میت کی طرف سے کسی کے مال کے ذریعے ح...

Egypt's Dar Al-Ifta

میت کی طرف سے کسی کے مال کے ذریعے حج کرنا

Question

جو شخص مالی اور بدنی استطاعت کے باوجود حج نہ کر سکا اور وفات پا گیا، اس کی طرف سے کسی دوسرے کے مال سے حج کرنا کیسا ہے؟ ایک شخص چالیس سال کی عمر میں کینسر کے مرض میں مبتلا ہو کر وفات پا گیا۔ اس کی بیوی اور نابالغ بچے ہیں، اور اس نے باوجود استطاعت کے حج ادا نہیں کیا تھا۔ وفات کے بعد اس کی ایک بہن نے اس کی طرف سے اپنے ذاتی خرچ سے حج ادا کیا تاکہ اس کی جائیداد اس کے نابالغ بچوں کے لیے محفوظ رہے۔ تو کیا یہ عمل شرعًا جائز ہے یا نہیں؟

Answer

شرعی طور پر میت کی طرف سے حج کرنا جائز ہے، کیونکہ حج ایسی عبادت ہے جو نیابت کو قبول کرتی ہے۔ اس میں یہ فرق نہیں کہ نیابت معاوضے کے ساتھ ہو یا بغیر معاوضے کے، البتہ شرط یہ ہے کہ جو شخص میت کی طرف سے حج کر رہا ہو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ پہلے اپنی طرف سے فرض حج ادا کر چکا ہو۔

تفصیلات:

بیت اللہ شریف کا حج، دینِ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَللهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ﴾، (ترجمہ): "اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے، جو اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھے، اور جو انکار کرے تو بے شک اللہ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے۔" (سورۃ آلِ عمران: 97)

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ دینا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔" متفق علیہ۔

اور حج کے وجوب کی شرطوں میں سے ایک شرط حج کی استطاعت رکھنا ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم میں اور نبیِ کریم ﷺ کی سنتِ طیبہ میں بیان ہوا ہے۔ محبوبِ مصطفیٰ ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ استطاعت صرف مالی طاقت پر موقوف نہیں، بلکہ اس میں مالی استطاعت، جسمانی طاقت، راستے کا امن اور دیگر ضروریات بھی شامل ہیں۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''جس کے پاس زادِ راہ اور سواری ہو جو اُسے بیت اللہ تک پہنچا سکے، پھر بھی وہ حج نہ کرے، تو اس میں کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر۔" ترمذی۔

حج فرض ایسی عبادت ہے جس میں دوسرے کی طرف سے نیابت (یعنی کسی کی طرف سے ادا کرنا) جائز ہے، جیسا کہ حضرت ابو رزین العقیلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا والد بہت بوڑھا ہے، نہ وہ حج کر سکتا ہے، نہ عمرہ اور نہ ہی سفر کی طاقت رکھتا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اپنے والد کی طرف سے حج کرو اور عمرہ بھی کرو۔" ترمذی۔

اور جو شخص دوسرے کی طرف سے حج کر رہا ہو، اس کے لیے یہ شرط ہے کہ پہلے وہ اپنے آپ کی طرف سے حج کرچکا ہو، پھر کسی اور کی طرف سے حج کرے؛ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو سنا جو کہہ رہا تھا: (لبیک عن شبرمہ" (یعنی میں شبرمہ کی طرف سے لبیک کہتا ہوں''
تو آپ ﷺ نے پوچھا: ''شبرمہ کون ہے؟" اس نے کہا: "میرا بھائی یا کوئی قریبی رشتہ دار ہے۔"
آپ ﷺ نے فرمایا: ''کیا تم نے اپنے آپ کی طرف سے حج کیا ہے؟" اس نے کہا: "نہیں۔"
آپ ﷺ نے فرمایا: ''پہلے اپنی طرف سے حج کرو، پھر شبرمہ کی طرف سے حج کرو۔" ترمذی۔

نیز، حج کا فرض فوری طور پر ادا کرنا لازم نہیں، بلکہ اس میں تاخیر کی گنجائش ہے۔

سوال میں مذکور صورتِ حال کے مطابق: بہن کا اپنے بھائی کی طرف سے، جو حج کیے بغیر وفات پا گیا تھا، اپنے ذاتی مال سے حج کرنا شرعاً جائز اور ان شاء اللہ موجبِ اجر و ثواب ہے، اور اس میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں فرمایا: "جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے، سوائے تین چیزوں کے: صدقہ جاریہ، ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے، اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے" ترمذی۔

 

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas