شوال کے چھ روزے عید کے بعد مسلسل رکھنے کا حکم
Question
کیا شوال کے چھ روزے عید کے فوراً بعد مسلسل رکھنے ضروری ہیں؟ یا اس میں گنجائش ہے کہ ان روزوں کو پورے شوال میں الگ الگ دنوں میں رکھا جا سکتا ہے؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛
شوال کے چھ روزوں کی ترغیب
احادیثِ مبارکہ میں رمضان کے روزوں کی تکمیل کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنے کی بڑی ترغیب آئی ہے، اور بتایا گیا ہے کہ ان روزوں کا ثواب پورے سال کے روزوں کے برابر ہے۔
امام مسلم "صحیح مسلم" میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس نے رمضان کے روزے رکھے، پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے بھی رکھے، تو یہ ہمیشہ روزہ رکھنے کی مانند ہے.''
شوال کے چھ روزوں کے مسلسل رکھنے کے بارے میں فقہاء کی آراء
فقہاء کے درمیان اس بات میں اختلاف ہے کہ شوال کے چھ روزے مسلسل رکھنا افضل ہے یا الگ الگ دنوں میں۔
حنفی فقہاء کے نزدیک الگ الگ دنوں میں رکھنا افضل ہے۔
امام حصكفی حنفیؒ نے الدر المختار (ص: 151، طبع: دار الكتب العلمية) میں فرمایا: شوال کے چھ روزے الگ الگ رکھنا مستحب ہے، اور منتخب قول کے مطابق مسلسل رکھنا بھی مکروہ نہیں ہے۔
شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک شوال کے چھ روزے مسلسل رکھنا افضل ہے۔ علامہ خطیب شربینی الشافعی نے مغنی المحتاج (2/184، ط: دار الكتب العلمية) میں فرمایا: جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے، اس کے لیے مستحب ہے کہ وہ ان کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے، جیسا کہ حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے۔ اگر یہ روزے الگ الگ رکھے جائیں تو بھی سنت ادا ہو جاتی ہے، لیکن انہیں عید کے فوراً بعد مسلسل رکھنا افضل ہے، تاکہ عبادت میں جلدی کی جائے اور تاخیر کی صورت میں جو رکاوٹیں پیش آ سکتی ہیں ان سے بچا جا سکے۔
حنابلہ کی کتاب شرح منتهى الإرادات (1/493، ط: عالم الكتب) میں آیا ہے: شوال کے چھ روزے رکھنا سنت ہے، اور بہتر یہ ہے کہ یہ روزے مسلسل اور عید کے فوراً بعد رکھے جائیں۔
اور جو فقہاء شوال کے چھ روزے مسلسل اور عید کے فوراً بعد رکھنا افضل سمجھتے ہیں، ان کے ہاں بھی یہ افضلیت اُس وقت باقی نہیں رہتی جب اس کے مقابلے میں کوئی اور زیادہ اہم چیز آ جائے؛ جیسے لوگوں کی دل جوئی کرنا— مثلاً اگر کوئی شخص عید کے بعد اپنے رشتہ داروں کے ساتھ کسی دعوت میں شریک ہوتا ہے، تو ایسی صورت میں صلہ رحمی کا لحاظ رکھنا اور رشتہ داروں کے دلوں میں خوشی پہنچانا یقیناً عید کے فوراً بعد روزے رکھنے یا روزوں میں تسلسل رکھنے سے زیادہ اہم ہے۔
شافعیہ اور حنابلہ کے علماء نے صراحت کی ہے کہ ضرورت کے وقت (روزے مسلسل نہ رکھنے یا مؤخر کرنے میں) کراہت باقی نہیں رہتی۔
دیکھیے: حاشیة الرملي على أسنى المطالب 1/186، ط: دار الكتاب الإسلامي
اور غذاء الألباب للسفاريني (1/323، ط: مؤسسة قرطبة)۔
اسی سلسلے میں امام حافظ عبد الرزاق بن ہمام صنعانی رحمہ اللہ کا قول بھی ہے۔ انہوں نے فرمایا: میں نے معمر سے عید الفطر کے بعد چھ روزے رکھنے کے بارے میں پوچھا، اور لوگوں نے ان سے کہا: کیا یہ روزے عید کے فوراً بعد، یعنی دوسرے دن سے رکھے جائیں؟ تو انہوں نے جواب دیا: معاذ الله! (اللہ کی پناہ) یہ دن تو عید کے ہیں، کھانے پینے کے ایّام ہیں ۔ بلکہ یہ روزے ایامِ غرّ (چاند کی روشنی والے دنوں) سے پہلے تین دن، یا ایامِ غرّ کے تین دن، یا پھر ان کے بعد رکھے جائیں۔ اور ایامِ غرّ تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخیں ہوتی ہیں۔" اور جب امام عبد الرزاق رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ جو شخص عید کے دوسرے دن روزہ رکھتا ہے، اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ تو انہوں نے اسے ناپسند فرمایا اور سختی سے اس کا انکار کیا۔ مصنف عبد الرزاق 4/316، ط: المكتب الإسلامي۔
خلاصہ
پچھلی تمام تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ شوال کے چھ روزے پورے مہینے میں الگ الگ دنوں میں رکھنا جائز ہے اور اس میں وسعت ہے، یعنی ان کو مسلسل رکھنا ضروری نہیں۔ اگرچہ عید الفطر کے فوراً بعد ان روزوں کو مسلسل رکھنا افضل ہے، لیکن اگر اس میں کوئی اہم مصلحت مانع ہو تو پھر الگ الگ رکھنا بہتر اور مناسب ہے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.