تلبیہ کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وآل...

Egypt's Dar Al-Ifta

تلبیہ کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھنے کا حکم

Question


حج کے دوران تلبیہ کی دعا کے آخر میں درودِ شریف پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ میں پچھلے سال حج پر تھا، تو وہاں میں نے ایک ملک کے حجاج کے وفد کو دیکھا کہ وہ تلبیہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درودِ پاک کے ساتھ ختم کر رہے تھے؛اس عمل کا حکم کیا ہے؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ حج کے دوران تلبیہ کے آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درودِ پاک بھیجنا ایک مستحب عمل ہے؛ کیونکہ تلبیہ کرنے والا اللہ تعالیٰ کا مہمان ہوتا ہے، اور اس کی دعا اور اس کے قبول ہونے کی اُمید کا کمال اس بات میں ہے کہ وہ درود شریف کے ساتھ ختم کرے۔

تفصیلات....

حج میں تلبیہ کا حکم

حج میں تلبیہ کہنا جمہور فقہاء یعنی احناف، شوافع اور حنابلہ کے نزدیک مستحب ہے، جبکہ مالکیہ کے نزدیک یہ واجب ہے۔ ملاحظہ ہو: الدر المختار" از علامہ الحصکفی (حنفی) صفحہ 160، طباعت: دار الكتب العلمية اور نهاية المطلب" از امام الجوینی (شافعی) جلد 4، صفحہ 239، طباعت: دار المنہاج، اور الكافی" از امام ابن قدامہ (حنبلی) جلد 1، صفحہ 483، طباعت: دار الكتب العلمية

یہ تلبیہ حج کے شعائر میں سے ہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلبیہ کی عبارت یہ ہے:
«لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ»۔ ترجمہ: "حاضر ہوں اے اللہ! میں حاضر ہوں، حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بے شک تمام حمد تیرے ہی لیے ہے اور تمام نعمتیں بھی تیری ہی ہیں اور ساری بادشاہی بھی، تیرا کوئی شریک نہیں۔"یہ حدیث امام بخاری نے روایت کی ہے۔یہ حدیث امام بخاری نے روایت کی ہے۔

تلبیہ کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھنے کا حکم

تلبیہ کے بعد نبی اکرم ﷺ پر درود پڑھنا جمہور فقہاء یعنی احناف، شوافع اور حنابلہ کے نزدیک یہ مستحب ہے، اور امام مالک رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت اسی کی تائید میں ہے۔

علامہ ابن نجیم حنفی نے "البحر الرائق" (2/347، دار الكتاب الإسلامي) میں فرمایا: "اگر کوئی شخص احرام باندھے تو احرام کے بعد آہستہ آواز میں حضور ﷺ پر درود پڑھے، اور اسی طرح تلبیہ کے بعد بھی درود پڑھے۔"

امام ابن فرحون المالکی نے اپنی کتاب "إرشاد السالك إلى أفعال المناسك" (جلد 1، صفحہ 276، طباعت: مكتبة العبيكان) میں فرمایا: '' امام مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وارد تلبیہ پر کچھ اضافی کہنا مکروہ ہے، لیکن ان کے بارے میں یہ بھی روایت ہے کہ اس میں اضافہ کرنا جائز ہے۔"

اور امام شافعی نے اپنی کتاب "الأم" (جلد 2، صفحہ 171، طباعت: دار المعرفة) میں فرمایا: مستحب ہے کہ جب نمازی سلام پھیرے تو تین بار تلبیہ کہے، اور مستحب ہے کہ جب تلبیہ سے فارغ ہو تو اس کے بعد نبی کریم ﷺ پر درود بھیجے، اور اللہ تعالیٰ سے اس کی رضا کی اور جنت کی دعا کرے اور دوزخ سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرے۔

امام نووي شافعی نے اپنی کتاب "المجموع" (جلد 7، صفحہ 241، طباعت: دار الفكر) میں فرمایا: اور مستحب یہ ہے کہ جب آدمی تلبیہ سے فارغ ہو تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجے، کیونکہ یہ وہ موقع ہے جہاں اللہ تعالیٰ کا ذکر مشروع ہے، تو یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر بھی مشروع ہے، جیسے اذان میں ہوتا ہے۔"

اور علامہ المَرداوی الحنبلی نے اپنی کتاب "الإنصاف" (جلد 3، صفحہ 453، طباعت: دار إحياء التراث العربي) میں فرمایا: '' تلبیہ کے بعد دعا کرنا بغیر کسی اختلاف کے مستحب ہے، اور اسی طرح تلبیہ کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھنا بھی مستحب ہے۔"

جبکہ مالکی فقہاء کا موقف ہے کہ تلبیہ کے بعد درودِ پاک نہیں پڑھا جائے گا، کیونکہ اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو منقول ہے اسی کی پیروی کی جائے گی۔

امام قرافي مالکی نے اپنی کتاب "الذخيرة" (جلد 3، صفحہ 231، طباعت: دار الغرب الإسلامي) میں فرمایا: تلبیہ میں نہ دعا شامل ہے اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھنا، کیونکہ تلبیہ میں ایسا کوئی عمل منقول نہیں، اور عبادات میں اتباعِ سنت ضروری ہے۔"

شہاب الدین نفراوی نے اپنی کتاب "الفواكه الدواني" (جلد 1، صفحہ 355، طباعت: دار الفكر) میں فرمایا: تلبیہ میں نہ دعا شامل ہے اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھنا، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے تلبیہ میں ایسا کچھ نہیں کیا، اور عبادات میں اتباع سنت ضروری ہے۔"

اور مالکیہ فقہا کا یہ موقف اسی وجہ سے ہے کہ یہ عمل نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول نہیں، اور تلبیہ میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلبیہ پر اکتفا کرنا افضل ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی پر دوام اختیار کیا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیں: "شرح الموطأ" از الزرقانی (جلد 2، صفحہ 364، طباعت: مكتبة الثقافة الدينية)۔

اس مسئلہ میں فتوی کیلئے قولِ مختار:

فتویٰ اس مسئلے میں یہ ہے کہ تلبیہ کے اختتام پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھنا مستحب ہے؛ کیونکہ تلبیہ پڑھنے والا اللہ تعالیٰ کا مہمان ہوتا ہے، اور اس کا تلبیہ دراصل اللہ کی طرف بلانے والے کی پکار پر لبیک کہنا ہے، اور دعا کی تکمیل اور اس کی قبولیت کی امید نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے سے وابستہ ہے، چنانچہ درود کے بعد اللہ تعالیٰ سے جنت مانگنی چاہیے اور دوزخ سے پناہ طلب کرنی چاہیے، کیونکہ یہی سب سے بڑی دعائیں ہیں، پھر اس کے بعد جو چاہے مانگ سکتا ہے۔جیسا کہ امام شافعی نے اپنی کتاب "الأم" (جلد 2، صفحہ 171، طباعت: دار المعرفة) میں بیان کیا ہے۔

ابراہیم بن محمد سے روایت ہے کہ قاسم بن محمد حکم دیتے تھے: ''جب تلبیہ مکمل ہو جائے تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھا جائے۔" یہ روایت امام بیہقی نے اپنی کتاب "معرفة السنن والآثار" میں نقل کی ہے۔

خلاصہ:
اسی بنا پر، حج کے تلبیہ کے اختتام پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھنا مستحب ہے، جیسا کہ بہت سے علما نے کہا ہے۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

 

Share this:

Related Fatwas