ٹیکس میں کمی کے لیے زکات کی ادائیگی کی رسید پیش کرنے کا حکم
Question
زکات کی ادائیگی کی رسید ٹیکس میں کمی کے لیے پیش کرنے کا کیا حکم ہے؟ میں ایک غیر ملک میں رہتا ہوں جہاں مجھ پر ٹیکس عائد کیا جاتا ہے، اور متعلقہ ادارہ زکات کی ادائیگی کی رسید قبول کرتا ہے اور اسے ٹیکس میں سے منہا کر دیتا ہے، تو اس صورت میں اس کا کیا حکم ہے؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ ٹیکس کے ادارے کو زکات کی رسید پیش کرنا، تاکہ زکات کی ادائیگی میں دی گئی رقم کو ٹیکس سے منہا کر لیا جائے، شرعاً جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ متعلقہ اداروں کی مقرر کردہ حدود کی پابندی کی جائے اور رسید یا ادائیگی میں کسی قسم کی تبدیلی یا جعل سازی نہ کی گئی ہو۔
تفصیلات....
زکات اور ٹیکس کے درمیان فرق کی وضاحت
زکات کو اس لیے مشروع کیا گیا ہے تاکہ مال کو پاک کیا جائے اور اس کے مستحقین کو سوال کی ذلت سے بے نیاز کیا جائے۔ اس کے مصارف بھی شریعت نے متعین فرمائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ﴾ ترجمہ: صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور ان پر مقرر عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر میں (خرچ کرنے کے لیے ہیں)۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ (التوبہ: 60)۔
اور ٹیکس ایک متعین رقم ہے جو ریاست شہریوں کے اموال پر بغیر کسی خاص فائدے کے عائد کرتی ہے۔ یہ ملکیت، محنت اور آمدنی پر وصول کیا جاتا ہے، اور اس کے بدلے حکومت مفادِ عامہ کے لیے مختلف خدمات اور ذمہ داریاں ادا کرتی ہے۔ اس کی نوعیت قوانین اور حالات کے مطابق بدلتی رہتی ہے۔ملاحظہ ہو: "المعجم الوسیط" (1/537، دار الدعوة) اور "تاج العروس" للزبیدی (3/249، دار الہدایہ)۔
کیا زکات ہی مال میں واحد حق ہے؟
زکات مخصوص شرائط کے ساتھ اور متعین مصارف کے لیے واجب ہوتی ہے جن سے باہر نہیں جا سکتی۔ تاہم مال میں واجب حق صرف زکات تک محدود نہیں، بلکہ اس کے علاوہ بھی حقوق ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ﴾ نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیرو اور لیکن اصل نیکی اس کی ہے جو اللہ اور یوم آخرت اور فرشتوں اور کتاب اور نبیوں پر ایمان لائے اور مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والے کو دے، غلاموں کو آزاد کرے، نماز کی پابندی اور زکوٰة کی ادائیگی کرے، جب وعده کرے تب اسے پورا کرے، تنگدستی، دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے، یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔ (البقرہ: 177)۔
علامہ رازی نے مفاتيح الغيب (5/216، دار إحياء التراث العربي) میں فرمایا: [اس بات میں اختلاف ہے کہ یہاں "إيتاء"(مال دینا) سے مراد کیا ہے۔ بعض لوگوں نے کہا: اس سے مراد زکوٰۃ ہے۔ لیکن یہ قول کمزور ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمان: ﴿وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ﴾ میں اس پر زکوٰۃ کو عطف کیا ہے ، اور عطف ومعطوف علیہ کا تقاضا یہ ہے کہ دونوں باہم متغایر ہوں۔ پس ثابت ہوا کہ اس سے مراد زکوٰۃ نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔ پھر یہ "إيتاء" یا تو نفل ہوگا یا واجب۔ اور نفل نہیں ہوسکتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آیت کے آخر میں فرمایا: ﴿أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ﴾ اور تقویٰ کو اسی پر موقوف کیا ہے، اور اگر یہ محض نفل ہوتا تو تقویٰ اس پر موقوف نہ کیا جاتا۔ پس ثابت ہوا کہ یہ "إيتاء" اگرچہ زکوٰۃ کے علاوہ ہے، لیکن یہ واجبات میں سے ہے]۔
زکوٰۃ اور ٹیکس: کیا ایک دوسرے کی جگہ لے سکتے ہیں؟
زکوٰۃ اور ٹیکس دونوں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں اور ایک دوسرے کی جگہ نہیں لے سکتے۔ زکوٰۃ کے لیے شریعت نے واضح شرائط اور مخصوص مصارف مقرر کیے ہیں، جبکہ ٹیکس کے لیے وہ ضوابط ہوتے ہیں جو متعلقہ حکومتی ادارہ مقرر کرتا ہے اور جن کی پابندی ان پر لازم ہے جن پر وہ عائد ہوں۔ اس کی بنیاد یہ فقہی قاعدہ ہے: "خاص نقصان کو عام نقصان کو دور کرنے کے لیے برداشت کیا جاتا ہے۔" (الأشباه والنظائر لابن نجيم، ص: 74، دار الكتب العلمية)۔ یہی بات فقہاء کے عام اقوال سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔
علامہ ابن عابدین نے اپنی حاشیہ "الدر المختار" (2/337، ط. دار الفكر) میں فرمایا: [امام ابو جعفر بلخی نے کہا: جو کچھ سلطان رعایا پر ان کی مصلحت کے لیے مقرر کرے، وہ لازم الادا قرض اور حقِ واجب کی طرح ہو جاتا ہے، جیسے خراج ہوتا ہے۔ ہمارے مشائخ نے بھی کہا کہ امام جو کچھ رعایا پر ان کی مصلحت کے لیے عائد کرے، اس کا بھی یہی حکم ہے، ہمارے مشایخ نے بھی فرمایا ہے کہ امام رعایا پر جو کچھ ان کی مصلحت کے لیے عائد کرے، اس کا حکم بھی یہی ہے۔ حتیٰ کہ راستوں کی حفاظت کے لیے پہرے داروں کی اجرت، ڈاکوؤں سے بچاؤ (یعنی راستے کی حفاظت، امن اور نگرانی کے اخراجات)، راستوں پر درے اور رکاوٹیں لگانے، اور گلیوں پر دروازے نصب کرنے تک سب اسی میں شامل ہیںیہ بات جان لینے کے لیے ہے، لیکن اسے عام کرنے اور فتنہ کھڑا کرنے کے لیے نہیں۔پھر فرمایا: اس بنا پر خوارزم میں عوام سے دریائے جیحون کے بند کی مرمت یا قلعے اور اس جیسی عام مصالح کے لیے جو کچھ لیا جاتا ہے، وہ واجب قرض ہے، اس سے انکار جائز نہیں اور نہ ہی یہ ظلم ہے۔ البتہ یہ حکم اس لیے بتایا گیا ہے کہ لوگ اس پر عمل کریں اور حکمران کو جائز حق ادا کریں، اور ان کے بارے میں زبان بند رکھیں، اس بات کو تشہیر یا زیادہ چرچا کے لیے نہیں بتانا چاہیے، تاکہ حکمران یا ان کے کارندے یہ سن کر ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں اور واجب مقدار سے زیادہ ٹیکس لینے کی جرأت نہ کریں]۔
امام غزالی نے "المستصفی" (ص: 177، ط. دار الكتب العلمية) میں فرمایا: اگر لوگوں کے پاس مال نہ ہو اور بیت المال (یعنی عوامی خزانہ) میں اتنا موجود نہ ہو کہ فوج کے اخراجات پورے کیے جا سکیں، اور اگر فوج منتشر ہو جائے اور روزگار میں لگ جائے تو اس بات کا اندیشہ ہو کہ کافر اسلامی علاقوں پر حملہ کر دیں گے یا پھر ملک کے اندر فساد پھیلانے والے لوگ فتنہ کھڑا کر دیں گے، تو ایسی صورت میں امام (حاکمِ وقت) کے لیے جائز ہے کہ وہ مال دار لوگوں پر اتنا بوجھ ڈالے (ٹیکس یا محصول لگائے) جس سے فوج کی ضروریات پوری ہو سکیں۔
امام شاطبی نے "الاعتصام" (2/619، ط. دار ابن عفان) میں فرمایا: اگر ایک ایسا امام مقرر ہو جو اطاعت کا مستحق ہو، اور وہ اس حال میں ہو کہ اس کے پاس سرحدوں کی حفاظت اور وسیع ملک کی نگرانی کے لیے فوج کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہو، مگر بیت المال خالی ہو جائے اور فوج کی ضروریات اتنی زیادہ ہوں کہ موجودہ وسائل ان کے لیے کافی نہ ہوں، تو ایسے وقت میں امام، بشرطیکہ وہ عادل ہو، مالدار لوگوں پر اتنا ٹیکس عائد کر سکتا ہے جو موجودہ وقت کے لیے کافی ہو، یہاں تک کہ بیت المال میں آمدنی ظاہر ہو جائے۔
زکاۃ کی رسید پیش کر کے واجب الادا ٹیکس کی شرح کم کروانے کا حکم
اگر ٹیکس عائد کرنے والی اتھارٹی نے یہ طے کر دیا ہو کہ جو شخص زکاۃ ادا کرنے کی رسید پیش کرے گا، تو زکاۃ میں دی گئی یہ رقم ٹیکس کی شرح سے منہا کر دی جائے گی، تو اس میں کوئی قباحت اور شرعی رکاوٹ نہیں، بشرطیکہ متعلقہ ادارے کے مقرر کردہ طریقہ کار کی پابندی کی جائے اور رسید یا ادائیگی میں کوئی ردوبدل یا جعل سازی نہ ہو۔ اس لئے کہ ٹیکس اور اس کی مقدار کا معاملہ دراصل متعلقہ ادارے کے اختیار میں ہوتا ہے، پس اگر وہ ادارہ یہ مناسب سمجھے کہ زکاۃ کی ادائیگی کو ٹیکس سے منہا کر کے شہریوں کا بوجھ کم کیا جائے تاکہ دونوں ادائیگیاں ان پر بوجھ نہ بنیں، تو یہ اسی کے اختیار میں ہے اور شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں۔
خلاصہ
مذکورہ تفصیل کی روشنی میں سوال کے مطابق: زکاۃ کی رسید ٹیکس کے ادارے میں پیش کر کے-متعلقہ حکام کی اجازت کے مطابق- ادا شدہ زکاۃ کو ٹیکس سے منہا کرانا شرعاً جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.