یومِ عاشوراء کا روزہ اور صرف اسی دن...

Egypt's Dar Al-Ifta

یومِ عاشوراء کا روزہ اور صرف اسی دن روزہ رکھنے کا حکم

Question

یوم عاشوراء کا روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟ اور کیا میں صرف دسویں محرم کا روزہ رکھ سکتا ہوں، بغیر نویں یا گیارہویں کے؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ یوم عاشوراء (دسویں محرم) کا روزہ رکھنا شرعاً مستحب (ثواب کا باعث) ہے، اور سائل کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ محرم کے تین دن یعنی نویں، دسویں اور گیارہویں کو ملا کر روزہ رکھے۔
البتہ اگر کسی وجہ سے یا بغیر کسی وجہ کے صرف دس محرم کا روزہ رکھا جائے تو یہ بھی شرعاً جائز ہے، اس میں نہ کوئی کراہت ہے، نہ گناہ اور نہ ہی کوئی حرج۔

تفاصیل:

اسلام میں فضیلت والے دنوں سے فائدہ اُٹھانے کی ترغیب

اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر رحمت کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ اُس نے اُنہیں کچھ فضیلت والے دن عطا فرمائے ہیں، جن میں اللہ کی خاص عنایات ظاہر ہوتی ہیں، نیکیاں کئی گنا بڑھا دی جاتی ہیں، درجات بلند کیے جاتے ہیں، اور گناہ و خطائیں مٹا دی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے بابرکت اوقات سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی ترغیب دی ہے، اس کے لیے محنت و کوشش کرنے، ہدایت کے طریقوں کو مضبوطی سے تھامنے، اور اللہ عزّ و جل کی رضا حاصل کرنے کے لیے خالص نیت کے ساتھ کوشش کرے۔ پس حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' یقیناً تمہارے رب عزوجل کی تمہارے زمانے کے دنوں میں کچھ خاص عنایتیں ہوتی ہیں، تو تم اُن کے لیے خود کو پیش کرو (یعنی ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو)، شاید تم میں سے کسی کو ان میں سے کوئی عنایت نصیب ہو جائے جس کے بعد وہ کبھی بدبخت نہ ہو''۔ اسے امام طبرانیؒ نے المعجم الأوسط میں روایت کیا ہے۔

یومِ عاشوراء کے روزے کی فضیلت

ان فضیلت والے دنوں میں سے ایک دن جس کے شرف اور فضیلت اور اس دن کے روزے پر عظیم ثواب پر احادیثِ مبارکہ شاہد ہیں، وہ "یومِ عاشوراء" ہے، یعنی اللہ کے مہینے محرم کی دسویں تاریخ۔ جیسا کہ حجۃ الاسلام امام ابو حامد غزالیؒ نے اپنی کتاب بدایۃ الہدایۃ (ص 50، مطبوعہ مکتبہ مدبولی) میں ذکر فرمایا ہے۔

حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: «صِيَامُ يَومِ عَاشُورَاءَ، أَحتَسِبُ عَلَى اللهِ أَن يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبلَهُ» ترجمہ: ''یومِ عاشوراء کے روزے کے بارے میں مجھے اللہ سے امید ہے کہ وہ اس کے ذریعے گزشتہ ایک سال کے گناہوں کو معاف فرما دے گا" (صحیح مسلم)۔

اور یومِ عاشوراء کے روزے کا اہتمام کرنا، درحقیقت نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ مبارکہ کی پیروی، اقتداء اور اس کے احیاء کے مترادف ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اس دن کا روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی اس کے روزے کا حکم دیا، چنانچہ یہ عمل شرعاً مستحب شمار ہوتا ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو دیکھا کہ وہ یومِ عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا: "یہ کیا دن ہے؟" انہوں نے کہا: "یہ ایک نیک دن ہے، یہی وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی تھی تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔"
تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "میں حضرت موسیٰ کا زیادہ حقدار ہوں تم سے"،چنانچہ آپ ﷺ نے خود بھی اس دن کا روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس کا حکم فرمایا۔ متفق علیہ۔

اور امام نووی رحمہ اللہ نے شرح صحیح مسلم (جلد 8، صفحہ 5، مطبوعہ دار إحياء التراث العربي) میں ذکر فرمایا ہے کہ اس پر امت کا اجماع منعقد ہو چکا ہے۔

یومِ عاشوراء کے روزے کا افضل طریقہ

یومِ عاشوراء کا روزہ رکھنے کے سلسلے میں کئی درجے ہیں، جن میں سب سے بہتر اور کامل طریقہ یہ ہے کہ عاشوراء (ماہِ محرم کی دسویں تاریخ) کے ساتھ ایک دن پہلے اور ایک دن بعد کا روزہ بھی شامل کیا جائے؛ یعنی محرم کی 9، 10 اور 11 تاریخوں کو روزہ رکھا جائے۔ اس کی بنیاد اُن احادیث پر ہے جن میں نبی کریم ﷺ نے ان تین دنوں کو ملا کر روزہ رکھنے کی ترغیب دی اور اس عمل کی رغبت دلائی۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یومِ عاشوراء کے روزے کے بارے میں فرمایا: ''اس دن کا روزہ رکھو، اور اس معاملے میں یہود کی مخالفت کرو، اور اس سے پہلے ایک دن (یعنی 9 محرم) اور بعد میں ایک دن (یعنی 11 محرم) کا بھی روزہ رکھو۔" اس حدیث کو امام بزار اور امام بیہقی نے شعب الإيمان میں روایت کیا ہے۔

امام مناوی رحمہ اللہ نے التيسير بشرح الجامع الصغير (2/96، مطبوعہ: مکتبۃ الإمام الشافعي) میں اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: علماءِ کرام کی ایک جماعت نے فرمایا ہے کہ عاشوراء کے روزے کی تین درجے ہیں: سب سے کم درجہ یہ ہے کہ صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے، اس سے بہتر یہ ہے کہ اس کے ساتھ نویں محرم کا روزہ بھی شامل کیا جائے، اور سب سے افضل صورت یہ ہے کہ نویں، دسویں اور گیارہویں تینوں دنوں کا روزہ رکھا جائے۔ یہ حدیث دراصل اس کامل ترین صورت کے متعلق ہے۔"

یومِ عاشوراء کا صرف ایک دن روزہ رکھنے کا حکم

اگر کوئی مسلمان صرف عاشوراء یعنی محرم کی دسویں تاریخ کا روزہ رکھنا چاہے، بغیر اس کے کہ نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ ساتھ شامل کرے، تو یہ شرعاً بالکل جائز ہے اور اس میں کوئی کراہت نہیں، چاہے ایسا کسی عذر کی وجہ سے ہو یا بغیر کسی عذر کے۔

امام شروانی رحمہ اللہ نے حاشية تحفة المحتاج (ج 3، ص 455، ط: المكتبة التجارية الكبرى) میں یومِ عاشوراء کے روزے کے بیان میں فرمایا: اور اس دن کو اکیلا روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔"

اسی طرح امام مرداوی رحمہ اللہ نے الإنصاف (ج 3، ص 346، ط: دار إحياء التراث العربي) میں فرمایا: صحیح مذہب کے مطابق صرف دسویں محرم (یومِ عاشوراء) کا روزہ رکھنا مکروہ نہیں۔"

خلاصہ:

لہٰذا، سوال میں مذکور صورتِ حال کے پیشِ نظر عرض ہے کہ یومِ عاشوراء کا روزہ رکھنا شرعاً مستحب عمل ہے۔ اور افضل یہ ہے کہ سائل نویں، دسویں اور گیارہویں محرم کے تینوں دنوں کے روزے رکھے۔ لیکن اگر وہ کسی عذر یا بغیر عذر کے صرف دسویں محرم کا روزہ اکیلے رکھے، تو یہ بھی شرعاً جائز ہے، اس میں نہ کوئی کراہت ہے، نہ گناہ اور نہ ہی کوئی ممانعت۔ 

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas