عمرہ ادا کرنے سے پہلے متمتع کے لئے ...

Egypt's Dar Al-Ifta

عمرہ ادا کرنے سے پہلے متمتع کے لئے احرام کا لباس اتارنے کا حکم

Question

اگر میں نے مدینہ سے متمتع کے طور پر احرام باندھا، پھر مجھے بیماری لاحق ہو گئی اور میں نے عمرہ ادا کرنے سے پہلے احرام کا لباس اتار دیا، تو اس کا کیا حکم ہے؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ اگر تمہیں خدشہ ہو کہ احرام باندھنے کے بعد اچانک بیماری لاحق ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے مناسکِ حج مکمل کرنا دشوار ہو جائے، تو ہم تمہیں مشورہ دیتے ہیں کہ احرام کی نیت کرتے وقت "استثناء" کی نیت بھی کرلو۔ یعنی دل میں ارادہ باندھنے کے ساتھ زبان سے بھی کہو: ''میں نے عمرہ (یا حج) کی نیت کی، اگر مجھے کسی رکاوٹ نے روک دیا تو میں وہیں حلال ہو جاؤں گا جہاں اس رکاوٹ نے مجھے روکا۔" پس اگر تم نے ایسا کر لیا (یعنی استثناء کی نیت کر لی) پھر واقعی کوئی عذر اچانک لاحق ہو گیا، تو تم وہیں اپنے مقام پر احرام سے باہر آ سکتے ہو، نہ تمہیں مناسک مکمل کرنے کے لیے حرم جانا ضروری ہوگا اور نہ احرام ختم کرنے کیلئے وہاں جانے کی ضرورت ہوگی، بلکہ تمہارے موجودہ مقام پر ہی احرام ختم کر لینا کافی ہوگا۔ اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ تم ایک قربانی کا جانور (مثلاً بکری وغیرہ) ذبح کرو، اور اس کا گوشت اس مقام پر موجود فقیروں میں تقسیم کر دو جہاں تم رکے ہوئے ہو، اگر ممکن ہو تو اس قربانی کو حرم بھی بھیجا جا سکتا ہے، اس کے بعد تم اپنے سر کے بال منڈوا لو یا قصر (بال چھوٹے) کروا لو۔ چنانچہ صحیحین میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت ضُباعہ بنت زبیر رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: "کیا تم حج کا ارادہ رکھتی ہو؟" انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں تو خود کو بیمار محسوس کر رہی ہوں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: "حج کرو اور شرط لگاؤ، اور کہو: اے اللہ! میرا احرام وہیں ختم ہو جائے جہاں تو نے مجھے روک دیا۔"

اور یہ ضروری ہے کہ قربانی کے وقت احرام کھولنے کی نیت کی جائے، اور یہ بھی ضروری ہے کہ حلق (سر منڈوانا) یا قصر (بال چھوٹے کروانا) ہدی یعنی قربانی کے بعد ہو، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ﴾ ترجمہ: ''اور اپنے سروں کے بال نہ منڈواؤ جب تک قربانی اپنے مقام تک نہ پہنچ جائے۔" (سورۃ البقرۃ: 196)

لیکن اگر تمہارا مطلب یہ ہے کہ اگر تم بیمار ہو جاؤ تو احرام کا صرف لباس اتار دو، مگر احرام کی حالت باقی رکھو اور مناسک مکمل کرو، تو یہ جائز ہے،البتہ اس پر ہدیٔ جبران (تاوانی قربانی) واجب ہوگی، اور یہ ایسی قربانی ہو جسے عیدالاضحیٰ میں قربان کرنا صحیح ہو۔ یا پھر تین دن کے روزے رکھے جائیں، یا فطرانے کے قابل کھانے میں سے تین صاع (تقریباً ساڑھے آٹھ کلوگرام) غلہ چھ مساکین یا فقراء کو دیا جائے، یعنی ہر ایک کو آدھا صاع (تقریباً ڈیڑھ کلوگرام) ملے۔ امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ نے حضرت کعب بن عُجرة رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان سے حج کے دوران فرمایا: "شاید تمہاری جوئیں تمہیں تکلیف دے رہی ہیں! تو اپنے سر کے بال منڈوا لو اور تین دن روزے رکھو، یا چھ مساکین کو کھانا کھلاؤ، یا ایک بکری قربان کر دو۔" اور یہ حکم اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر ہے: ﴿فَمَن كَانَ مِنكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ﴾ [البقرة: 196] ترجمہ: '' پس تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو، تو اُس پر فدیہ ہے روزے رکھنا، یا صدقہ دینا، یا قربانی کرنا۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas