مکہ مکرمہ کی فضیلت، اور بیت اللہ الحرام کی وجہ سے اس کی حرمت اور شرف
Question
شرعی نصوص میں آیا ہے کہ مکہ مکرمہ مقدس اور محترم سرزمین ہے۔ براہ کرم اس کا مفہوم واضح فرمائیں۔
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کی سنت یوں جاری ہے کہ اس نے بعض مخلوقات کو بعض پر فضیلت دی ہے، اسی طرح بعض مقامات اور زمانوں کو بھی بعض مقامات اور زمانوں پر برتری عطا فرمائی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کی جنس کو اپنی دیگر مخلوقات پر فضیلت دی اور اسے عزت و احترام والا بنایا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اور یقیناً ہم نے بنی آدم کو عزت دی، انہیں خشکی اور سمندر میں سواری دی، اور انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا فرمایا، اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فضیلت دی۔" (بنی اسرائیل: 70) پھر اللہ تعالیٰ نے آدم کی اولاد میں سے انبیاء و رسل کو منتخب فرمایا اور انہیں اپنی وحی کا مرکز اور اپنے پیغام کے ظہور کا مقام بنایا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''بے شک اللہ نے آدم، نوح، آلِ ابراہیم اور آلِ عمران کو تمام جہان والوں پر چن لیا۔" (آل عمران: 33) یہ فضیلت صرف اشخاص تک محدود نہیں رہی بلکہ مقامات پر بھی جاری ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو دیگر سر زمینوں پر فضیلت عطا فرمائی، اسے زمین کا مرکز بنایا اور تمام مقامات میں سب سے اشرف اور بلند درجہ بخشا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو امن دینے والا حرم بنا دیا، جہاں کسی بھی قسم کی دشمنی یا جنگ و جدال کو حرام قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ﴾ ترجمہ: "کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو امن کی جگہ بنا دیا ہے اور لوگ ان کے آس پاس سے اچک لیے جاتے ہیں۔"العنکبوت: 67
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا: ''بلا شبہ یہ شہر (ایسا) ہے جسے اللہ نے (اس وقت سے) حرمت عطا کی ہے جب سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ یہ اللہ کی (عطا کردہ) حرمت (کی وجہ) سے قیامت تک کے لیے محترم ہے اور مجھ سے پہلے کسی ایک کے لیے اس میں لڑا ئی کو حلال قرار نہیں دیا کیا اور میرے لیے بھی دن میں سے ایک گھڑی کے لیے ہی اسے حلال کیا گیا ہے (اب) یہ اللہ کی (عطا کردہ) حرمت کی وجہ سے قیامت کے دن تک حرا م ہے اس کے کا ٹنے نہ کا ٹے جا ئیں اس کے شکار کو ڈرا کر نہ بھگایا جا ئے کوئی شخص اس میں گری ہو ئی چیز کو نہ اٹھا ئے سوائے اس کے جو اس کا اعلا ن کرے، نیز اس کی گھا س بھی نہ کا ٹی جا ئے۔اس پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !سوائے اذخر (خوشبو دار گھا س) کے وہ ان کے لوہاروں اور گھروں کے لیے (ضروری) ہے تو آپ نے فرمایا: " سوائے اذخر کے۔" اس پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! اذخر گھاس (کاٹنے کی اجازت دے دیجیے) کیونکہ یہ ہمارے سناروں اور گھروں کے لیے ضروری ہے۔" تو آپ ﷺ نے فرمایا: "اذخر کے سوا۔" متفق علیہ۔
ابو شریح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عمرو بن سعید سے کہا، جو مکہ میں لشکر بھیج رہا تھا: ''اے امیر! مجھے اجازت دیجیے کہ میں آپ سے وہ بات بیان کروں جو نبی کریم ﷺ نے فتح مکہ کے اگلے دن ارشاد فرمائی تھی، میرے کانوں نے اسے سنا تھا، میرے دل نے اسے محفوظ کر لیا تھا، اور میری آنکھوں نے آپ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے دیکھا تھا۔" پھر انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: ”مکہ (میں جنگ و جدال کرنا) اللہ نے حرام کیا ہے۔ لوگوں نے حرام نہیں کیا ہے، لہٰذا کسی شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، یہ جائز نہیں کہ وہ اس میں خون بہائے، یا اس کا کوئی درخت کاٹے۔ اگر کوئی اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتال کو دلیل بنا کر (قتال کا) جواز نکالے تو اس سے کہو: اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اجازت دی تھی، تمہیں نہیں دی ہے۔ تو مجھے بھی دن کے کچھ وقت کے لیے آج اجازت تھی، آج اس کی حرمت ویسے ہی لوٹ آئی ہے جیسے کل تھی۔ جو لوگ موجود ہیں وہ یہ بات ان لوگوں کو پہنچا دیں جو موجود نہیں ہیں۔“ متفق علیہ۔
امام طبری رحمہ اللہ نے "جامع البیان" (2/29، مؤسسۃ الرسالۃ) میں فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے مکہ کو 'امن' اس لیے قرار دیا ہے، کیونکہ جاہلیت کے زمانے میں یہ ہر اس شخص کیلئے پناہ گاہ تھا، جو اس میں داخل ہو جاتا تھا۔ ان میں سے اگر کوئی شخص یہاں اپنے باپ یا بھائی کے قاتل سے بھی ملتا تو اسے کچھ نہ کہتا اور نہ ہی اس سے تعرض کرتا، یہاں تک کہ وہ حرم سے باہر نکل جاتا۔" انتہی
امام ماتُریدی رحمہ اللہ نے "تأویلات أهل السنة" (4/366، دار الكتب العلمية) میں فرمایا: ''راللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا﴾ کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے حرم کو تمہارے لیے امن و امان کی جگہ بنا دیا ہے، جہاں تم بے خوف و خطر رہتے ہو، اس میں آزادانہ گھومتے پھرتے اور زندگی گزارتے ہو، جبکہ تمہارے اردگرد کے لوگ خطرات میں گھرے ہوتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ انہیں اپنی عظیم نعمتیں اور احسانات یاد دلا رہا ہے جو اس نے ان پر کیے۔ یہ خطاب اگر اہلِ مکہ کے لیے ہو تو اس کا یہی مفہوم ہوگا، اور اگر تمام انسانوں کے لیے ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی نعمت یاد دلا رہا ہے کہ اس نے زمین کو ان کے لیے ٹھہرنے اور زندگی گزارنے کی جگہ بنایا۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو اس شرف سے بھی نوازا کہ اس میں اپنا معظم گھر (کعبہ) بنایا، جو کہ اللہ تعالی کی عبادت اور تقدیس کے لیے زمین پر بنایا گیا سب سے پہلا گھر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے امن کا مرکز بنایا، جہاں بندوں کے دل کھنچے چلے آتے ہیں اور اس کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:'' اور جب ہم نے کعبہ کو لوگوں کے لیے عبادت گاہ اور امن کی جگہ بنایا ۔'' البقرہ: 125۔ اور فرمایا: ''بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لیے بنایا گیا، وہی ہے جو مکہ میں ہے، بابرکت اور تمام جہانوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے'' (آل عمران: 96)۔
امام طبری رحمہ اللہ نے "جامع البیان" (2/26، مؤسسۃ الرسالۃ) میں فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا﴾ کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے مرجع اور پناہ گاہ بنایا ہے، جہاں وہ بار بار آتے ہیں اور ہر سال لوٹ کر آتے ہیں، مگر کبھی سیر نہیں ہوتے اور ان کی رغبت ختم نہیں ہوتی۔
شیخ ابن القیم رحمہ اللہ نے "زاد المعاد" (1/52، مؤسسۃ الرسالۃ) میں فرمایا: ''اس (مکہ مکرمہ) کی فضیلت اور اس کے اختصاص کا راز دلوں کے کھنچنے، قلوب کی اس سے محبت اور ان کے اس کی طرف جھکاؤ میں نمایاں ہو جاتا ہے۔ یہ دلوں کو اپنی طرف کھینچنے میں مقناطیس کے لوہے کو کھینچنے سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔ پس یہی اس قول کا سب سے زیادہ حق دار ہے:
محَاسِنُهُ هَيُولَى كُلِّ حُسْنٍ ... وَمِغْنَاطِيسُ أَفْئِدَةِ الرِّجَالِ
(اس کی خوبصورتی ہر حسن کی اصل ہے... اور یہ لوگوں کے دلوں کے لیے مقناطیس ہے۔)"
لہٰذا، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے خبر دی کہ یہ (بیت اللہ) "مثابہ للناس" ہے، یعنی لوگ پے در پے ہر سال تمام اطراف و اکناف سے اس کی طرف لوٹتے ہیں، مگر کبھی سیر نہیں ہوتے، بلکہ جتنی بار اس کی زیارت کرتے ہیں، اتنا ہی ان کے اشتیاق میں اضافہ ہوتا ہے۔ (انتہی)
اور جو سوال میں پوچھا گیا، اس کا جواب مذکورہ بیان سے معلوم ہو گیا۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.