اللہ تعالیٰ کے فرمان (جنت میں داخل ...

Egypt's Dar Al-Ifta

اللہ تعالیٰ کے فرمان (جنت میں داخل ہوجاؤ بسبب ان کاموں کے جو تم کرتے تھ) اور حدیث (کسی شخص کو اس کے اعمال جنت میں داخل نہیں کریں گے) کے درمیان تطبيق

Question

حدیث (لن يدخل احدَكم عملُه الجنة) کسی شخص کو اس کے اعمال جنت میں داخل نہیں کریں گے” کی صحت کا کیا حکم ہے؟ اور ہم اس حدیث اور اللہ تعالیٰ کے فرمان(ادخلوا الجنة بما كنتم تعملون)  “جنت میں داخل ہوجاؤ بسبب ان کاموں کے جو تم کرتے تھے۔” [النحل: 32] اور اس جیسی دیگر آیات کے درمیان کیسے تطبیق کریں؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛

حدیث: «لا يُدْخِلُ أَحَدًا الجَنَّةَ عَمَلُهُ» کی صحت

حدیث: «لا يُدْخِلُ أَحَدًا الجَنَّةَ عَمَلُهُ»  “کسی شخص کو اس کے اعمال جنت میں داخل نہیں کریں گے” صحیح ہے؛ اسے شیخین نے اپنی “صحیحین” میں روایت کیا ہے۔ امّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، آپ  رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "صحیح عمل کرو (اعلی ترین معیار کے) قریب تر رہواور (اللہ کی رحمت کی) خوش خبری (کی امید) رکھو۔حقیقت یہی ہے کہ کسی کو اس کا عمل ہر گز جنت میں داخل نہیں کرے گا۔"صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کو بھی نہیں؟فرمایا: "مجھے بھی نہیں الایہ کہ اللہ مجھے اپنی رحمت سے ڈھانپ لے''۔

کیا مذکورہ حدیث اور ان آیات میں کوئی تضاد ہے جو یہ بیان کرتی ہیں کہ جنت میں داخلہ اعمال کی بنیاد پر ہوگا؟

اس حدیث اور اللہ تعالیٰ کی ان آیات میں کوئی تضاد نہیں جو یہ بیان کرتی ہیں کہ جنت میں داخلہ اعمال کی وجہ سے ہوگا؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَنُودُوا أَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ اور انہیں آواز دی جائے گی کہ یہ جنت ہے تم اپنے اعمال کے بسبب اس کے وارث ہو بنے ہو۔ [الأعراف: 43]،
﴿ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ﴾)  “جنت میں داخل ہوجاؤ بسبب ان کاموں کے جو تم کرتے تھے۔”  [النحل: 32]،
﴿وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ ''اور یہی وہ جنت ہے جس کے تم وارث بنائے گئے ہو ان اعمال کے بسبب میں جو تم کرتے تھے۔'' [الزخرف: 72]۔

اور تعارض نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حدیث میں وارد نفی اور آیت میں وارد اثبات کا محل مختلف ہے۔ حدیث میں جس چیز کی نفی کی گئی ہے، وہ "مقابلہ اور معاوضہ" ہے، یعنی یہ کہ عمل جنت میں داخلے کا بدلہ اور قیمت ہو، کیونکہ انسان کی عمر جتنی بھی لمبی ہو، اس کے اعمال محدود اور متناہی ہیں۔ چنانچہ یہ ممکن نہیں کہ محدود اور متناہی عمل، جنت کی دائمی نعمت اور لا متناہی بقا کا حقیقی بدل اور قیمت بن سکے۔ البتہ آیات میں جس بات کا اثبات ہے، وہ یہ ہے کہ اعمال بندے پر اللہ کی رحمت کے شمول کا سبب بنتے ہیں اور اس رحمت کے ساتھ اللہ بندے کو اپنی جنت میں داخل فرما لیتا ہے۔ اسی طرح، ان آیات میں مراتب اور درجات کے تفاوت کا ذکر بھی ہے، کیونکہ جنت میں بندوں کے درجات ان کے اعمال میں اختلاف کے مطابق مختلف ہوں گے۔

پس سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: "ابھی ابھی میرے پاس میرے خلیل جبرائیل آئے تھے اور انہوں نے کہا: اے محمد! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو برحق مبعوث فرمایا، اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ ایسا ہے جس نے پانچ سو سال تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کی... پھر جب اس کی وفات کا وقت آیا تو اس نے اپنے رب عز و جل سے دعا کی کہ وہ اسے سجدے کی حالت میں ہی وفات دے اور زمین یا کسی اور چیز کو اس پر اثر انداز نہ ہونے دے، یہاں تک کہ اللہ اسے سجدے کی حالت میں ہی دوبارہ اٹھائے۔ تو جبرائیل نے کہا: " ہم جب نازل ہوتے ہیں اور جب آسمان کی طرف چڑھتے ہیں تو اس کے پاس سے گزرتے ہیں ، تو اس کے بارے میں ہمارے ہمیں معلوم ہے کہ اسے قیامت کے دن اٹھایا جائے گا اور اللہ عز و جل کے سامنے کھڑا کیا جائے گا۔ پس اللہ رب العالمین اس سے فرمائے گا: 'میرے بندے کو میری رحمت سے جنت میں داخل کر دو۔'

تو وہ بندہ عرض کرے گا: 'اے میرے رب! بلکہ میرے عمل کے بدلے۔'

پھر اللہ فرمائے گا: 'میرے بندے کو میری رحمت سے جنت میں داخل کر دو۔'

وہ پھر کہے گا: 'اے میرے رب! بلکہ میرے عمل کے بدلے۔'

پھر اللہ تعالیٰ پھر فرمائے گا: 'میرے بندے کو میری رحمت سے جنت میں داخل کر دو۔'"

تو وہ بندہ پھر کہے گا: "اے میرے رب! بلکہ میرے عمل کے بدلے۔"

تب اللہ عز و جل فرشتوں سے فرمائے گا: "میرے بندے کے اعمال کو میری نعمتوں کے مقابلے میں تول کر دیکھو۔"

پس معلوم ہوگا کہ صرف بینائی کی نعمت ہی پانچ سو سال کی عبادت پر غالب آگئی، اور باقی جسم کی نعمتیں تو اس پر اضافی فضل ہے۔

تب اللہ فرمائے گا: "میرے بندے کو جہنم میں ڈال دو۔"پس اسے جہنم کی طرف گھسیٹا جائے گا، تو وہ پکار اٹھے گا: "اے میرے رب! مجھے اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرما دے۔"

(اسے امام حاکم نے "المستدرک" میں اور امام بیہقی نے "شعب الإيمان" میں روایت کیا ہے۔)

علماء کے اقوال جو اس حدیثِ مبارکہ اور آیاتِ قرآنیہ میں تطبیق کے بارے میں وارد ہوئے ہیں

مفسرین، محدثین اور دیگر اہلِ علم کی عبارات اس مفہوم پر متفق ہیں۔

امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر "مفاتيح الغيب" (جلد 14، صفحہ 244، دار إحیاء التراث) میں فرمایا: بعض لوگوں نے اعتراض کیا ہے کہ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بندہ اپنے عمل کے سبب جنت میں داخل ہوگا، جبکہ نبی اکرم ﷺ کا فرمان: «کوئی بھی شخص اپنے عمل کے بدلے جنت میں داخل نہیں ہوگا، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے داخل ہوگا»، ان دونوں میں تناقض پایا جاتا ہے۔

اور اس کا جواب وہی ہے جو ہم نے ذکر کیا کہ عمل بذاتِ خود جنت میں داخلے کا موجب نہیں بنتا، بلکہ اس کا سبب اس لیے بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اسے جنت کے استحقاق کی علامت اور اس کی پہچان بنایا ہے۔مزید یہ کہ چونکہ نیک اعمال کی توفیق دینے والا خود اللہ تعالیٰ ہے، اس لیے حقیقت میں جنت میں داخلہ اللہ کے فضل ہی سے ہوگا۔''

امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر "تفسیر ابن کثیر" (جلد 7، صفحہ 220، دار الکتب العلمية) میں اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ کی تشریح میں فرمایا: یعنی تمہارے نیک اعمال اللہ کی رحمت کے شامل حال ہونے کا سبب بنےبنتے ہیں، کیونکہ کسی کو اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کر سکتا، بلکہ جنت میں داخلہ اللہ کی رحمت اور اس کے فضل سے ہوگا، البتہ جنت میں درجات کا تفاوت نیک اعمال کے مطابق ہوگا۔"

علامہ ابن بطال رحمہ اللہ نے "شرح صحیح البخاری" (جلد 10، صفحہ 180، مکتبة الرشد) میں فرمایا: اگر کوئی کہے کہ نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان: [ (لَن يُدْخِلَ أَحَدَكُمْ عَمَلُهُ الجَنَّةَ) یعنی'' کسی شخص کو اس کے اعمال جنت میں داخل نہیں کریں گے”]، اللہ تعالیٰ کے اس قول [﴿وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ﴾یعنی ''اور یہی وہ جنت ہے جس کے تم وارث بنائے گئے ہو ان اعمال کے بسبب جو تم کرتے تھے۔'' الزخرف: 72] کے مخالف ہے، تو اسے جواب دیا جائے گا کہ یہ وہم درست نہیں، کیونکہ اس حدیث مبارکہ کا مفہوم وہ نہیں جو  آیت کریمہ کا مفہوم ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے حدیث میں یہ فرمایا ہے کہ کوئی شخص اپنے عمل کی بنا پر جنت کا مستحق نہیں بنتا بلکہ ہر کوئی اللہ کی رحمت سے جنت میں داخل ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے آیت میں یہ فرمایا ہے کہ جنت میں درجات اعمال کے مطابق ملیں، اور یہ معلوم ہے کہ جنت میں بندوں کے درجات ان کے اعمال کے مطابق مختلف ہوں گے۔ چنانچہ آیت کا مفہوم جنت میں درجات اور نعمتوں کے تفاوت سے متعلق ہے، جبکہ حدیث کا مفہوم جنت میں داخلے اور ہمیشہ کے لیے اس میں رہنے سے متعلق ہے، اس لیے ان دونوں میں کوئی تعارض نہیں۔"

قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ نے "إكمال المعلم" (جلد 8، صفحہ 353، دار الوفاء) میں فرمایا: اس حدیث اور اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ اور اس جیسی دیگر آیات میں کوئی تعارض نہیں، کیونکہ حدیث ان مجمل آیات کی تفسیر رہی ہے، اس کا مفہوم یہ ہے کہ جنت میں داخلہ اللہ کی رحمت کے ساتھ اور اسی کی رحمت کی وجہ سے ہوگا، کیونکہ بندے کا عمل بھی درحقیقت اللہ کی رحمت اور اس کی توفیق کا نتیجہ ہے۔ بندہ اپنے عمل کی بنیاد پر جنت کا مستحق نہیں بنتا، بلکہ یہ سب کچھ اللہ کے فضل سے ہوتا ہے۔"

شیخ ابن تیمیہ حنبلی رحمہ اللہ نے "مجموع الفتاوى" (جلد 8، صفحات 70-71، مجمع الملک فہد) میں فرمایا: محض عمل کی بنیاد پر انسان سعادت نہیں پا سکتا، بلکہ عمل ایک سبب ہے۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: «إِنَّهُ لَن يَدْخُلَ أَحَدُكُمُ الجَنَّةَ بِعَمَلِهِ» (تم میں سے کوئی بھی اپنے عمل کی بنیاد پر جنت میں داخل نہیں ہوگا)۔ صحابہ نے عرض کیا: 'یا رسول اللہ! آپ بھی نہیں؟' تو آپ ﷺ نے فرمایا: «وَلَا أَنَا إِلَّا أَن يَتَغَمَّدَنِي اللهُ بِرَحْمَةٍ مِنهُ وَفَضْلٍ» (میں بھی نہیں، مگر یہ کہ اللہ مجھے اپنی رحمت اور فضل سے ڈھانپ لے)۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ یہاں (باء) سببیہ ہے، یعنی: تم جنت میں اپنے اعمال بسبب داخل ہو گے۔ جبکہ نبی کریم ﷺ نے (باء) مقابَلہ کی نفی فرمائی ہے، جیسے کہا جاتا ہے: 'میں نے یہ چیز اس کے بدلے خریدی'۔ یعنی انسان کا عمل جنت میں داخلے کے لیے مکمل معاوضہ اور قیمت نہیں بن سکتا، بلکہ اللہ کے عفو، فضل اور رحمت کی ضرورت ہے۔ پس اللہ اپنے عفو سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے، اپنی رحمت سے بھلائی عطا فرماتا ہے، اور اپنے فضل سے برکتوں میں اضافہ کرتا ہے۔"

اس سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ حقیقت میں جنت میں داخلہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہے، اور عمل بذاتِ خود جنت میں داخلے کو لازم نہیں کرتا بلکہ وہ ایک سبب ہے۔ نیز، جنت میں درجات نیک اعمال کے مطابق مختلف ہوں گے، لہٰذا اس بارے میں وارد تمام نصوص میں کوئی تعارض نہیں۔

خلاصہ
مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں: سوال میں مذکور حدیث صحیح اور متفق علیہ ہے، اور اس میں اور ان آیات کے درمیان کوئی تعارض نہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ جنت میں داخلہ اعمال کے سبب ہوگا، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ﴾“جنت میں داخل ہوجاؤ بسبب ان کاموں کے جو تم کرتے تھے۔”  [النحل: 32] اور اسی طرح کی دیگر آیات۔ پس حدیث میں جس چیز کی نفی کی گئی ہے، وہ "مقابلة" اور "عوض" ہے، یعنی یہ کہ عمل جنت میں داخلے کا بدلہ یا قیمت ہو، کیونکہ انسان کی عمر چاہے جتنی بھی طویل ہو، اس کے اعمال محدود اور متناہی ہیں، اور وہ کبھی بھی جنت کی دائمی نعمت اور ابدی بقا کا پورا معاوضہ نہیں بن سکتے۔ جبکہ آیات میں جس چیز کو ثابت کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ یہ اعمال اللہ کی رحمت کے شمول کا سبب بنتے ہیں، اور اسی رحمت کے ذریعے وہ اپنے بندے کو جنت میں داخل فرماۓ گا ۔ مزید برآں، ان آیات میں جنت کے درجات اور منازل کے تفاوت کا ذکر ہے، کیونکہ بندوں کے اعمال میں فرق ہوتا ہے، اسی کے مطابق ان کے جنت میں مقامات بھی مختلف ہوں گے۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas