غیر قانونی ہجرت کے خطرات اور اس سے ...

Egypt's Dar Al-Ifta

غیر قانونی ہجرت کے خطرات اور اس سے شرعی انتباہ

Question

غیر قانونی ہجرت کے کیا خطرات ہیں؟ بعض نوجوان ایسے طریقے اختیار کرتے ہیں جن کے ذریعے وہ کچھ ممالک میں پہنچ کر بغیر اجازت یا غیر قانونی طور پر قیام کرتے ہیں۔ براہِ کرم وضاحت فرمائیں کہ شریعت میں اس کا کیا حکم ہے؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ جس انداز پر آج کل غیر قانونی ہجرت کی جاتی ہے وہ شرعاً جائز نہیں، ؛ کیونکہ اس میں کئی سنگین غلطیاں اور گناہ شامل ہوتے ہیں۔ آدمی اپنے ہی ملک کے حاکم کی نافرمانی کرتا ہے، جو کہ دین میں ممنوع ہے، اپنی جان کو خطرے میں ڈالتا ہے، اور وہ ملکوں کے درمیان طے شدہ ان معاہدوں کی خلاف ورزی کرتا ہے، جو ممالک کے درمیان آمد و رفت کے اصول و ضوابط کو ریگولیٹ کرتے ہیں اور بعض صورتوں میں اس میں دھوکہ دہی، جعل سازی اور فریب کاری شامل ہوتی ہے، جو مہاجرت کرنے والے شخص کی طرف سے دونوں ملکوں—یعنی جس ملک سے وہ ہجرت کر رہا ہوتا ہے اور جس ملک کی طرف جا رہا ہوتا ہے—کی حکومتی اتھارٹی کے ساتھ کی جاتی ہے، اور یہ سب جھوٹ کی قبیل سے ہے۔

تفاصیل.

غیر قانونی ہجرت — جسے "خفیہ ہجرت" یا "غیر قانونی داخلہ" بھی کہا جاتا ہے — اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ملک کی سرحد میں اس طرح داخل ہو کہ اس کے پاس ایسی قانونی دستاویزات نہ ہوں جو اس ملک کی طرف سے اس کے داخلے کی اجازت پر دلالت کرتی ہوں۔ یہ داخلہ عام طور پر چھپ کر زمینی یا سمندری راستوں سے ہوتا ہے، یا جعلی دستاویزات کے ذریعے عمل میں آتا ہے۔ غیر قانونی ہجرت کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کوئی شخص عارضی مدت کے لیے قانونی دستاویزات کے ذریعے ملک میں داخل ہو، لیکن اس مدت کے ختم ہونے کے بعد بغیر نئی قانونی اجازت کے وہاں مقیم رہے۔

اور آج کل جس انداز پر غیر قانونی ہجرت کی جاتی ہے، اس میں کئی قسم کی شرعی خلاف ورزیاں اور مفاسد لازماً شامل ہوتے ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:

اوّل: اس میں حاکمِ وقت (ولی الامر) کی نافرمانی پائی جاتی ہے، اور جب تک حاکم کسی حرام چیز کا حکم نہ دے، اس کی مخالفت کرنا شرعاً جائز نہیں؛
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے:﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ﴾ ترجمہ: "اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، اور رسول کی اطاعت کرو، اور تم میں سے جو صاحبِ امر (حکمران) ہوں، ان کی بھی۔" [النساء: 59]۔ اور اس مفہوم پر کئی دیگر دلائل بھی وارد ہیں۔

لہٰذا جو شخص ایک ملک سے دوسرے ملک کی طرف ہجرت کرنا چاہے، اس پر لازم ہے کہ وہ اُن قوانین کی پابندی کرے جن پر حاکمِ وقت یا اس کی جانب سے مقرر کردہ ذمہ دار افراد نے عمل درآمد کا حکم دیا ہو۔ (اسی اصول کے تحت ممالک نے آمد ورفت کیلئے قوانین وضع کیے ہیں)

دوم: غیر قانونی ہجرت کی بعض صورتوں میں انسان اپنی جان کو بلا کسی شرعی جواز کے ہلاکت میں ڈال دیتا ہے، اور شریعتِ اسلامیہ نے واضح طور پر جان کو ہلاکت میں ڈالنے سے منع فرمایا ہے۔ اسی سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ﴾ ترجمہ: "اور اپنی جانوں کو ہلاکت میں مت ڈالو۔" [البقرة: 195]
سوم: غیر قانونی ہجرت کے نتیجے میں مسلمان اپنے آپ کو ذلت و رسوائی میں مبتلا کرتا ہے؛ کیونکہ جس ملک میں وہ رسمی اور قانونی طریقے کے بغیر داخل ہوتا ہے، وہاں کی حکومت کی جانب سے وہ مسلسل نگرانی، تعاقب اور گرفتاری کے خطرے میں رہتا ہے، اور گرفتاری یا سزا کا نشانہ بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، بہت سے غیر قانونی مہاجرین مجبور ہو جاتے ہیں کہ وہ ایسے افعال کریں جو نہ صرف ان کی اپنی عزت، بلکہ ان کے وطن اور بعض اوقات ان کے دین کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں، اور ان کے بارے میں منفی تصور پیدا کرتے ہیں؛
جیسے کہ لوگوں سے بھیک مانگنا، یا سڑکوں پر ڈیرے ڈالنا اور زندگی کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانا وغیرہ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمان کو اس بات سے منع فرمایا ہے کہ وہ خود کو ذلت میں ڈالے۔ چنانچہ امام ترمذی -رحمہ اللہ- نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے — اور اسے حسن قرار دیا ہے — کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: «لا يَنبَغي للمؤمِن أَن يُذِلَّ نَفسَه» قالوا: وكيف يُذِلُّ نَفسَه؟ قال: «يَتَعَرَّض مِن البلاء لما لا يُطِيق» ترجمہ: مؤمن کے شایانِ شان نہیں کہ وہ خود کو ذلیل کرے۔" صحابہ نے عرض کیا: "وہ اپنے آپ کو کیسے ذلیل کرتا ہے؟"
آپ ﷺ نے فرمایا: ''وہ ایسی مصیبت میں خود کو ڈال دیتا ہے جسے وہ برداشت نہیں کر سکتا۔"

چہارم: غیر قانونی ہجرت میں بین الاقوامی معاہدوں اور قانونی ضوابط کی خلاف ورزی بھی پائی جاتی ہے، جن کا مقصد مختلف ممالک کے درمیان آمد و رفت (یعنی ایک ملک سے دوسرے ملک میں داخلے اور خروج) کے نظام کو منظم کرنا ہوتا ہے۔ حالانکہ شریعتِ اسلامیہ نے معاہدوں کی پاسداری کو ضروری قرار دیا ہے؛ اس حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے، جسے امام ترمذی نے اپنی سنن میں حضرت عمرو بن عوف مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے — اور اسے "حسن صحیح" قرار دیا ہے — کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: «المُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ، إِلَّا شَرْطًا حَرَّمَ حَلَالًا، أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا». ترجمہ: ''مسلمان اپنی شرطوں (معاہدوں) پر قائم رہتے ہیں، سوائے اس شرط کے جو کسی حلال کو حرام کر دے یا کسی حرام کو حلال کر دے۔"

پنجم: غیر قانونی ہجرت کی بعض صورتوں میں جعل سازی، دھوکہ دہی اور حقائق کو چھپانا شامل ہوتا ہے، جو کہ دونوں ممالک — یعنی جس ملک سے ہجرت کی جا رہی ہے اور جس ملک کی طرف کی جا رہی ہے — کی حکومتی اتھارٹیز کے ساتھ فریب کے مترادف ہے، اور یہ سراسر جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ جھوٹ کی تعریف یہ ہے کہ: کسی چیز کے بارے میں خلافِ حقیقت بات کرنا۔ اور اسلامی شریعت میں جھوٹ بنیادی طور پر حرام اور ممنوع ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ﴾ ترجمہ: "پس بتوں کی گندگی سے بچو، اور جھوٹی بات سے بھی اجتناب کرو۔"  [الحج: 30]
یہ تمام خلاف ورزیاں اور خرابیاں بعض اوقات غیر قانونی ہجرت کی ایک ہی صورت میں یکجا ہو جاتی ہیں، اور بعض صورتوں میں ان میں سے کچھ کم یا غیر موجود بھی ہو سکتی ہیں، لیکن غیر قانونی ہجرت کی کوئی بھی صورت ایسی نہیں ہوتی جس میں ان خرابیوں میں سے کوئی نہ کوئی خرابی نہ پائی جائے، اور ان میں سے کسی ایک خرابی کا پایا جانا ہی اس عمل کی شرعی ممانعت اور حرمت کے لیے کافی ہے۔

لہٰذا اس بنیاد پر: آج کل جس انداز پر غیر قانونی ہجرت کی جاتی ہے، اس کا ارتکاب کرنا یا اس کی کوشش کرنا شرعاً جائز نہیں۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

 

 

Share this:

Related Fatwas