نماز میں سجدۂ تلاوت کرنے کا طریقہ

Egypt's Dar Al-Ifta

نماز میں سجدۂ تلاوت کرنے کا طریقہ

Question


اگر نمازی دورانِ نماز ایسی آیت تلاوت کرے جس میں سجدے کا حکم ہو، تو وہ سجدہ کب کرے؟ کیا آیت پڑھتے ہی فوراً سجدہ کرنا ضروری ہے، یا بعد میں کرنا بھی درست ہے؟ اور نماز کے اندر سجدۂ تلاوت کرنے کا طریقہ کیا ہے؟

Answer

الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبه ومن والاه، وبعد؛ سجدۂ تلاوت نماز کے اندر ہو یا نماز سے باہر، سنتِ مؤکدہ ہے۔ اگر کوئی شخص نماز میں قرآنِ کریم سے آیتِ سجدہ تلاوت کرےتو اُسے چاہیے کہ وہ فوراً اسی مقام پر سجدہ کرے ۔ سجدے کے لیے دو تکبیریں کہے: ایک سجدے میں جانے کے لیے، اور دوسری سجدے سے اٹھنے کے لیے۔ چاہے وہ امام ہو یا اکیلا نماز پڑھنے والا، دونوں صورتوں میں یہی حکم ہے۔ سجدے میں جاتے وقت ہاتھ نہیں اٹھائے جائیں گے، اورتکبیر خواہ آہستہ کہے یا بلند آواز سے، دونوں درست ہیں، البتہ امام کے لیے بہتر یہ ہے کہ بلند آواز سے تکبیر کہے تاکہ مقتدیوں کو اس کی اطلاع ہو جائے۔

تفاصیل:

شریعت میں سجدۂ تلاوت ادا کرنے کی ترغیب

اسلامی شریعتِ مطہرہ نے سجدۂ تلاوت کی ادائیگی کی ترغیب دی ہے اور اسے بندے کے لیے اپنے ربّ عزوجل کے قریب ہونے کے عظیم ترین اور اعلیٰ ترین ذرائع میں شمار کیا ہے، کیونکہ اس سجدے میں درجات کی بلندی، عاجزی و انکساری کی کامل صورت، اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی حقیقی تعظیم و خشوع کا اظہار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَى عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا ۝ وَيَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولًا ۝ وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا۩﴾  ترجمہ: "بیشک جن لوگوں کو اس (قرآن) سے پہلے علم دیا گیا، جب ان پر یہ (قرآن) پڑھا جاتا ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں، اور کہتے ہیں: پاک ہے ہمارا رب ، یقیناً ہمارے رب کا وعدہ پورا ہونے والا ہے۔ اور وہ ٹھوڑیوں کے بل روتے ہوئے گر پڑتے ہیں اور ان کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے۔"  )سورۃ الإسراء: 107-109(
امام بیضاویؒ نے اپنی تفسیر "أنوار التنزيل وأسرار التأويل" (ج 3، ص 269، دار إحياء التراث العربي) میں فرمایا: ﴿إِذَا يُتْلَى عَلَيْهِمْ﴾ یعنی جب اُن پر قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے، ﴿يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا﴾ تو وہ اللہ کے حکم کی تعظیم میں یا اُس کے وعدے کی تکمیل پر شکر گزاری کے طور پر اپنے چہروں کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں۔ یہ وہ وعدہ ہے جو پچھلی آسمانی کتابوں میں کیا گیا تھا کہ ایک مدتِ انقطاعِ رسالت کے بعد سیدنا محمد ﷺ رسول بنا کر مبعوث فرمائے جائیں گے، اور اُن پر قرآن نازل کیا جائے گا۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: "نبی کریم ﷺ قرآن کی تلاوت فرمایا کرتے تھے، جب ایسی سورت پڑھتے جس میں آیتِ سجدہ ہوتی، تو آپ ﷺ سجدہ کرتے اور ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے، یہاں تک کہ بعض اوقات ہم میں سے کسی کو اپنی پیشانی رکھنے کی جگہ بھی نہیں ملتی تھی۔" متفق علیہ۔

امام النوویؒ نے اپنی کتاب "المنهاج شرح صحیح مسلم" (ج 5، ص 74، دار إحياء التراث العربي) میں فرمایا: اس میں سجدۂ تلاوت کی تصدیق کی گئی ہے، اور اس پر علماء کا اجماع ہے۔

سجدۂ تلاوت کا حکم

سجدۂ تلاوت کے بارے میں فقہاء میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ حنفی مذہب کے علماء کے نزدیک سجدۂ تلاوت واجب ہے، جبکہ دیگر فقہا یعنی مالکی، شافعی اور حنبلی مذاہب کے مطابق یہ سنت ہے اور واجب نہیں۔ دلیل یہ ہے کہ روایت میں آتا ہے کہ نبی ﷺ بعض اوقات سجدہ ترک کر دیتے تھے، اور جو چیز ترک کی جا سکتی ہو، وہ واجب نہیں ہوتی۔ دیکھیے: الاختیار لتعلیل المختار امام ابن مودود الموصلی الحنفی (ج 1، ص 75، ط. الحلبي)، الشرح الكبير شیخ الدردیر المالکی (ج 1، ص 308، ط. دار الفكر)، روضة الطالبین امام النووی الشافعی (ج 1، ص 319، ط. المكتب الإسلامي)، کشاف القناع امام البہوتی الحنبلی (ج 1، ص 445، ط. عالم الكتب)۔

سجدۂ تلاوت کا وقت

سجدۂ تلاوت کے وقت کے بارے میں فقہاء میں اختلاف ہے۔ حنفی مذہب کے علماء کے نزدیک، سجدۂ تلاوت آیتِ سجدہ کی تلاوت کے فوراً بعد ادا کرنا چاہیے اور اسے مؤخر نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ عمل نماز کی جنس ہے اور اس کا سبب یعنی آیت کی تلاوت ہو چکی ہوتی ہے،لہٰذا فوری ادا کرنے کا تقاضا یہ ہے کہ آیت کی تلاوت اور سجدے کے درمیان وقت زیادہ نہ گزرے۔ عام طور پر، اگر دو یا تین آیات پڑھ لی جائیں تو اسے دیر سمجھا جاتا ہے، کیونکہ تاخیر سے ممکن ہے کہ سجدہ بھول جائے اور اس کے ترک کا گناہ لاحق ہو۔

علامہ کاسانی الحنفی نے اپنی کتاب "بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع" (ج 1، ص 180، دار الكتب العلمية) میں فرمایا: سجدۂ تلاوت کے وجوب کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ نماز کے باہر اسے فوراً  ادا کرنا ضروری نہیں، بلکہ تاخیر کے ساتھ بھی ادا کیا جا سکتا ہے ، جیسا کہ عام اہل علم کہتے ہیں۔ اور جہاں تک نماز کے اندرکی بات ہے،تو سجدۂ تلاوت تضییق کے اعتبار سے واجب ہے، یعنی فوراً ادا کرنا ضروری ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ عمل نماز کے افعال میں شامل ہے، یعنی تلاوت کے ساتھ جڑا ہوا ہے، اس لیے یہ نماز کے اجزاء میں شامل ہو جاتا ہے۔ لہٰذا نماز کے اندر اسے ادا کرنا لازم ہے۔

امام ابن عابدین الحنفی نے اپنی کتاب "رد المحتار" (ج 2، ص 110، دار الفكر) میں فرمایا: فوریت سے مراد یہ ہے کہ تلاوت اور سجدے کے درمیان مدت طویل نہ ہو، یعنی اگر دو یا تین آیات سے زیادہ پڑھ لی جائیں تو اسے دیر قرار دیا جاتا ہے۔

مالکیہ کے نزدیک سجدۂ تلاوت آیتِ سجدہ کی تلاوت کے فوراً بعد ادا کرنا چاہیے اور اس کی تاخیر مکروہ ہے، سوائے اس کے کہ کوئی عذر ہو، جیسے پاکیزگی نہ ہونا یا تلاوت ایسے وقت میں ہونا جب نماز مکروہ ہو، مثلاً سورج کے طلوع یا غروب کے وقت۔ اور جو شخص نماز میں آیتِ سجدہ پڑھے، وہ اسے کسی بھی وقت ادا کر سکتا ہے، خواہ وقتِ مکروہ ہو یا نہ ہو،  خاص طور پر اس لئے کہ یہ فریضہ کی تلاوت کے تابع ہے اور اس لحاظ سے یہ سجدۂ سهو کے مشابہ ہے۔  نیز، اگر امام نماز میں آیتِ سجدہ کی تلاوت کرے تو مستحب ہے کہ وہ یہ مقام بلند آواز سے پڑھے تاکہ مقتدی امام کے سجدے کا سبب جان لے اور امام کے بارے میں کسی قسم کی الجھن یا غلط فہمی پیدا نہ ہو۔

علامہ علیش مالکیؒ نے اپنی کتاب "منح الجلیل" (ج 1، ص 335-337، دار الفكر) میں فرمایا: کسی باوضو شخص سجدہ پڑھ کر  بغیر سجدے کیے گزر جانا مکروہ ہے، ۔ اگر کوئی شخص پانچ فرض نمازوں میں سے کسی نماز میں آیتِ سجدہ پڑھے، اور چاہے جان بوجھ کر پڑھے، چاہے وہ وقتِ منع میں پڑھی گئی ہو،  تو بھی اسے سجدہ کرنا چاہیے کیونکہ یہ تلاوت کے تابع ہے۔۔۔امام کے لیے مستحب ہے کہ وہ سرّی نماز میں آیتِ سجدہ کی جگہ بلند آواز سے پڑھے تاکہ مقتدی جان لیں کہامام کس سبب سے سجدہ کر رہا ہے  اور اس کی پیروی کریں۔ اگر امام نے بلند آواز سے نہیں پڑھا لیکن سجدہ کر لیا، تو مقتدی کو چاہئے کہ امام کے سجدے کی پیروی کرے، اور ابن القاسم کے نزدیک اس سجدہ میں امام کی اتباع شرط نہیں ہے ، کیونکہ اصل اس سے سہو کا نہ ہونا ہے۔۔۔سجدہ آیتِ سجدہ کے مقام پر ادا کیا جاتا ہے، چاہے وہ نماز کے اندر ہو یا باہر۔

شافعیہ کے نزدیک، سجدۂ تلاوت آیتِ سجدہ کی تلاوت کے فوراً بعد ادا کیا جاتا ہے، چاہے وہ اکیلا نماز پڑھنے والا ہو یا امام ہو، بشرطیکہ امام کو اس بات کا خوف نہ ہو کہ مقتدیوں میں انتشار یا الجھن پیدا ہو گی، یعنی کچھ لوگ رکوع میں جائیں اور کچھ سجدہ میں۔ اگر امام کو یہ خوف ہو کہ مقتدیوں میں انتشار ہوگا، تو مستحب ہے کہ وہ سجدۂ تلاوت کو نماز کے آخر تک مؤخر کرے، خاص طور پر سرّی نماز میں، جہاں مقتدی امام کی تلاوت نہیں سن سکتے۔

امام النووی الشافعی نے اپنی کتاب "روضة الطالبین" (ج 1، ص 323) میں فرمایا: سجدۂ تلاوت چاہیے کہ آیتِ سجدہ کی تلاوت یا سماعت کے فوراً بعد کیا جائے۔ اگر اس نے تاخیر کر دی اور وقفہ مختصر ہو تو بھی سجدہ کر لے، لیکن اگر تاخیر زیادہ ہو جائے تو سجدہ فوت ہو جاتا ہے۔

امام زین الدین ملیباری ہندی الشافعی نے اپنی کتاب "فتح المعین" (ص 141، دار ابن حزم) میں فرمایا: امام کے لیے مستحب ہے کہ سرّی نماز میں سجدۂ تلاوت آیت کی تلاوت کے فوراً بعد نہ کرے بلکہ نماز کے آخر تک مؤخر کرے۔ بعض بڑی مساجد میں جہری نمازوں میں بھی اس کی مؤخر کرنے کے مستحب ہونے کی بحث ہوئی ہے، کیونکہ اگر امام فوراً سجدہ کرے گا تو مقتدیوں میں الجھن پیدا ہو سکتی ہے۔ مثلاً اگر امام نے آیت پڑھی اور رکوع میں چلا گیا، پھر  کم از کم رکوع کی حد تک پہنچنے سے پہلے سجدہ سجدہ کرنا چاہا، تو اس کا محل فوت ہو جانے کی وجہ سے جائز نہیں رہا   اور اگر وہ سجدے کے لیے جھکا، لیکن اس نے رکوع کی حد (یا مقام) تک پہنچ کر رکوع کی نیت کی، تو کافی نہیں ہوا۔

حنابلہ کے مطابق، سجدۂ تلاوت آیتِ سجدہ کی تلاوت کے فوراً بعد ادا کرنا مستحب ہے، اور تلاوت اور سجدے کے درمیان وقفہ کرنا مکروہ ہے۔ کیونکہ اگر سجدہ اپنی وقت پر نہ کیا جائے تو اس کا محل ساقط کر سکتا ہے، اس لیے نماز کے آخر تک اسے مؤخر کرنا بھی مکروہ ہے۔

قاضی ابو یعلی الموصلی الحنبلی نے اپنی کتاب "التعلیقة الكبيرة في مسائل الخلاف على مذهب أحمد" (ج 2، ص 43، دار النوادر) میں فرمایا: چونکہ سجدۂ تلاوت سنت کے مطابق تلاوت کے فوراً بعد کیا جاتا ہے، اس لیے اسے نماز کے آخر اور قبل سلام تک مؤخر کرنا مکروہ ہے، کیونکہ اس سے تلاوت اور سجدے کے درمیان فاصلے کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔۔۔ پس اسے مؤخر نہیں کیا جاۓ گا، کیونکہ تاخیر سجدے کو ساقط کرنے کا سبب بنتنی ہے۔

نماز میں سجدۂ تلاوت کی ادائیگی کا طریقہ

حنفیہ اور مالکیہ کے معتبَر قول کے مطابق  اور شافعیہ و حنبلیہ کے مذہب کے مطابق سجدۂ تلاوت نماز کے دوران دو تکبیروں کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے: ایک سجدے میں جانے کے لیے اور دوسری سجدے سے اٹھنے کے لیے، بغیر ہاتھ اٹھائے۔ حنابلہ نے اس امر میں قسعت دی ہے اور فرمایا کہ سجدے میں جاتے وقت ہاتھ اٹھانا مستحب ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"رسول اللہ ﷺ ہر اٹھنے، جھکنے ، کھڑے ہونے اور بیٹھنے میں تکبیر فرماتے تھے۔" روایت: نسائی، احمد اور دارمی۔

امام زین الدین ابن نجیم حنفی نے اپنی کتاب "البحر الرائق" (ج 2، ص 137، دار الكتاب الإسلامي) میں فرمایا: سجدۂ تلاوت کی ادائیگی نماز کی شرائط کے ساتھ دو تکبیروں کے درمیان ادا کیا جائے، بغیر ہاتھ اٹھانے، بغیر تشہد اور بغیر سلام کے)… یہاں دو تکبیروں سے مراد ہے: ایک سجدے میں جانے کی تکبیر اور دوسری سجدے سے اٹھنے کی تکبیر، اور دونوں تکبیریں سنت ہیں۔

شیخ علی بن خلف منوفی مالکی نے اپنی کتاب "کفایة الطالب الربانی" (ج 1، ص 360-361، دار الفكر) میں فرمایا: سجدۂ تلاوت صرف وضو کے ساتھ ادا کیا جائے، کیونکہ اس کے لیے وہ شرائط لازم ہیں جو نمازوں کے لیے لازم ہیں، جیسے طہارت اور قبلہ کی طرف رخ کرنا۔ سجدے میں دونوں تکبیریں (نیچے جھکنے اور اٹھنے کی) کہنی ضروری ہیں اگر نماز میں ہو، اور مشہور قول کے مطابق نماز کے بغیر بھی یہی حکم ہے۔ اس سجدے میں جاتے وقت ہاتھ نہیں اٹھائے جاتے، تشہد نہیں پڑھا جاتا اور سلام نہیں پھیرا جاتا، اگر وہ تکبیر کہے تو یہ ہمارے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے… یہ حکم نمازِ فرض یا نفل دونوں میں یکساں ہے، چاہے شخص امام ہو یا اکیلا نماز پڑھ رہا ہو۔

امام العدوي نے اس پر حاشیہ لکھا:

"ويُكبِّرُ لها" (اس کیلئے تکبیر کہی جاۓ گی) اس کا مطلب ہے کہ یہ ظاہر کے اعتبار سے تقلید کے طور پر ہے، جیسا کہ بعض شراحِ خلیل نے کہا، یا نَّدب کے طور پر، جیسا کہ شیخ احمد الزرقانی اور علی بن زین العابدین الأجهوری نے فرمایا۔

علامہ خطیب الشربینی الشافعی نے اپنی کتاب "مغني المحتاج" (ج 1، ص 445، دار الكتب العلمية) میں فرمایا: جو شخص نماز میں سجدۂ تلاوت کرے، اس کیلئے سجدے میں جانے اور سجدے سے اٹھنے کے لیے تکبیر کہنا، مستحب ہے ، لیکن  اس سجدے کیلئے ہاتھ نہیں اٹھائے جاتے، جیسا کہ عام نماز میں نہیں کیا جاتا، اور اس کے لیے تشہد یا سلام بھی نہیں پڑھی جاتی۔ یعنی اس کے لیے وہ طریقہ نہیں اپنایا جاتا جو نماز کے سجدے میں اپنایا جاتا ہے۔ کیونکہ اس سجدے کی نیت نماز میں شامل نہیں ہوتی، جیسا کہ فقہا نے سجدوں کو چھوڑنے کے بارے میں واضح فرمایا ہے۔

امام البہوتی الحنبلی نے اپنی کتاب "شرح منتهى الإرادات" (ج 1، ص 253، ط. عالم الكتب) میں فرمایا: سجدۂ تلاوت میں دو تکبیریں کہنی جائیں، چاہے یہ نماز میں ہو یا نماز کے بغیر: ایک سجدے میں جانے کی تکبیر اور دوسری سجدے سے اٹھنے کی تکبیر، جیسے نماز کے سجدے میں یا سجدۂ سهو میں کیا جاتا۔ جب کوئی شخص سجدۂ تلاوت کرنا چاہے تو اس کے لئے ہاتھ بلند کرنا مستحب ہے، اگرچہ وہ  نماز میں ہو ۔

خلاصہ

اوپر بیان کی گئی تفصیل کی روشنی میں، اور سوال میں مذکور صورتِ حال کے مطابق: سجدۂ تلاوت نماز کے اندر ہو یا نماز سے باہر، سنتِ مؤکدہ ہے۔ اگر کوئی شخص نماز میں قرآنِ کریم سے آیتِ سجدہ تلاوت کرےتو اُسے چاہیے کہ وہ فوراً اسی مقام پر سجدہ کرے ۔ سجدے کے لیے دو تکبیریں کہے: ایک سجدے میں جانے کے لیے، اور دوسری سجدے سے اٹھنے کے لیے۔ چاہے وہ امام ہو یا اکیلا نماز پڑھنے والا، دونوں صورتوں میں یہی حکم ہے۔ سجدے میں جاتے وقت ہاتھ نہیں اٹھائے جائیں گے، اورتکبیر خواہ آہستہ کہے یا بلند آواز سے، دونوں درست ہیں، البتہ امام کے لیے بہتر یہ ہے کہ بلند آواز سے تکبیر کہے تاکہ مقتدیوں کو اس کی اطلاع ہو جائے۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas