محرم معذور شخص کے لیے طبّی جوتا پہننے کا حکم
Question
محرم معذور شخص کے لیے طبّی جوتا پہننے کا کیا حکم ہے؟ سائل ایک معذور شخص ہے، جس کی بائیں ٹانگ دائیں ٹانگ سے چھوٹی ہے، اور وہ اس کمی کو طبّی جوتے کے ذریعے پورا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اس سال حج کی سعادت عطا فرمائی ہے۔ تو کیا وہ مسجدِ حرام کے اندر مناسکِ حج (جیسے طواف اور سعی) ادا کرتے ہوئے طبّی جوتا پہن سکتا ہے؟ کیا اس پر فدیہ لازم آئے گا یا نہیں؟ اور کیا جوتے کے تسمے کو سلا ہوا شمار کیا جائے گا یا نہیں؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ سائل کے لیے طبّی جوتا پہننا اور اُسے اُس کے مخصوص تسمے سے باندھنا جائز ہے، کیونکہ یہ ایک اہم ضرورت ہے۔ ایسی حالت میں اس پر فدیہ واجب ہوگا، جو بکری ذبح کرنے، روزے رکھنے یا مساکین کو کھانا کھلانے کی صورت میں ادا کیا جا سکتا ہے۔ مساکین کو کھانے کی بجائے اس کی قیمت دینا بھی جائز ہے۔
تفصیلات:
سائل جیسے شخص کی حالت میں طبّی جوتا پہننا اور اسے مخصوص تسمے سے باندھنا جائز ہے، کیونکہ یہ ایک ضرورت ہے، اور ضرورتیں ممنوعات کو جائز کر دیتی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُم فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ﴾ ترجمہ: "اور اس (اللہ) نے دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔" (سورۃ الحج: 78)۔ اور اللہ تعالیٰ کا ایک اور ارشاد: ﴿مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ﴾ ترجمہ: "اللہ تم پر کوئی تنگی ڈالنا نہیں چاہتا۔" (سورۃ المائدہ: 6)۔
نیز نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے، جیسا کہ حضرت عمرو بن یحییٰ مازنی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"نہ (کسی کو) نقصان پہنچاؤ، نہ بدلے میں(کسی کو) نقصان پہنچاؤ۔" (روایت: احمد)
لہٰذا سائل، جو طبّی جوتا پہنتا ہے، اُس پر فدیہ لازم ہے۔ وہ یہ فدیہ تین روزے رکھ کر، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا کر، یا اُس وقت کے مطابق ہر مسکین کو اس کی رقم دے کر، یا ایک بکری ذبح کر کے ادا کر سکتا ہے۔یہ حکم اُس شخص پر قیاس کرتے ہوئے ہے جو بیماری یا کسی تکلیف کی وجہ سے سر ڈھانپ لے — جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ﴾ ترجمہ: " پھر تم میں سے جو بیمار ہو، یا اسے اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو تو روزے یا صدقے یا قربانی میں سے کوئی ایک فدیہ ہے " (سورۃ البقرہ: 196)۔ اسی بیان سے سوال کا جواب واضح ہو گیا۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.