اس شخص کی نماز کا حکم جس نے وقت کے داخل ہونے میں شک کی حالت میں نماز پڑھی اور بعد میں پتہ چلے کہ وقت داخل ہو گیا تھا
Question
جس شخص نے نماز کے وقت کے داخل ہونے میں شک کی حالت میں نماز پڑھی، پھر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ وقت کے اندر ہی تھی، تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے؟ ایک آدمی کو ظہر کے وقت کے داخل ہونے میں شک تھا اور اس نے تحقیق کی کوشش نہیں کی، بلکہ نماز پڑھ لی، پھر بعد میں پتا چلا کہ اس نے نماز وقت کے اندر پڑھی تھی، تو کیا اس کی نماز کافی ہوگی؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ مسلمان پر واجب ہے کہ وہ نماز ادا کرنے سے پہلے اس کے وقت کے داخل ہونے کی تحقیق کرے۔ پس اگر کسی کو نماز کے وقت کے داخل ہونے یا نہ ہونے میں شک ہو اور اس نے نماز پڑھ لی، پھر بعد میں معلوم ہوا کہ اس نے نماز وقت کے داخل ہونے کے بعد پڑھی تھی، تو شرعاً اس کی نماز صحیح نہیں ہوگی۔ لہٰذا شخصِ مذکور پر لازم ہے کہ ظہر کی وہ نماز قضا کرے جو اس نے وقت کے بارے میں شک کی حالت میں ادا کی تھی اور بعد میں پتا چل گیا تھا کہ وہ وقت داخل ہونے کے بعد ادا کی گئی تھی ۔
تفصیلات…
نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا، نماز کی صحت کی شرط ہے
شرعاً یہ بات مسلم ہے کہ فرض نمازیں مخصوص اور متعین اوقات میں مقرر کی گئی ہیں، اور مکلف پر واجب ہے کہ وہ ان نمازوں کو انہی اوقات کے اندر ادا کرے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا﴾ [النساء: 103] یعنی: " یقیناً نماز مومنوں پر مقرره وقتوں پر فرض ہے "۔ جیسا کہ امام ابو جعفر طبریؒ نے جامع البيان (9/170، ط. مؤسسة الرسالة) میں فرمایا۔
اور حضرت عبد الله بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے نمازوں کے وقت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: فجر کی نماز کا وقت اس وقت تک ہے جب تک سورج کا پہلا کنارہ طلوع نہ ہو جائے۔ ظہر کی نماز کا وقت سورج کے نصف النہار سے ڈھلنے کے بعد ہے، جب تک عصر کا وقت داخل نہ ہو جائے۔ عصر کی نماز کا وقت اس وقت تک ہے جب تک سورج زرد نہ ہو جائے اور اس کا پہلا کنارہ غروب نہ ہو جائے۔ مغرب کی نماز کا وقت سورج غروب ہونے سے لے کر شفق کے ختم ہونے تک ہے۔ اور عشاء کی نماز کا وقت نصف شب تک ہے۔" اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
امام ابن قدامہؒ نے المغني (1/269، ط. مكتبة القاهرة) میں فرمایا: مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ پانچوں فرض نمازوں کے لیے شریعت نے متعین اور واضح اوقات مقرر کیے ہیں۔
یہ متعین اوقات نماز کی صحت کی شرط ہیں، لہٰذا نماز اپنے شرعی وقت سے پہلے درست نہیں ہوتی، سوائے اس کے جسے شریعت نے رخصت دی ہے، جیسے سفر میں جمع بین الصلاتین (نمازوں کو اکٹھا کرنا) بطور جمع تقدیم۔
امام ابن عبد البرؒ نے الاستذكار (1/23، ط. دار الكتب العلمية) میں فرمایا: نماز کا وقت اس کے فرائض میں سے ہے، اور یہ اپنے وقت سے پہلے درست نہیں ہوتی، اس پر علما کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔"
امام ابن رشدؒ نے بداية المجتهد (1/100، ط. دار الحديث) میں فرمایا: مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پانچوں نمازوں کے لیے پانچ وقت مقرر ہیں، جو نماز کی صحت کے لیے شرط ہیں۔"
اس شخص کی نماز کا حکم جس نے وقت کے داخل ہونے میں شک کی حالت میں نماز پڑھی اور بعد میں پتہ چلے کہ وقت داخل ہو گیا تھا
مسلمان پر واجب ہے کہ نماز ادا کرنے سے پہلے وقت کے داخل ہونے کا یقین کر لے۔ اگر اسے شک ہو، یعنی وقت کے داخل ہونے یا نہ ہونے میں تردّد ہو، اور اس نے نماز پڑھ لی اور بعد میں معلوم ہوا کہ اس نے نماز وقت کے اندر ہی ادا کی تھی، تو حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کے مطابق اس کی یہ نماز کافی نہیں ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نیت میں تردّد پایا گیا اور ذمہ بری ہونے کا یقین نہ ہوا ۔ جیسا کہ امام خرشی نے شرح مختصر خلیل (1/217، ط. دار الفكر) میں بیان کیا ہے۔ نیت میں تردّد کا مطلب یہ ہے کہ فریضہ کو اس کے مقررہ وقت پر ادا کرنے کا قطعی قصد اور پختہ ارادہ نہ ہو، اور یہ کیفیت نیت کو منعقد نہیں ہونے دیتی، لہٰذا ایسی نماز صحیح نہیں ہوتی اور ادا شدہ نہیں مانی جاتی۔
اور جہاں تک "ذمہ بری ہونے کے یقین نہ ہونے" کا تعلق ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو یہ یقین حاصل نہیں ہوتا کہ اس نے شرعی اعتبار سے اپنی ذمہ داری یعنی فرض نماز اس کی تمام معتبر شرائط کے ساتھ ادا کر دی ہے۔ لہٰذا اس کی ذمہ داری شرعاً باقی رہتی ہے، کیونکہ وہ یہ فیصلہ کن طور پر نہیں کہہ سکتا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے نماز اپنے مقررہ وقت پر ادا کر لی ہے۔
امام ابن نجیم الحنفی نے الأشباه والنظائر (ص 45، ط. دار الكتب العلمية) میں فرمایا: اگر کسی کو عبادت کے وقت کے داخل ہونے میں شک ہو اور اس نے وہ عبادت ادا کر لی، پھر بعد میں معلوم ہوا کہ اس نے وہ عبادت وقت کے اندر ہی ادا کی تھی، تب بھی وہ اس کے لیے کافی نہ ہوگی۔"
امام ابو البرکات دَردِير المالکی نے الشرح الكبير کے ساتھ امام دَسوقی کی حاشیہ (1/181، ط. دار الفكر) میں فرمایا: اگر نماز کے دوران کسی شخص کو وقت کے داخل ہونے میں شک پیدا ہو جائے، یعنی مطلق طور پر تردد ہو، اور اس میں گمان بھی شامل ہے، الا یہ کہ گمان غالب ہو، اور اس نے نماز ادا کر لی، تو وہ نماز درست نہیں ہوگی، چاہے بعد میں یہ ظاہر ہو جائے کہ وہ نماز وقت کے اندر ہی ادا کی گئی تھی۔"
امام دسوقیؒ نے اس پر حاشیہ لکھتے ہوئے فرمایا: (مصنف کا قول: اور اگر اسے وقت کے داخل ہونے میں شک ہو… الخ) اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اس بات میں متردّد ہو کہ نماز کا وقت داخل ہوا ہے یا نہیں، اور دونوں کا امکان برابر ہو… خواہ یہ تردّد نماز شروع کرنے سے پہلے پیدا ہو یا نماز میں داخل ہونے کے بعد، تو ایسی صورت میں پڑھی گئی نماز کافی نہیں ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نیت میں تردّد پایا گیا اور بری ذمہ ہونے کا یقین نہ رہا۔ چاہے نماز کے بعد یہ ظاہر ہو کہ نماز وقت سے پہلے پڑھی گئی تھی یا وقت کے اندر، یا کچھ بھی واضح نہ ہو، بہرحال نماز صحیح نہیں ہوگی۔"
امام نووی الشافعیؒ نے المجموع (1/492، ط. دار الفكر) میں فرمایا: اگر کسی کو نماز کے وقت کے داخل ہونے میں شک ہو اور اس نے بغیر تحقیق نماز پڑھ لی، پھر وہ نماز وقت کے اندر ہی ثابت ہوئی، تب بھی وہ کافی نہ ہوگی۔"
امام بُہوتی الحنبلیؒ نے كشاف القناع (1/257، ط. عالم الكتب) میں فرمایا: جس شخص کو نماز کے وقت کے داخل ہونے میں شک ہو تو وہ نماز نہ پڑھے، یہاں تک کہ اس پر وقت کے داخل ہونے کا غالب گمان ہو جائے؛ کیونکہ اصل یہ ہے کہ وقت ابھی داخل نہیں ہوا۔ اور اگر اس نے شک کی حالت میں نماز پڑھ لی تو چاہے بعد میں یہ ثابت بھی ہو جائے کہ اس نے وقت کے اندر نماز ادا کی تھی تو بھی اس پر اعادہ لازم ہے، کیونکہ اس کی نماز صحیح نہیں ہے۔"
خلاصہ
اس بنا پر، اور سوال میں بیان کردہ صورت کے مطابق: مذکورہ شخص پر لازم ہے کہ وہ نماز ادا کرنے سے پہلے اس کے وقت کے داخل ہونے کی تحقیق کرے۔ اگر اسے وقت کے داخل ہونے یا نہ ہونے میں شک ہو اور اس نے نماز پڑھ لی، پھر نماز کے بعد معلوم ہوا کہ اس نے نماز وقت کے داخل ہونے کے بعد ہی ادا کی ہے، تو بھی اس کی نماز شرعاً صحیح نہیں ہوگی۔ لہٰذا اس پر لازم ہے کہ ظہر کی وہ نماز قضا کرے جس کے بارے میں بعد میں پتا چل گیا تھا کہ وہ وقت داخل ہونے کے بعد ادا کی گئی تھی۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.