِيمَا يُبَلِّغُ عَنِّي" یعنی:’’میرے بندے نے جو کچھ میری طرف سے پہنچایا ہے، وہ بالکل سچ ہے۔‘‘
معجزات عقل کے لحاظ سے محال نہیں ہوتے، بلکہ یہ عادت سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد محمد ابو شہبہ نے اپنی کتاب "الإسراء والمعراج" (صفحہ 13) میں فرمایا: کائناتی قوانین کے معروف اصولوں کی مخالفت جب تک اس کی ناممکنیت پر کوئی دلیل قائم نہ ہو، چاہے عادت کے خلاف ہو، عقلی طور پر ممکنات کے دائرے میں شامل ہے، اللہ تعالیٰ نے اسباب کو مسببات سے مربوط کیا ہے، اور کائنات کو ایک قانون کے تحت پیدا کیا ہے جس کی معرفت تک ہم پہنچ سکتے ہیں۔ تو اللہ کے لیے محال نہیں کہ وہ کچھ ایسے خاص قوانین مرتب کرے جو خوارق عادات امور سے متعلق ہوں، جنہیں صرف وہی جانتا ہو، ہمیں ان کا علم نہ ہو، لیکن ہم ان کا اثر اس ذات گرامی کے دستِ اقدس پر دیکھیں جسے اللہ نے اپنے فضل اور رحمت سے منتخب کیا ہے۔
اسراء ومعراج کا سفر ایک ربانی سفر اور نبی کریم ﷺ کا ایک عظیم معجزہ ہے جسے انسانوں کی محدود پیمائشوں اور قوانینِ زمان و مکاں پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سفر صرف اللہ تعالی کی طاقت سے ممکن ہوا وہ چاہتا تھا کہ یہ واقعہ رونما ہو، اور وہ اللہ تعالیٰ جل جلالہ خالقِ کائنات ہے۔اگر ہم یہ ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قادر ومختار ہے اور زمین وآسمان کی ہر چیز پر اس کا تسلط ہے، تو اس بات ایمان لانا ہمارے لیے آسان ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو چاہے، جس طرح چاہے، تخلیق کر سکتا ہے۔
قولِ مختار کے مطابق معجزۂ اسراء ومعراج کا وقت وقوع
مشہور قول کے مطابق معجزۂ اسراء ومعراج کا وقوع ماہ رجب میں ہوا تھا۔ اس سفر کے وقت کے تعین میں اختلاف ہے، لیکن سب سے زیادہ مقبول رائے یہ ہے کہ یہ واقعہ ستائیسویں رجب کی رات میں پیش آیا۔ یہ قول بہت سے آئمہ کرام نے ذکر کیا ہے اور بعض محققین نے بھی اسے ہی اخیار کیا ہے۔ اسی تاریخ پر قدیم اور جدید دونوں ادوار میں مسلمانوں کا عمل رہا ہے۔ علامہ زرقانی نے اپنی کتاب "شرح المواهب اللدنیہ" (جلد 2، صفحہ 71، دار الكتب العلمیة) میں صاحبِ "المواهب" کے قول ''کہا جاتا ہے کہ یہ رات ستائیسویں رجب کی رات تھی۔" پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: اور اسی پر لوگوں کا عمل ہے۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ قول سب سے مضبوط ہے؛ کیونکہ جب کسی مسئلے میں سلف کے اقوال میں اختلاف ہو، اور اس پر کوئی واضح دلیل نہ ہو جس سے کسی ایک رائے کو ترجیح دی جا سکے، اور کسی ایک رائے پر عمل کیا جا رہا ہو، اور اسے قبولیت حاصل ہو، تو اس کے راجح ہونے کا امکان غالب ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے حافظ عبدالغنی بن عبد الواحد بن علی بن سرور المقدسی الحنبلی نے اس رائے کو اختیار کیا، جو عابد وزاہد ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے زمانے کے حدیث اور حفظ میں امام تھے۔
واقعۂ اسراء اور معراج کے ثبوت پر دلائل
اسراء ومعراج کے وقوع کا ثبوت قرآن اور حدیثِ رسول اللہ ﷺ سے ہے۔ اس حدیث کو پنتالیس صحابہ کرام نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے، جس کے نتیجے میں یہ واقعہ اتنی بڑی تعداد میں تواتر کے ساتھ نقل ہوا ہے اور اس قدر مشہور اور مستند ہے کہ اس کے بعد کسی منکر یا غلط تاویل کرنے والے کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ ابن اسحاق نے کہاہے: میرے پاس اسراء کے بارے میں عبد اللہ بن مسعود، ابو سعید خدری، ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، امیر معاویہ بن ابو سفیان، حسن بن ابو الحسن بصری، ابن شہاب زہری، قتادہ اور دیگر بہت سے علماء سے، سیدہ ام ہانی بنت ابو طالب سے جو روایات مجھ تک پہنچی ہیں ان میں ہر ایک راوی نے اس واقعے کے کچھ پہلو بیان کیے ہیں جو اس وقت پیش آئے جب نبی اکرم ﷺ کو اسراء کرایا گیا۔ نبی ﷺ کا سفرِ اسراء آزمائش اور امتحان کا مظہر تھا، اور اس میں اللہ عز وجل کے حکم اور قدرت وسلطنت کے عجائبات تھے۔ اس میں اہل عقل کے لیے عبرت تھی، اور ان لوگوں کے لیے ہدایت رحمت اور ثابت قدمی جو صدقِ دل سے اللہ کے ہر حکم پر ایمان اور یقین رکھتے تھے ، پس اللہ نے نبی ﷺ کو جیسے چاہی سیر کرائی، تاکہ آپ ﷺ کو اپنی نشانیاں دکھائے جو وہ چاہتے تھے، یہاں تک کہ انہوں نے اللہ کے امر اور عظیم سلطنت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، اور اس کی اس قدرت کا بھی مشاہدہ کیا جس کے ساتھ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ ابن ہشام اپنی کتاب "السيرة النبوية" (جلد 1، صفحات 396-397، ط. مصطفی الحلبي)۔
قرآن سے اسراء ومعراج کے وقوع کا ثبوت
اسراء ومعراج کے وقوع کا واضح ثبوت قرآن مجید کی ان آیات میں ہے:
﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾ ترجمہ: پاک ہے وہ جس نے اپنے بندے کو رات کے مختصر وقت میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی، جس کے ارد گرد ہم نے برکت رکھی ہے تاکہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک وہ ہے سننے والا، دیکھنے والا۔ [الإسراء: 1]
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَى وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَى ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى أَفَتُمَارُونَهُ عَلَى مَا يَرَى وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَى إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَى مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَى﴾ترجمہ: ستارے کی قسم ہے جب وہ ڈوبنے لگے۔ تمہارا رفیق نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا ہے۔ اور نہ وہ اپنی خواہش سے کچھ کہتا ہے۔ یہ تو وحی ہے جو اس پر آتی ہے۔ بڑے طاقتور نے اسے سکھایا ہے جو بڑا زور آور ہے پس وہ قائم ہوا ۔ اور وہ (آسمان کے) اونچے کنارے پر تھا۔ پھر نزدیک ہوا پھر اور بھی قریب ہوا۔ پھر فاصلہ دو کمانوں کے برابر تھا یا اس سے بھی کم۔ پھر اس نے وحی کی جو وحی کی۔ دل (اقدس) نے جھٹلایا نہیں جو کچھ اس نے دیکھا ۔ کیا تم اس میں جھگڑتے ہو جو کچھ اس نے دیکھا ۔اور اس نے اسے ایک بار اور بھی دیکھا ہے۔سدرۃ المنتہٰی کے پاس۔جس کے پاس جنت الماوٰی ہے۔جب سدرۃ پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا (یعنی نور)۔ نہ تو نظر جھپکی نہ حد سے بڑھی۔بے شک اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔ [النجم: 1-18]
سیدنا ابن مسعود اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جسے دیکھا گیا وہ جبرائیل علیہ السلام تھے، جنہیں نبی ﷺ نے دو مرتبہ ان کی اصل صورت وخلقت میں دیکھا، پہلی بار جب آپ ﷺ غار حرا سے اتر رہے تھے، اور دوسری بار شب معراج میں۔ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں (جلد 7، صفحہ 444، ط. دار طیبہ) ذکر کیا: سیدنا عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جبرائیل علیہ السلام کو ان کی اصل صورت میں صرف دو مرتبہ دیکھا، پہلی مرتبہ جب آپ ﷺ نے ان سے کہا کہ آپ ﷺ انہیں ان کی اصل صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں، تو ان کا منظر پورے افق میں پھیل گیا۔ دوسری مرتبہ اس وقت جب نبی ﷺ ان کے ساتھ آسمانوں پر گئے، تو اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وهو بالأفق الأعلى﴾یعنی: اور وہ (آسمان کے) اونچے کنارے پر تھا۔
شیخ عبد اللہ مراغی نے اپنی کتاب "أفضل منهاج في إثبات الإسراء والمعراج" (صفحہ 45، ط. مطبعة السنة المحمدية) میں فرمایا: جو لوگ معراج کو قرآن مجید سے ثابت مانتے ہیں وہ سورتِ نجم کی آیات سے استدلال کرتے ہیں اور ان میں موجود ضمائر کو -دورانِ عروج- نبی ﷺ کی طرف لوٹاتے ہیں... اسی طرح انہوں نے سورۃ الانشقاق کی اس آیت سے بھی استدلال کیا: ﴿لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ﴾ ترجمہ: تمہیں ضرور ایک منزل سے دوسری منزل پر چڑھنا ہوگا۔ [الانشقاق: 19] یہ آیت بھی مکی ہے، اور اس کے أفعال صیغۂ مضارع میں آۓ ہیں، شروع میں لام قسم آئی ہے، جو معراج کے وقوع سے پہلے اس کی بشارت دیتی ہے۔ اور یہ بشارت اللہ کی جانب سے ہے، جو اپنے وعدے کو کبھی نہیں توڑتا، اور اس کے کلمات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ اس لیے اس کا مفہوم یقینی طور پر حقیقت بن کر سامنے آنا تھا۔ اور ﴿لَتَرْكَبَنَّ﴾ کو باء کے ساتھ فتح کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ"اے محمد ﷺ! آپ ایک آسمان کے بعد دوسرا آسمان کی طرف بلند ہوگے۔"
ابن عباس اور ابن مسعود رضی اللہ عنہما بھی اسی کے قائل ہیں، اور "طبق" کی جمع "طباق" ہے، جس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو سات طبقات میں پیدا کیا ہے، جو ایک دوسرے کے اوپر ہیں۔ اور ''رکوب'' کا معنی ہے ان آسمانوں پر چڑھنا اور ان میں عروج کرنا۔
احادیثِ مبارکہ سے اسراء و معراج کے وقوع کا ثبوت
معراج صحیح احادیث سے بھی ثابت ہے جو ثقہ راویوں سے منقول ہیں اور تواتر سے آئی ہیں اور امت نے انہیں قبول کیا ہے۔ کئی علماء نے ان کے تواتر کی تصریح کی ہے۔ دیکھیے: "نظم المتناثر" للكتاني (ص: 209، ط. دار الكتب السلفية)۔ اور حدیث اور سیرت نبوی کی کتابوں نے ان دونوں سفروں کی تمام جزئیات کو محفوظ کیا گیا ہے، بلکہ ان میں جو کچھ بھی واقعات پیش آۓ ہیں انہیں مکمل طور پر ذکر کیا ہے، اور کوئی بھی بات نہیں چھوڑی ۔
صحیحین میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں مکہ میں تھا کہ میرے گھر کی چھت کھولی گئی، پھر جبرائیل علیہ السلام اترے اور انھوں نے میرا سینہ چاک کیا ۔ پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا ۔ پھر ایک سونے کا طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا ۔ اس کو میرے سینے میں رکھ دیا ، پھر سینے کو جوڑ دیا ، پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان کی طرف لے کر چلے، جب میں پہلے آسمان پر پہنچا تو جبرائیل علیہ السلام نے آسمان کے داروغہ سے کہا کھولو ۔ اس نے پوچھا ، آپ کون ہیں ؟ جواب دیا کہ جبرائیل ، پھر انھوں نے پوچھا کیا آپ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے ؟ جواب دیا ، ہاں میرے ساتھ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں ۔۔۔ الی آخر الحدیث۔
دارقطنی نے کہا: یہ ممکن ہے کہ تمام اقوال صحیح ہوں کیونکہ ان کے راوی قابل اعتماد ہیں۔ انہوں نے مزید کہا: "اور یہ ممکن ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہو اور حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ اور حضرت مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ سے اس کی تصدیق کرائی ہو، ابو حاتم رازی نے کہا: مجھے امید ہے کہ زہری اور قتادہ کا حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی قول صحیح ہوگا۔ اور ایک مرتبہ کہا: زہری کا قول زیادہ صحیح ہے، اور میں کسی اور کو اس سے بہتر نہیں سمجھتا۔ ("فتح الباری" ابن رجب، 2/ 311-312، ط. مکتبہ الغرباء الأثرية)
اورامام مسلم نے "صحيح مسلم" میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس براق لایا گیا۔ وہ ایک سفید رنگ کا لمبا چوپایہ ہے، گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا، اپنا سم وہاں رکھتا ہے جہاں اس کی نظر کی آخری حد ہے۔ فرمایا: میں اس پر سوار ہوا حتی کہ بیت المقدس آیا۔ فرمایا: میں نے اس کو اسی حلقے (کنڈے) سے باندھ لیاجس کے ساتھ انبیاء کرام علی نبینا وعلیہم الصلاۃ والسام اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے۔ فرمایا: پھر میں مسجد میں داخل ہوا اور اس میں دو رکعتیں پڑھیں، پھر (وہاں سے) نکلا تو جبریل صلی اللہ علیہ وسلم میرےپاس ایک برتن شراب کا اور ایک دودھ کالے آئے۔ میں نے دودھ کا انتخاب کیا۔ تو جبرئیل رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ نے فطرت کو اختیار کیا ہے، پھر وہ ہمیں لے کر آسمان کی طرف بلند ہوئے۔ جبریل رضی اللہ عنہ نے (دروازہ) کھولنے کو کہا تو پوچھا گیا: آپ کون ہیں؟ کہا: میں جبریل ہوں، پوچھا گیا کیا آپ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ کہا گیا: اور (کیا) انہیں بلوایا گیا تھا؟کہا: بلوایا گیا تھا۔ اس پر ہمارے لیے (دروازہ) کھول دیا گیا تو میں اچانک آدم رضی اللہ عنہ کے سامنے تھا، انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے خیر کی دعا کی، پھر وہ ہمیں اوپر دوسرے آسمان کی طرف لے گئے، جبرئیل رضی اللہ عنہ نے دروازہ کھلوایا تو پوچھا گیا: آپ کون ہیں؟ کہا: جبریل ہوں۔ کہا گیا: آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ کہا گیا: کیا انہیں بلوایا گیا تھا؟ کہا: بلوایا گیا تھا۔ تو ہمارے لیےدروازہ کھول دیا گیا،...الی آخر الحدیث۔
یہ ان میں سے صرف بعض احادیث ہیں جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں آئی ہیں۔
اسراء اور معراج جسم اور روح کے ساتھ بیداری میں واقع ہوئے، نہ کہ نیند میں۔
جمهور علماء سلف وخلف کا کہنا ہے کہ اسراء اور معراج ایک ہی رات میں اور جسم اور روح دونوں کے ساتھ ہوۓ تھے، کیونکہ قرآن نے اس پر صراحت کی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿بِعَبْدِهِ﴾، "عبد" کا اطلاق جسم اور روح دونوں پر ایک ساتھ ہوتا ہے، اور اسی طرح اللہ کا فرمان: ﴿لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا﴾ بھی ہے، اور دیکھنا بھی ذات کے اعضاء سے تعلق رکھتا ہے، نہ کہ روح سے۔
اس بات کی دلیل کہ اسراء اور معراج مکمل طور پر روح اور جسم کے ساتھ ہوئے تھے یہ ہے کہ اگر یہ سفر صرف روحانی ہوتا، تو قریش کا اس پر انکار کرنا بے معنی ہوتا۔ قریش نے کہا تھا: " ہم اونٹوں کی پیٹھوں پر سوار ہو کر بیت المقدس تک ایک مہینے میں پہنچتے ہیں، اور ایک مہینہ واپس آنے میں لگتا ہے، اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ راتوں رات وہاں پہنچے اور صبح ہمارے درمیان تھے"، اگر یہ صرف خواب ہوتا تو قریش اس پر اعتراض نہ کرتے اور ان کے انکار کا کوئی جواز نہ ہوتا، کیونکہ انسان خواب میں ایسی چیزیں دیکھ سکتا ہے جو حقیقت سے کہیں زیادہ غیر معمولی ہوں، اور اس پر کسی کو شک نہیں ہوتا۔
امام قرطبی نے اپنی کتاب "المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم" میں فرمایا: [جس پر اکثر سلف اور خلف علماء کرام کا اتفاق ہے، وہ یہ ہے کہ معراج اور اسرا جسمانی طور پر اور حقیقت میں، بیداری کی حالت میں ہی واقع ہوئے تھے۔ جیسا کہ قرآن کریم اور صحیح احادیث کی نصوص سے ظاہر ہے، اور قریش کا اس پر انکار اور اس کو جھٹلانا بھی اسی بات کی دلیل ہے کہ اگر یہ صرف خواب ہوتا تو وہ اس کا انکار نہ کرتے، اور نہ ہی لوگ آزمائش میں مبتلا ہوتے؛ کیونکہ انسان اکثر خواب میں عجیب و غریب حالات اور واقعات دیکھ لیتا ہے، اور خواب میں ایسا نظر آنا تو کوئی بعید چیز نہیں ہے، بلکہ بیداری میں انہیں بعید سمجھا جاتا ہے۔]
نصوص کے ظاہری سیاق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسراء اور معراج بیداری کی حالت میں ہوا تھا، اور کسی بھی ظاہر بات سے انحراف تب تک نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ اس کے خلاف کوئی واضح دلیل نہ ہو۔ اگر یہ خواب ہوتا تو اس میں نہ تو کوئی عجیب بات ہوتی، نہ ہی اس پر تعجب کی گنجائش ہوتی، اور نہ ہی اس کی تکذیب کی کوئی وجہ ہوتی۔ اور نہ ہی کمزور ایمان والے لوگ اس آزمائش کے باعث کفر اختیار کرتے ۔
اسراء ومعراج کے خواب ہونے کا گمان کرنے والوں کا رد
جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسراء اور معراج ایک خواب تھا، وہ اللہ تعالیٰ کے اس قول سے استدلال کرتے ہیں: ﴿وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِلنَّاسِ﴾ ترجمہ: اور وہ خواب جو ہم نے تمہیں دکھایا اسے ہم نے لوگوں کے لیے آزمائش بنا دیا۔ [الإسراء: 61]، اور یہ کہ "الرؤيا" خواب میں دیکھنے کے لئے ہے، جبکہ "الرؤية" آنکھ سے دیکھنے کے لئے ہے۔ لیکن اس کا رد اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ یہ عربی زبان میں ضروری نہیں ہے۔
متنبیٰ کہتا ہے: مَضى الليلُ والفضلُ الذي لكَ لا يمضي...ورؤياكَ أحلى في العَيونِ من الغُمض
گزر گئی رات، مگر تیرا فضل نہیں گزرتا...اور آنکھوں سے تیرا دیدار کرنا نیند میں کرنے سے بہت شیریں ہے۔
یعنی: "الرؤيا" آنکھ سے دیکھنے کے لئے استعمال کیا ہے
اور جیسا کہ امام بخاری نے "صحیح بخاری " میں ابن عباس سے روایت کیا ہے جو عربی زبان کے امام اور اس میں حجت سمجھے جاتے ہیں، انہوں نے فرمایا: جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسراء کی رات رؤیت کرائی گئی وہ رؤیتِ بصری تھی۔
اور سعید بن منصور نے اپنی روایت میں مزید کہا: "یہ کوئی خواب کی رؤیا نہیں تھی"، یہ حدیث الطبرانی نے اپنے "المعجم الكبير" میں نقل کی ہے۔ پس ابن عباس کا قول ایک قطعی لغوی حجت ہے، اور پھر اس میں نقلی حجت کا امکان بھی ہے؛ کیونکہ حضرت ابن عباس سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات اور معاملات سے سب سے زیادہ واقف تھے۔ بعض مفسرین نے اس آیت کو واقعۂ اسراء کی بجاۓ سورة الفتح کی اس آیت کی طرف معطوف کیا: ﴿لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِنْ دُونِ ذَلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا﴾ ترجمہ: بے شک اللہ نے اپنے رسول کا خواب سچا کر دکھایا، کہ اگر اللہ نے چاہا تو تم امن کے ساتھ مسجد حرام میں ضرور داخل ہو گے اپنے سر منڈاتے ہوئے اور بال کتراتے ہوئے بے خوف و خطر ہو گے، پس جس بات کو تم نہ جانتے تھے اس نے اسے جان لیا تھا پس اس نے اس سے پہلے ایک نزدیک کی فتح تمہیں میسر کی ۔[الفتح: 27]۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سفر معراج کے بارے میں منسوب حدیث کی صحت کا بیان۔
ابن اسحاق نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضي اللہ عنہا سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا: "اس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم مبارک میرے پاس سے غائب نہیں ہوا۔ دیکھیے: "الدر المنثور" ج5، ص227، طبع دار الفکر، بیروت۔ یہ باطل اثر ہے جو ثابت ہی نہیں ہے۔ امام جمال الدین قرطبی نے اپنی کتاب "الجواب عن المسائل المستغربة من کتاب البخاری" (ص157، طبع وقف السلام الخیری) میں کہا: بعض لوگوں کا ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضي اللہ عنہا کی طرف سے یہ روایت کرنا "میں نے اس رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم کو غائب نہیں پایا" صریح جھوٹ ہے، کیونکہ اسراء کے وقت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کے ہاں تھیں ہی نہیں، بلکہ آپ رضی اللہ عنہا کو تو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کئی سالوں کے بعد مدینہ منورہ میں اپنے کاشانۂ اقدس میں لاۓ تھے۔ اور اگر یہ خواب ہوتا تو بھی اس میں دین یا شریعت کے حوالے سے کوئی نقص نہیں ہوتا، کیونکہ انبیاء کرام علیہم السلام کے خواب وحیِ صحیح وحی ہوتی ہے۔
معراج میں نبی کریم ﷺ کے جاگتے ہونے کی قرآنِ مجید سے کی دلیل۔
جہاں تک واقعۂ معراج کا تعلق ہے تو روح اور جسم دونوں کے ساتھ معراج ہونے کی قرآن کریم سے دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى﴾ دل (اقدس) نے جھٹلایا نہیں جو کچھ اس نے دیکھا [النجم: 11]، اور ﴿مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى﴾ نہ تو نظر جھپکی نہ حد سے بڑھی [النجم: 17]۔
امام طحاوی فرماتے ہیں: معراج برحق ہے، اور نبی کریم ﷺ کو جسمِ مبارک اور روحِ اقدس کے ساتھ آسمانوں تک لے جایا گیا، پھر وہاں تک جہاں تک اللہ تعالیٰ نے چاہا، اور اللہ نے انہیں اپنی خاص عنایات سے نوازا اور اور وحی کی جو بھی وحی کی اور دلِ اقدس نے جھٹلایا نہیں جو کچھ آپ ﷺ نے دیکھا۔ پس اللہ تعالیٰ ان پر دنیا اور آخرت میں رحمت فرماۓ اهـ۔ "العقیدہ الطحاویہ بشرح البابرتی" (ص: 79، ط. وزارت الأوقاف الكويتية)۔
اسراء ومعراج کی رات پیش آنے والے واقعات کا خلاصہ
اسراء ومعراج کی رات پیش آنے والے واقعات کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رات کے وقت مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک سفر کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت جبریل علیہ السلام یا ممکنہ طور پر حضرت میکائیل علیہ السلام بھی تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے براق پر سوار ہو کر سفر کیا، جو اپنی نظر کے کنارے پر قدم رکھتا تھا۔ پس آپ ﷺ نے مدینہ منورہ کی سمت سفر شروع کیا، پھر مدین کی طرف، پھر طورِ سینا پہنچے، جہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا تھا، اس کے بعد بیت لحم جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی تھی، اور پھر آخر میں بیت المقدس پہنچے۔ بعض ضعیف روایات میں یہ ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان میں سے ہر ایک مقام پر اترے اور حضرت جبریل علیہ السلام کے کہنے پر وہاں نماز ادا کی۔ اس دوران اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مختلف حکمتوں اور حقیقتوں کا مشاہدہ کرایا، جو ظاہری دنیا میں واقع ہونے والے معاملاتِ خلق کا انجامِ کار تھیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت جبریل علیہ السلام سے مختلف مقامات کے بارے میں سوال کرتے، اور حضرت جبریل علیہ السلام جواب دیتے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت المقدس پہنچے، تو اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیےعالمِ قدس سے تمام انبیاء ومرسلین اور فرشتوں کا عظیم اجتماع کیا۔ پھر قامتِ نماز کہی گئی اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سب کو امام کی حیثیت سے نماز پڑھائی۔ بعض اقوال میں یہ ذکر ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آسمان سے واپس لائے تب آپ ﷺ نے ان سب کو نماز پڑھائی۔
جہاں تک معراج کا تعلق ہے، تو اس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سات آسمانوں کی جانب بلند ہوئے اور انہیں ایک ایک کر کے عبور فرمایا، یہاں تک کہ ساتویں آسمان تک پہنچ گئے، اور ہر آسمان پر آپ کا ایک یا دو جلیل القدر انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ پہلے آسمان پر آپ ﷺ نے حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات کی، دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام سے ملاقات کی، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام سے، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام سے، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام سے، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اور ساتویں آسمان پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات کی۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سدرة المنتهی کے مقام پر پہنچے اور اس سے بھی آگے اس مقام تک جہاں آپ ﷺ نے فرشتوں کی قلموں کے سرکنے کی آواز سنی، جو اللہ کی ہدایت کے مطابق مخلوق کی وہ تقدیریں لکھ رہی تھیں جنہیں ملائکہ کو نافذ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، فرشتے یہ تقدیرات اللہ کی وحی سے یا لوحِ محفوظ سے نقل کرتے ہیں، جو تمام مخلوقات کی تقدیر کا اصل ماخذ ہے، اور یہ وہ پروگرام ہے جو اللہ نے پوری کائنات کی تخلیق کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرضیتِ نماز کے بارے میں بات کی، اور ابتدائی طور پر نماز کی تعداد پچاس رکعات تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مشورہ دیا کہ آپ ﷺ اللہ کی بارگاہ میں تخفیف کی درخواست کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت موسی علیہ الصلاۃ والسلام اور اللہ کے درمیان بار بار آتے جاتے رہے اور اللہ تعالی ہر بار پانچ نمازیں کم کر دیتے، یہاں تک کہ پانچ نمازیں رہ گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کے حکم کو قبول کیا اور اس پر تسلیم ورضا کا اظہار کیا۔
سفرِ اسراء ومعراج کے بارے میں پیدا کیے گئے شبہات کا رد
سفرِ اسراء ومعراج اپنی عظمت اور انوکھاے پن کی وجہ سے، اور عجیب ترین نشانیوں میں سے ایک ہونے کی وجہ سے لوگوں کے ایمان کے لئے ایک آزمائش اور امتحان بن گیا تھا۔ کچھ لوگ ثابت قدم رہے، تصدیق کی اور ایمان لائے، جبکہ کچھ نے انکار کیا اور مخالفت کی۔
اور جو اعتراضات اس معجزہ پر شک کرنے والوں نے وارد کئے ہیں، ان میں سے کچھ یہ ہیں:
اس شبہہ کا رد کہ حدیث کی بچاۓ ہمیں صرف قرآن ہی کافی ہے
ان کا دعویٰ ہے کہ قرآن ہی ایک آیت اور نشانی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت پر دلالت کرتی ہے، اور ہمیں دوسری نشانیوں کی ضرورت نہیں، خصوصًا ان احادیث کی جو زیادہ تر اخبار آحاد ہیں، کیونکہ وہ قطیعت کا فائدہ نہیں دیتیں۔
ہم کہیں گے: جو بات اخبار کے تواتر یا عدم تواتر سے متعلق ہے، وہ یہ ہے کہ ہر علمی مسئلہ اور معرفت کا ہر پہلو تواتر کے ساتھ ثابت نہیں ہوتا، اگر یہ لازم ہوتا تو ہمارے پاس موجود معارف میں سے صرف چند چیزیں ہی ثابت ہو پاتیں۔ بلکہ اگر ہم اس اصول کو ان علوم پر لاگو کریں جن کا دار ومدار نقل پر ہوتا ہے، جیسے تاریخ، احادیث، اور آداب، تو ان میں سے بھی بہت کم چیزیں ثابت ہو سکیں گی۔
مسلمانوں نے روایات کی سند کے ساتھ توثیق کے سلسلے میں جس قدر جدو جہد کی ہے اس کی نظیر دیگر اقوام میں نہیں ملتی۔ روایت کی صحت کے جو سخت شرائط مقرر کیے گئے، جیسے: سند کا متصل ہونا، عادل اور ضابط راویوں کا سند کے آخر تک عادل اور ضابط راویوں سے نقل کرنا،حافظے کی ، بیداری و ہوشیاری اور عدمِ غفلت کی شرط، اور شذوذ وعلت سے خالی ہونے کی شرط وغیرہ— یہ تمام شرائط ایسی مضبوط ضمانتیں فراہم کرتی ہیں جو سچائی اور درستگی کو جھوٹ اور غلطی پر غالب کرنے میں فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہیں، اور ضبط وحفظ کو غفلت اور نسیان پر ترجیح دیتی ہیں۔
پھر اگر ان منکرین کا انکار اس بنیاد پر ہے کہ وہ عقل کو فیصلہ کن معیار سمجھتے ہیں تو وہ درحقیقت حکمت سے محروم ہیں۔ کیونکہ عقل کی عبادت ایمان بالغیب میں ہے، اور غیب میں کئی ایسی چیزیں شامل ہو سکتی ہیں جو عام عادت کے مخالف ہوں لیکن عقل کے دائرے میں ممکن ہوتی ہیں۔ پس اہلِ ایمان کے ہاں عقل کا کام غیبی امور کو رد کرنا نہیں، بلکہ ان کی تصدیق کرنا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ ترجمہ: یہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں، یہ متقیوں کے لیے ہدایت ہے۔ وہ جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں، اور جو ہم نے انہیں رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ اور جو لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں اس پر جو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل کیا گیا ہے اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا، اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے رب کی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔ [البقرہ: 2-5]۔
اس دعوے کا رد کہ قرآن نے معراج کا ذکر نہیں کیا جیسے اسراء کا ذکر کیا۔
شبہات میں سے ایک یہ ان کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ قرآن نے واقعہ معراج کا ذکر اس طرح نہیں کیا جیسے سورۂ بنی اسرائیل کے آغاز میں اسراء کا ذکر کیا ہے۔
ہم کہتے ہیں: کہ اسراء اس واقعہ کا عنوان ہے جو اس کی ابتدا سے لے کر اس کے اختتام تک کو بیان کرتا ہے، اور معراج اس کا تسلسل اور تکمیل ہے، بس فرق یہ ہے کہ آیت میں ی ہواقعہ مختصر ذکر کیا گیا ہے جس کی تفصیل حدیث نبوی میں بیان کی گئی ہے۔
اور جب دونوں میں سے کسی ایک سفر کا ذکر کر دیا گیا تو یہ دوسرے سفر پر بھی دلالت کرتا ہے؛ کیونکہ ان دونوں آپس میں مربوط ہیں اور دونوں کا ذکر عموماً ساتھ ہی کیا جاتا ہے۔ امام بیجوری نے اپنی شرح "حاشیہ على جوہرہ التوحید" (ص: 233، ط. دار السلام) میں ناظم کے قول "واجزم بمعراج النبي كما رووا (معراج کا یقین رکھو جیسا کہ مروی ہے)" کی تشریح کرتے ہوئے کہا: [ناظم کو اسراء کا بھی ذکر کرنا چاہیے تھا،]لیکن اسراء کا ذکر کر کے معراج کے ذکر سے مستغنی ہو گئے؛ کیونکہ عام طور پر دونوں میں سے کسی ایک نام کا استعمال دوسرے کا مفہوم بھی شامل کر لیتا ہے، یعنی رات کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مخصوص مقامات کی طرف ایسے طریقے سے سفر کرنا جو معمول سے ہٹ کر تھا۔ ۔ یہ ایک کلی امر ہے جو دونوں کے مدلولوں کو شامل ہے۔
اس بنیاد پر: اگر صرف اَسراء کا ذکر ہو، جیسے کہ سورہ الإسراء کی ابتدائی آیات میں، یا صرف معراج کا ذکر ہو جیسے یہاں نظم کے مصرعے میں ہے، تو ان میں سے ہر ایک لفظ دونوں امور پر دلالت کرتا ہے۔ اس لیے ان دونوں سفروں پر مشتمل واقعہ کو "الإسراء" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح امام ابو الحسن الأشعری کی کتاب"رسالہ إلى أهل الثغر" میں انہوں نے فرمایا: [وعلى أن الإيمان بما جاء من خبر الإسراء بالنبي إلى السماوات واجب] ترجمہ: اور یہ کہ آسمانوں تک نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسراء کے بارے میں جو خبر آئی ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے۔ یہاں امام ابو الحسن الأشعری نے لفظ "اسراء" استعمال کیا اور پھر فرمایا " إلى السماوات یعنی آسمانوں تک"۔ حالانکہ اسراء صرف زمینی سفر کو اور معراج آسمانوں کی طرف سفر کو کہتے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ لفظ "اسراء" دونوں سفروں — زمینی اور آسمانی — کو شامل ہے
امام بخاری نے "صحيح بخاری" میں معراج کے بارے "باب كيف فرضت الصلاة في الإسراء" کے نام سے باب باندھا ہے: یعنی: باب کہ اسراء میں کیسے نماز فرض ہوئی۔ حالانکہ نماز معراج میں فرض ہوئی تھی، نہ کہ اسراء میں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اہل علم میں اس لفظ "اسراء" کو اس طرح استعمال کرنا عام تھا، جیسا کہ اسلام اور ایمان کے درمیان فرق کے باوجود ان الفاظ کا ایک دوسرے کیلئے استعمال عام کیا جاتا ہے۔
اس دعویٰ کا رد کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلموں کی سرسراہٹ سننا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ مادہ اور جسم ہیں
ان کا ایک شبہہ یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قلموں کی سرسراہٹ سنی، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مادہ اور جسم ہیں
جواب: نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلموں کی سرسراہٹ سننے کا مطلب یہ ہے کہ روحانی حس اور ادراک کا تعلق جب عالمِ روحانیت اور وہاں کے أمور سے جڑتا ہے، تو انسان ان سے ویسا ہی ادراک حاصل کرتا ہے جیسے مادی دنیا میں مادی حس کے ذریعے ادراک کرتا ہے۔
اس کی مثال یہ ہے کہ بات چیت اور زبانوں میں گفتگو صرف آوازوں کے ذریعے ہوتی ہے جو ہوا کے ذریعے پیدا ہوتی ہیں، جیسے کہ منہ میں موجود آوازوں کے نکلنے کے لیے ہونٹوں اور زبان کا استعمال ہوتا ہے۔ تاہم، جب انسان سو رہا ہوتا ہے، وہ خواب میں گفتگو کرتا ہے، بحث مباحثہ کرتا ہے اور اپنے مخاطب کی بات سنتا ہے۔ وہ اس مکالمے میں ایک فاعل بھی ہوتا ہے اور منفعل بھی، یعنی وہ خود گفتگو کرتا ہے اور دوسروں کی گفتگو سنتا بھی ہے اور خواب میں اس کا معاملہ حالتِ بیداری جیسا ہی ہوتا ہے، کوئی فرق نہیں ہوتا، حالانکہ خواب میں ہونے والا کلام روحانی ہوتا ہے جسے نہ ہوا کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی اس میں ہونٹ یا زبان کا عمل دخل ہوتا ہے، لیکن سویا ہوا شخص اس کلام کا اسی طرح ادراک کرتا ہے جیسے وہ مادی کلام کا ادراک کرتا ہے جو ہونٹوں اور زبان سے نکلتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس کے قریب بیٹھے ہوئے بیدار شخص کو بھی یہ آواز سنائی دیتی۔
اس شبہہ کا رد کہ معراج کے اثبات میں اللہ تعالیٰ کے حق سے جہت کا اثبات لازم آتا ہے
ایک شبہ یہ ہے کہ معراج کے اثبات سے اللہ تعالیٰ کے حق میں جہت کے اثبات لازم آتا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ مسلمان علماء کرام کا صدیوں سے اس بات پر اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ کسی زمانے میں محصور ہے نہ کسی جگہ میں محدود ہے، اور ایسی نصوص جن کا ظاہر یہ معنی دے رہا ہو، وہ بالاتفاق مؤول ہیں یعنی ان کی تأویل کی جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی طرف عروج صرف مرتبے، درجے اور مقام کے لحاظ سے ہے، نہ کہ فاصلے اور منتقلی کے اعتبار سے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ مکان، جہت، نقل و حرکت، اور مسافت کے قرب وبُعد سے منزہ ہے۔ امام ثعلبی نے "الكشف والبيان" میں (25/86) فرمایا: [اللہ کا بندے سے قریب ہونا اور بندے کا اللہ سے قریب ہونا مرتبے، درجے، مقام اور اجابتِ دعا کے لحاظ سے ہے، نہ کہ مسافت کے لحاظ سے؛ کیونکہ مسافت صرف اس کے لیے ہوتی ہے جس کا کوئی خاص مکان ہو جس میں وہ مشغول ہو، پس اس کے اور اس مکان کے درمیان مسافت ہو گی؛ کیونکہ یہ سب جسموں کی علامات اور خصوصیات ہیں، اور اللہ عزَّ شأنہ ان سب چیزوں سے بلند وبرتر ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعَانِ﴾ ترجمہ: بیشک میں قریب ہوں، دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ [البقرة: 186]، اور ﴿وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ﴾ ترجمہ: اور تم سے زیادہ ہم اس کے قریب ہوتے ہیں۔ [الواقعة: 85]؛ یعنی: اپنے علم، قدرت اور اجابتِ دعا کے لحاظ سے۔
امام قرطبی نے اپنی تفسیر (11/ 333) میں فرمایا: [ابو المعالی نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان «لَا تُفَضِّلُونِي عَلَى يُونُسَ بْنِ مَتَّى ( مجھے یونس ابن متی علیہ السلام پر فضیلت نہ دو)» کا مطلب یہ ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے ہی کہ میں جب سدرة المنتهی پر تھا تو اللہ تعالیٰ کے اتنا قریب نہیں تھا جیسا کہ یونس ابن متی (علیہ السلام) اللہ تعالی کے قریب تھے جب وہ سمندر کی تہہ میں مچھلی کے پیٹ میں تھے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی خاص جہت اور سمت میں نہیں ہے۔]
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سفرِ معراج میں اپنے رب کے قریب ہونا اور پردوں کو عبور کر کے اعلیٰ ترین منازل و درجات تک پہنچنا، یہ قرب اور عزت و کرامت کا قرب تھا، نہ کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے یا مسافت کا طے کرنے کے لحاظ سے۔
آسمان کے طبقات ہونے کا انکار کرنے والوں کا رد
بعض منکرین نے آسمانوں کے متعدد طبقات ہونے کا انکار کیا ہے، اور اس کا جواب دینے کے لیے ہم اللہ تعالیٰ کی اس آیت کو پیش کرتے ہیں: ﴿الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ﴾ جس نے سات آسمان طبقات میں(اوپر تلے) بنائے، تو رحمان کی اس صنعت میں کوئی خلل نہ دیکھے گا، تو پھر نگاہ دوڑا کیا تجھے کوئی شگاف دکھائی دیتا ہے۔ [الملک: 3]۔
انسان جس کے پاس واقع کو سمجھنے کیلئے حواس خمسہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں اور حواس خمسہ بھی حقیقت کو مکمل طور سجھنے سے قاصر ہیں، اور اس کی معرفت کا واحد ذریعہ تجربہ، مشاہدہ اور آزمائش ہے، تو پھر وہ کیسے آسمانوں کے وجود کا انکار کر سکتا ہے! اور ان کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فیصلہ کیسے کر سکتا ہے، سوائے اس کے جو خالقِ کائنات نے اپنی آیات میں آسمانوں اور زمین کی حقیقت کے بارے میں اسے بتایا ہو، اور قرآن عظیم کی محکم تصریحات اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ اس باب میں جتنا بھی علم حاصل کیا گیا ہے، وہ محض آسمانِ دنیا کا ایک حصہ ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِزِينَةٍ الْكَوَاكِبِ﴾ ہم نے آسمانِ دنیا کو ستاروں سے سجایا ہے۔ [الصافات: 6]۔
اُن لوگوں کا رد جو اسراء ومعراج میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشاہدات کا انکار کرتے ہیں
کچھ لوگ اسراء ومعراج میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشاہدات کا انکار کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ امت کو اپنے ایمان کی پختگی اور استقامت کیلئے ان مشاہدات کو جاننے کی ضرورت نہیں، اور وہ یہ حیرانی کا اظہار کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل جنت اور اہل نار کو کیسے دیکھ لیا حالانکہ قیامت تو ابھی قائم ہی نہیں ہوئی۔
اور اس کا جواب یہ ہے کہ کوئی بھی عقلمند شخص اس بات کا انکار نہیں کر سکتا کہ علمِ غیب کا حصول ایمان باللہ کو محکم کرنے میں مددگار ہوتا ہے، اور یہ بھی کہ ان مشاہدات میں بہت سی حکمتیں اور فوائد ہیں۔ جن میں سے ایک کو امام رازی نے اپنی تفسیر (20/ 297) میں ذکر کیا کہ [جنت کی نعمتیں بہت عظیم ہیں اور دوزخ کے عذاب شدید ہیں، اگر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ مشاہدے دنیا میں نہ کیے ہوتے اور قیامت کے دن ہی انہیں پہلی بار دیکھتے، تو شاید آپ ﷺ جنت کی نعمتوں کی طرف راغب ہو جاتے یا دوزخ کے عذاب سے خوفزدہ ہو جاتے، لیکن جب آپ ﷺ نے ان دونوں کو دنیا میں معراج کی رات میں دیکھ لیا، تو قیامت کے دن ان کا اثر دل پر اتنا شدید نہیں پڑے گا، اور آپ ﷺ کا دل اطہر ان میں مشغول نہیں ہوگا، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم اپنی امت کی شفاعت کے لیے فارغ ہوںگے۔]
دوسرا: یہ بھی ممکن ہے کہ نبی کریم ﷺ کی شب معراج انبیاء اور ملائکہ سے ملاقات ان کی یا آپ ﷺ کی مصلحت کی تکمیل کا سبب بنی ہو۔
تیسرا: یہ بھی بعید نہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فلک پر چڑھ کر آسمانوں، کرسی اور عرش کے احوال دیکھے، تو اس دنیا کے احوال اور اس کی مشکلات آپ ﷺ کے سامنے حقیر ہو گئیں ہوں، اور اس طرح آپ ﷺ کے دلِ اقدس میں مزید قوت پیدا ہوئی ہو، اور جب آپ ﷺ اللہ کی طرف دعوت دینے کا آغاز کریں تو نتیجتاً آپ ﷺ کا عزم پہلے سے زیادہ مضبوط ہو اور اللہ کے دشمنوں کی طرف کم توجہ ہو۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ جس نے اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مشاہدہ کیا ہو، اس کی نفس کی قوت اور دل کا ثبات، جہاد اور دیگر آزمائشوں کو برداشت کرنے میں اس شخص کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوتا ہے جس نے یہ مشاہدہ نہ کیا ہو۔
اور یاد رہے کہ قولِ باری تعالی: ﴿لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا﴾ (ترجمہ: تاکہ ہم آپ کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں) میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس سفر کا فائدہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے خاص تھا اور یہ فائدہ متعین طور پر آپ ہی کی ذاتِ اقدس کو حاصل ہوا۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ مشاہدات کیسے کیے حالانکہ قیامت ابھی نہیں آئی، یہ اس کی وضاحت یہ ہے کہ قیامت اور اس سے متعلق تمام امور، اگرچہ ہمارے لیے پوشیدہ ہیں، مگر اللہ تعالی کے علم میں ماضی اور مستقبل میں کوئی فرق نہیں۔ اس لیے زمان اور مکان کا تعلق صرف ہم مخلوق کے ساتھ ہے جو زمین پر ہیں اور حادث ہیں۔
امام نور الدين حلبي نے ["إنسان العيون" (1/ 543، ط. دار الكتب العلمية) جو کہ "السيرة الحلبية" کے نام سے معروف ہے] میں اس بات پر کہ ''نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سفرِ اسراء میں مجاہدین کی حالت کو دیکھا'' تبصرہ کیا اور فرمایا: آپ ﷺ کو ان کی حالت دار الجزاء میں مثال کے طور پر دکھائی گئی۔
ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کے لیے وقت کا حجاب اٹھا دیا ہو اور آپ کو جنت و دوزخ کے موجود حالات اور ان سے متعلقہ مناظر کا مشاہدہ کرایا ہو۔ بہرحال، یہ ایک غیبی امر ہے، مسلمان کے لیے لازم ہے اس پر ایمان لائے اور صادق وامین نبی کریم ﷺ کی دی ہوئی خبر کو بغیرعقلی مداخلت کے قبول کرے، کیونکہ عقل اس امر تک رسائی نہیں رکھتی۔
اس شبہہ کا رد کہ نمازوں میں تخفیف کے لیے نبی کریم ﷺ کا اپنے رب کی بارگاہ میں جانا اللہ تعالی کے قول میں تبدیلی کے زمرے میں آتا ہے۔
ان شبہات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں: نبی کریم ﷺ کا اپنے رب سے نمازوں کی تعداد میں تخفیف کے لیے بار بار اللہ تعالی کی بارگاہ میں جانا اللہ تعالی قول کی تبدیلی کے زمرے میں آتا ہے۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے، جبکہ ہمارے رب نے فرمایا: ﴿مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ﴾ ترجمہ: میرے ہاں قول بدلا نہیں جاتا، اور میں بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہوں۔ [ق: 29]۔ اسی طرح، اس میں ہمارے نبی محمد ﷺ پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ایک قسم کی سرپرستی کا شائبہ بھی پایا جا رہا ہے۔
پس ہم کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف رجوع کرنا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا آپ ﷺ سے یہ کہنا کہ اپنے رب سے تخفیف کی درخواست کریں، پھر نمازوں کی تعداد کا کم ہو کر پانچ رہ جانا، یہ سب کچھ فرض کے قطعی طور پر مقرر ہونے سے پہلے ہوا، اور یہ سب کچھ ازل ہی سے اللہ تعالیٰ کے علم میں لکھا ہوا تھا۔
اور اللہ تعالیٰ کا نمازوں کو عبادت میں پانچ اور اجر میں پچاس کرنا، اس کا اپنے نیک بندوں پر رحمت کا اظہار ہے۔ اور نبی کریم ﷺ کا بار بار بارگاہِ الٰہی کی طرف رجوع فرمانا آپ ﷺ کے مقام و مرتبے میں کسی قسم کی کمی کا باعث نہیں، بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی معیت کو مزید طول دینے کی خواہش کا اظہار تھا، جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی فرمایا تھا: "قَالَ هِيَ عَصَايَ أَتَوَكَّأُ عَلَيْهَا وَأَهُشُّ بِهَا عَلَى غَنَمِي وَلِيَ فِيهَا مَآرِبُ أُخْرَى" [طہ: 18] (یہ میری لاٹھی ہے، میں اس پر ٹیک لگاتا ہوں، اس سے اپنی بکریوں کے لیے پتے جھاڑتا ہوں، اور اس میں میرے کئی دوسرے فائدے بھی ہیں) ۔
اور جو کچھ نبی کریم سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سیدنا موسیٰ علیہ الصلاة والسلام کے درمیان بات چیت ہوئی، وہ صرف ایک نیک مشورہ تھا، نہ کہ سرپرستی اور نگرانی۔ امام قرطبی نے "المفہم" (1/392-393) میں فرمایا: [اور جہاں تک حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرمانے کا تعلق ہے کہ اللہ تعالی سے نمازوں کی تعداد میں تخفیف کی درخواست کریں، تو شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ امت موسیٰ علیہ السلام پر ایسی نمازیں فرض تھیں جو دوسری امتوں پر فرض نہیں تھیں، اور وہ نمازیں ان پر بھاری تھیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت پر ایسی تکلیف کا خوف تھا، اور اس کا اشارہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قول میں بھی موجود ہے: «فَإِنِّي قَدْ بَلَوْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ قَبْلَكَ»ترجمہ: یقیناً میں نے بنی اسرائیل کو آپ سے پہلے آزما چکا ہوں]۔
اور امام حافظ ابن حجر عسقلانی نے "فتح الباری" (7/212، ط. دار المعرفة) میں فرمایا: [شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ انبیاء میں سے کسی کے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام جتنے پیروکار نہ تھے، اور نہ ہی کوئی ایسا نبی تھا جس کی کتاب اتنی بڑی اور جامع ہو جیسے کہ حضرت موسیٰ کی کتاب تھی، جو حکام میں مکمل تھی۔ اس پہلو سے، حضرت موسی علیہ الصلاۃ والسلام سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشابہ تھے تو اس لئے مناسب تھا کہ آپ ﷺ یہ تمنا کریں کہ انہیں بھی وہ نعمتیں ملیں جو سیدنا موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کو دی گئی تھیں، بغیر اس کے کہ سیدنا موسی علیہ الصلاۃ والسلام ان سے محروم ہوں، اور یہ بھی مناسب تھا کہ حضرت موسی علیہ الصلاۃ والسلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے تجربے سے آگاہ کریں اور آپ ﷺ کو اس بارے میں نصیحت کریں۔]
سفرِ معراج میں نماز فرض ہونے کا معنی
جہاں تک اس مبارک سفر میں فرضیتِ نماز کے مسئلے کا تعلق ہے: تو معراج کی رات میں جو فرض کی گئیں وہ پانچ وقت کی نمازیں ہیں، جبکہ اصل نماز کا حکم بعثت کے آغاز سے ہی موجود تھا۔ یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعثت کے آغاز سے ہی نماز پڑھتے تھے۔ حدیث میں آتا ہے کہ عفیف کُندی نے کہا: "میں ایک تاجر تھا، اور حج کے دوران عباس بن عبد المطلب کے پاس گیا تاکہ اس سے تجارت کا سامان خریدوں، جو خود بھی تاجر تھے۔ قسم ہے اللہ کی، میں منی میں ان کے پاس تھا، کہ اچانک ایک شخص اپنے خیمے سے باہر آیا اور سورج کو دیکھا، جب اس نے اسے ڈھلتے ہوئے دیکھا، تو وہ نماز کے لیے کھڑا ہو گیا۔ پھر اسی خیمے سے ایک عورت نکلی اور اس نے اس کے پیچھے نماز شروع کی، اور پھر ایک نوجوان، جو بالغ ہونے کے قریب تھا، اسی خیمے سے نکلا اور اس شخص کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہو گیا میں نے عباس سے پوچھا: ' اے عباس یہ کون ہے، ؟' تو عباس نے جواب دیا: 'یہ محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب، میرا بھتیجا ہے۔' میں نے پوچھا: 'یہ عورت کون ہے؟' تو عباس نے کہا: 'یہ اس کی بیوی خدیجہ بنت خویلد ہے۔' پھر میں نے پوچھا: 'یہ لڑکا کون ہے؟' تو عباس نے کہا: 'یہ علی بن ابی طالب، اس کا چچا زاد بھائی ہے۔ میں نے پوچھا: 'یہ کیا کر رہا ہے؟' تو عباس نے کہا: 'یہ نماز پڑھ رہا ہے، اور اس کا دعویٰ ہے کہ وہ نبی ہے، اس کے پیچھے اس کی بیوی اور اس کا یہ چچا زاد لڑکا ہی ہے، اور وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسے کسریٰ اور قیصر کے خزانے دیے جائیں گے۔ عفیف، جو کہ اشعث بن قیس کے چچا زاد تھے، نے بعد میں اسلام قبول کیا اور بہت اچھے طریقے سےاسلام قبول کیا۔ انہوں نے کہا: "اگر اُس وقت اللہ نے مجھے اسلام کی ہدایت دی ہوتی تو میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ تیسرے شخص کے طور پر ہوتا۔" یہ روایت امام احمد نے اپنی "مسند" میں اور طبرانی نے "الكبير" میں نقل کی ہے۔
اور امام ابن حجر نے اس پر "فتح الباری" میں فرمایا: [نماز کے فرض ہونے کے بارے میں اختلاف ہے؛ ایک قول یہ ہے کہ یہ ابتدائے بعثت میں فرض ہوئی تھی، اور اس وقت یہ دو رکعتیں صبح اور دو رکعتیں شام میں ہوتی تھیں، اور جو اسراء کی رات میں فرض ہوئی وہ پانچ نمازیں ہیں۔... اور ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضي الله عنها کے حالاتِ زندگی میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے ابتداءِ تخلیق کے متعلق حدیث میں جو ذکر آیا اس میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضي الله عنها نے یقین سے کہا کہ ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضي الله عنها نماز فرض ہونے سے پہلے وفات پا چکی تھیں۔ لہٰذا معتمد علیہ قول یہ ہے کہ جنہوں نے کہا کہ نماز فرض ہو چکی تھی ان کی مراد وہ نماز تھی جو پانچ نمازوں سے پہلے فرض تھی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول "حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات نماز فرض ہونے سے پہلے ہو گئی تھی" کا مطلب یہ تھا کہ پانچ نمازیں فرض ہونے سے پہلے۔ اس طرح دونوں اقوال کے درمیان تطبیق کی جاسکتی ہے، اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اور ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضي الله عنها کا وصال اسراء سے پہلے ہوچکا تھا۔
بیان کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے ایک ہی رات میں زمین اور آسمان کا درمیانی فاصلہ طے کیا
شبہات میں سے ایک یہ ہے کہ زمین سے لے کر آسمانوں کے آخر تک کا فاصلہ بہت زیادہ ہے، جس کا تصور عقل سے باہر ہے، تو انسان کتنی کس رفتار سے یہ فاصلہ طے کر سکتا ہے، جبکہ روشنی بھی جو کہ سب سے تیز چیز ہے، ان مسافتوں کو اس مدت میں طے کرنے سے قاصر ہے۔
جواب: جب بات ہو ہی (خارقِ عادت) غیر معمولی نوعیت کی اور وہ تخلیق بھی اللہ تعالی کی ہو جو قادر مطلق اور قوی ذات ہے، تو اس میں عقلی قیاس یا تجربہ کیلئے کوئی مجال نہیں، بلکہ صرف تسلیم اور ایمان لانا ضروری ہے۔
اس رفتار کے ممکن ہونے کے تصور کو ان لوگوں کے لیے آسان بنایا جا سکتا ہے جو اپنے دماغ کو مادیات تک محدود رکھتے ہیں، جیسا کہ امام مراغی نے اپنی "تفسير" (15/ 6، ط. مصطفی الحلبي) میں کہا: [ایسی رفتار سے حرکت کرنا ممکن ہے، قرآن میں آیا ہے کہ ہوائیں انتہائی تیز رفتاری سے حضرت سلیمان علیہ السلام لے جاتی تھیں اور بہت کم وقت میں دور دراز مقامات تک پہنچا دیتی تھیی ، جیسا کہ اللہ تعالی نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی سواری کی خوبی بیان کرتے ہوۓ فرمایا: ﴿غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ﴾ ترجمہ: اس کی صبح کی منزل مہینے بھر کی راہ اور شام کی منزل مہینے بھر کی راہ تھی۔ [سبأ: 12]، اور یہ بھی آیا ہے کہ جو شخص کتاب کا علم رکھتا تھا، اس نے ملکہ سبا کا عرش یمن سے شام تک پلک جھپکنے میں لے آیا؛ جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ﴾ ترجمہ: اس شخص نے کہا جس کے پاس کتاب کا علم تھا کہ میں اسے تیرے پاس تیری آنکھ جھپکنے سے پہلے لا دیتا ہوں۔ [النمل: 40]، اور اگر یہ بعض لوگوں کے لیے ممکن تھا تو یہ سب کے لیے بھی ممکن ہے۔
وہ ذات جو اپنے حبیب سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصی تک سیر کرائی، پھر اسے سات آسمانوں سے اوپر عرش تک معراج کرائی، وہ وہی ہے جس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے ہوا کو مسخر کیا ﴿تَجْرِي بِأَمْرِهِ رُخَاءً حَيْثُ أَصَابَ﴾ ترجمہ: ہ اس کے حکم سے بڑی نرمی سے چلتی تھی جہاں اسے پہنچنا ہوتا تھا۔ [ص: 36]، اور اسی ذات نے کتاب کا علم رکھنے والے شخص کو بلقیس کا عرش شام سے یمن تک پلک جھپکنے میں منتقل کرنے کی طاقت دی، اور وہ وہی ذات ہے جس نے سیدنا جبرائیل علیہ الصلاۃ والسلام کو وحی دے کر پل بھر میں آسمان سے زمین تک بھیجا۔
خلاصہ:
اس بناء پر اسراء و معراج نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم ترین معجزات میں سے ایک ہے، جو عادت سے ماورا واقع ہوا اور قطعی طور پر ثابت ہے، اور یہ عقلی طور پر مستحیل چیزوں میں سے نہیں ہے۔ اور اللہ تعالی نے اس واقعے کے ذریعے اپنے بندوں کے ایمان کا امتحان لیا تاکہ اچھے اور برے الگ الگ ہو جائیں۔ یہ معجزہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کے لیے تسلی بھی تھا اور آپ ﷺ کی عظمت اور مرتبے میں اضافے کا بھی باعث تھا۔ اور راجح قول یہی ہے کہ یہ واقعہ ستائیس رجب کی رات میں پیش آیا۔ پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک سیر کرائی گئی، پھر وہاں سے آسمانوں کی بلندیوں تک معراج کرائی گئی۔ اور صحیح بات یہ ہے کہ یہ سارا سفر روح مقدس اور جسمِ اطہر دونوں کے ساتھ ہوا۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.