طور پہاڑ کی خصوصیت کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر تجلّی فرمائی
Question
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے گفتگو کے لیے باقی تمام بابرکت مقامات کی بجائے طور پہاڑ ہی کو کیوں منتخب فرمایا؟
Answer
الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبه ومن والاه، وبعد؛ اللہ تعالیٰ کا اپنی کسی بھی مخلوق کو کسی فضیلت یا امتیاز کے ساتھ مخصوص فرمانا محض اس کا فضل اور کرم ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے فضیلت دیتا اور منتخب کرتا ہے۔ اور جبلِ طور کو باقی تمام مقدس مقامات سے ممتاز کر کے اس پر اللہ کے تجلی فرمانے کا سبب یہی فضل، کرم اور ان میں پیش آنے والی نشانیوں کی یاد دہانی ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے اسے متعدد فضائل بھی عطا فرمائے۔بیشک طور پہاڑ جنت کے پہاڑوں میں سے ہے اور یہ اللہ کے مومن بندوں کے لیے یاجوج و ماجوج کے فتنے سے حفاظت کا ذریعہ ہے، نیز یہ ان مقامات میں سے ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے دجال پر حرام قرار دیا ہے۔ طور پہاڑ نے اللہ کے سامنے عاجزی اختیار کی، تو اللہ تعالیٰ نے اسے بلند مقام عطا فرمایا اور اسے چن لیا، اور یہی وہ واحد پہاڑ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا۔
تفاصیل:
اللہ تعالیٰ کی اس سنتِ جاریہ کا بیان کہ وہ اپنی مخلوق میں جسے چاہے اور جیسے چاہے فضیلت دیتا ہے
اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں اس کی جاری سنت جاریہ ہے کہ وہ اپنی مشیت اور حکمت کے مطابق اپنی مخلوق میں جسے چاہے اور جیسے چاہے فضیلت اور برتری عطا فرماتا ہے۔ چنانچہ انسانوں میں اس نے انبیاء، رسل اور اولیاء کو باقی مخلوق پر فضیلت بخشی، اور شہروں میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو دیگر تمام شہروں پر برتری عطا فرمائی— جیسا کہ ان دونوں کے درمیان بھی فضیلت کے متعلق نصوص موجود ہیں۔—اور مہینوں میں رمضان المبارک کو تمام مہینوں پر فضیلت دی۔ اسی طرح حرمت والے مہینوں کو بھی فضیلت دی، اور راتوں میں لیلۃ القدر کو تمام راتوں پر برتری عطا فرمائی، اور دنوں میں یومِ عرفہ کو تمام دنوں سے افضل قرار دیا۔ اسی طرح پہاڑوں میں طور پہاڑ کو اس پر اپنی تجلّی فرما کر فضیلت عطا فرمائی ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی ہی مخلوق ہیں، جس میں وہ جو چاہے کرتا اور جس طرح چاہے حکم دیتا ہے۔
بعض اوقات اور مقامات کو فضیلت دیے جانے کی حکمت کے بیان میں علامہ طاہر بن عاشور رحمہ اللہ
“تحریر و التنویر” (جلد 10، صفحہ 184، دار التونسیہ) میں، سورۃ التوبہ میں چار حرمت والے مہینوں کے ذکر کے موقع پر لکھتے ہوۓ فرماتے ہیں: یہ جان لینا چاہیے کہ اوقات اور مقامات کی فضیلت کا معاملہ لوگوں کی فضیلت کے مشابہ ہے، چنانچہ لوگوں کی فضیلت ان نیک اعمال اور عمدہ اخلاق کی بنیاد پر ہوتی ہے جو وہ انجام دیتے ہیں، جبکہ ان چیزوں کی فضیلت جن میں قوتِ ارادہ نہیں پائی جاتی، ان فضائل کی بنیاد پر ہوتی ہے جو ان میں واقع ہوتے ہیں یا ان سے متعلق ہوتے ہیں۔۔۔ اور اللہ ہی اس حکمت کو جاننے والا ہے جس کی بنا پر اس نے ایک زمانے کو دوسرے زمانے پر، اور ایک مقام کو دوسرے مقام پر فضیلت عطا فرمائی۔ پس جو چیزیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کی گئی ہیں وہ دراصل وہ أمور اور احوال ہیں جنہیں اللہ نے چاہا اور مقدر فرمایا، لہٰذا وہ امور تکوینی سے مشابہ ہیں، اور انہیں باطل نہیں کیا جا سکتا مگر اللہ کی جانب سے ہی۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے ہفتہ (یوم السبت) کی تقدیس کو ختم کر کے جمعہ کو فضیلت عطا فرمائی۔
چونکہ رسولوں کو اپنی قوموں کی ہدایت اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے لیے بھیجا گیا، اس لیے ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں معجزات کے ذریعے تقویت دے، جو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ان کے ہاتھوں ظاہر ہوتے، تاکہ ان کی نبوت اور رسالت کے دعوے کی تصدیق ہو اور جو کچھ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہنچاتے ہیں، اس پر لوگوں کو یقین آ جائے۔پس انبیاء کے معجزات اس بات کی دلیل ہیں کہ وہ جو کچھ لائے ہیں وہ حق اور سچ ہے، چنانچہ جب کوئی نبی معجزہ دکھاتا ہے تو اس کی سچائی ثابت ہو جاتی ہے، کیونکہ معجزہ وہ واضح دلیل ہے جو نبوت کے دعوے میں سچے اور جھوٹے کے درمیان فیصلہ کرتی ہے، اور وہ دراصل اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے ہم معنی ہے کہ: “میرا بندہ جو کچھ میری طرف سے پہنچا رہا ہے، اس میں وہ سچا ہے۔”
اور جب نبی کی سچائی ثابت ہو جائے تو اس کی پیروی واجب ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ﴾ ترجمہ: "بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور ترازو نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں۔"(سورۃ الحديد: 25)
امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ “مفاتيح الغيب” (جلد 29، صفحہ 469، دار إحياء التراث العربي) میں فرماتے ہیں:
" البينات سے مراد ظاہر و روشن معجزات اور قاطع دلائل ہیں۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "ہر نبی کو ایسے ایسے معجزات عطا کئے گئے کہ (انہیں دیکھ کر لوگ) ان پر ایمان لائے اور مجھے جو معجزہ دیا گیا ہے وہ وحی (قرآن) ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نازل کی ہے۔ پس مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن میرے تابع فرمان لوگ دوسرے پیغمبروں کے تابع فرمانوں سے زیادہ ہوں گے۔ (متفق علیہ)
پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو مزید فضل و احسان کے ساتھ مخصوص فرمایا تاکہ لوگوں کا یقین ان کی سچائی پر بڑھ جائے، ان کے لائے ہوئے دین پر ایمان مزید مضبوط ہو، ان کے احکام کے سامنے تسلیم و رضا پیدا ہو، اور ان کی شریعتوں کی پیروی آسان ہو جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں روشن و شاندار معجزات عطا کرنے کے ساتھ ساتھ خصوصیات، عزت و تکریم اور فضیلتیں بھی عطا فرمائیں، تاکہ دعوتِ الی اللہ کا کام بخوبی انجام پا سکے۔
اور اللہ تعالیٰ نے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِنْهُمْ مَنْ كَلَّمَ اللَّهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ﴾ ترجمہ: "یہ وہ رسول ہیں جن میں سے بعض کو ہم نے بعض پر فضیلت دی، ان میں سے کچھ وہ ہیں جن سے اللہ نے کلام فرمایا، اور بعض کے درجات بلند کیے۔" (سورۃ البقرہ: 253)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ "تفسیر القرآن العظيم" (جلد 1، صفحہ 670، دار طیبہ) میں فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ بتا رہا ہے کہ اس نے بعض رسولوں کو بعض پر فضیلت دی، جیسا کہ فرمایا: ﴿وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيِّينَ عَلَى بَعْضٍ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا﴾ترجمہ: "اور بیشک ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت دی اور ہم نے داود کو زبور عطا فرمائی۔" (سورۃ الإسراء: 55) اور یہاں فرمایا: ﴿تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِنْهُمْ مَنْ كَلَّمَ اللَّهُ﴾ یعنی حضرت موسیٰ کو اور حضرت محمد ﷺکو، اور اسی طرح حضرت آدم علیہ السلام کو فضیلت دی، جیسا کہ "صحیح ابن حبان" میں حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ اور فرمایا: ﴿وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ﴾ جیسا کہ اسراء ومعراج کی روایت میں ثابت ہے کہ نبی ﷺ نے آسمانوں میں دیگر انبیاء کو ان کی اللہ کے نزدیک منازل کے مطابق دیکھا۔ واقعۂ معراج کے وقت ثابت ہوا کہ نبی ﷺ نے آسمانوں میں انبیاء کو دیکھا اور ان کے درجات اللہ تعالیٰ کے نزدیک مختلف پائے گئے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی موسیٰ علیہ السلام کو خصوصی طور پر یہ فضیلت دی کہ اس سے کلام فرمایا، جیسا کہ امام القرطبی رحمہ اللہ "الجامع لأحكام القرآن" (جلد 7، صفحہ 280، دار الكتب المصرية) میں فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿إِنِّي اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسَالَاتِي وَبِكَلَامِي﴾ ترجمہ: "بیشک میں نے تجھے اپنی رسالت اور اپنے کلام کے ذریعے تمام لوگوں پر ترجیح دیتے ہوئے منتخب کرلیا ہے۔" (سورۃ الاعراف: 144) اس میں "اصطفاء" سے مراد ہے "اجتباء" یعنی چُن لینا اور فضیلت دینا۔ یہاں "علی الناس" فرمایا، "علی الخلق" نہیں، کیونکہ یہ خصوصیت اس اعتبار سے ہے کہ اللہ نے اُن سے کلام فرمایا، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے بھی کلام کیا اور دوسرے انبیاء کو بھی رسالت عطا فرمائی، مگر یہاں مراد اُن لوگوں پر فضیلت دینا ہے جن کی طرف موسیٰ علیہ السلام کو بھیجا گیا تھا۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ "فتح الباری" (جلد 9، صفحہ 6، دار المعرفة) میں فرماتے ہیں:آپ ﷺ کا فرمان: «مَا مِنَ الأَنْبِيَاءِ نَبِيٌّ إِلَّا أُعْطِيَ» ترجمہ: "ہر نبی کو معجزہ دیا گیا ہے" یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہر نبی کے لیے ضروری ہے کہ اسے معجزہ دیا جائے، تاکہ جو کوئی اسے دیکھے اس کی سچائی پر ایمان لائے، اور جو لوگ ضد اور عناد پر قائم رہیں، وہ نبی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ جبکہ "من الآيات" سے مراد وہ خارق العادت معجزات ہیں، اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہر نبی کو ایک یا ایک سے زیادہ معجزات دیے گئے تاکہ جب لوگ انہیں دیکھیں تو ان کے دل میں یقین پیدا ہو کہ یہ شخص واقعی اللہ کا سچا نبی ہے۔
امام قشیری رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر "لطائف الإشارات" میں اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَى تَكْلِيمًا﴾ کی تفسیر میں فرمایا کہ یہ آیت اس بات کی خبر دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے کلام کے براہِ راست سننے کے لیے خاص طور پر منتخب فرمایا، بغیر کسی واسطے کے۔ یہ دراصل موسیٰ علیہ السلام کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے عظیم شرف اور بلند مرتبہ ہے، اسی وجہ سے انہیں "کلیمُ اللہ" کہا جاتا ہے۔
امام عبد القاهر الجرجانی رحمہ اللہ "درج الدرر في تفسير الآي والسور" (جلد 2، صفحہ 422، دار الفكر) میں ذکر فرماتے ہیں کہ حضرت ضحّاک بن مزاحم نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد: [﴿وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الطُّورِ إِذْ نَادَيْنَا﴾ "اور آپ طور کے پاس نہیں تھے جب ہم نے پکارا" (سورۃ القصص: 46)] کے بارے میں لکھتے ہیں: جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے صحیفے لیے اور ان میں نظر ڈالی تو عرض کیا: "اے میرے رب! تو نے مجھے ایسی عزت عطا فرمائی ہے جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی۔" تو اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی: "اے موسیٰ! میں نے اپنے بندوں کے دلوں پر نگاہ ڈالی، تو ان میں سب سے زیادہ عاجز و متواضع دل تیرا پایا، اسی لیے میں نے تجھے اپنی رسالت اور اپنے کلام کے لیے منتخب فرمایا۔ پس جو میں نے تجھے عطا کیا ہے، اسے مضبوطی سے تھامے رکھ اور شکرگزار بندوں میں شامل ہو۔"
زمین کے دیگر تمام پہاڑوں میں سے صرف طور پہاڑ پر اللہ تبارک و تعالیٰ کے تجلی فرمانے کے راز کا بیان
جہاں تک بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے باقی تمام بابرکت مقامات کی بجائے طور پہاڑ ہی تجلّی کے لیے مخصوص فرمایا، تو یہ اس مقام کی تعظیم، تکریم اور اس میں واقع آیات کی یاد دہانی کے لیے تھا۔
امام القرطبی رحمہ اللہ "الجامع لأحكام القرآن" (جلد 17، صفحہ 58) میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد:
﴿وَٱلطُّورِ﴾ " قسم ہے طور کی " (سورۃ الطور: 1) میں طور اس پہاڑ کا نام ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا۔ اللہ نے اس کی قسم کھائی تاکہ اسے تعظیم و تکریم ملے اور اس میں موجود نشانیوں کی یاد دہانی ہو، اور یہ جنت کے پہاڑوں میں سے ایک ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: " چار پہاڑ جنت کے پہاڑوں میں سے ہیں اور چار دریا جنت کے دریاؤں میں سے۔ پہاڑ یہ ہیں: طور، لبنان، طورِ سیناء اور طورِ زیتا، اور جنتی دریاؤں میں سے یہ ہیں: فرات، نیل، سیحان اور جیحان۔ "
اس روایت کو الطبرانی نے "معجم الأوسط"، ابن شبہ نے "تاریخ المدینہ"، اور ابن عساکر نے "تاریخ دمشق" میں نقل کیا ہے۔
علامہ نورالدین ہیثمی نے ''مجمع الزوائد'' (10/71، مطبوعہ مکتبۃ القدسی) میں اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: “میں کہتا ہوں کہ دریاؤں کے بارے میں اس کی حدیث صحیح میں بھی وارد ہے، اسے طبرانی نے ''المعجم الأوسط'' میں روایت کیا ہے، لیکن اس کی سند میں کچھ ایسے راوی ہیں جنہیں میں نہیں جانتا۔”
اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو حضرت عمرو بن عوفؓ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “چار پہاڑ جنت کے پہاڑوں میں سے ہیں، چار نہریں جنت کی نہروں میں سے ہیں، اور چار جنگیں جنت کی جنگوں میں سے ہیں۔” عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! وہ پہاڑ کون سے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: “اُحد وہ پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں، یہ جنت کے پہاڑوں میں سے ایک ہے۔ اور طور پہاڑ جنت کے پہاڑوں میں سے ہے، اور لبنان پہاڑ بھی جنت کے پہاڑوں میں سے ہے۔ اور چار نہریں یہ ہیں: نیل، فرات، سیحان، اور جیحان۔ اور چار جنگیں یہ ہیں: بدر، اُحد، خندق، اور حنین۔” اسے طبرانی نے ''المعجم الکبیر'' میں روایت کیا ہے، لیکن اس کی سند میں “کثیر بن عبداللہ” ہے جو ضعیف راوی ہے، جیسا کہ علامہ نورالدین ہیثمی نے مجمع الزوائد (4/14) میں وضاحت فرمائی ہے۔
اور کثیر بن عبداللہؒ سے امام ترمذی، ابن خزیمہ، دارمی، طحاوی اور حاکم نے روایت لی ہے، جیسا کہ امام سیوطیؒ نے ''اللآلئ المصنوعة'' (1/86، دار الکتب العلمیة) میں ذکر کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا: “زیادہ قرینِ قیاس یہ ہے کہ کثیر اُن ضعیف راویوں میں سے ہیں جن کی روایت موضوع (من گھڑت) کے درجے تک نہیں گرتی، اور مؤلف نے جو حدیث ذکر کی ہے وہ بھی ضعیف ہے مگر موضوع نہیں۔ مزید برآں یہ بات ثابت ہے کہ مذکورہ چار نہریں (سیحان، جیحان، نیل اور فرات) جنت کی نہریں ہیں، جیسا کہ متعدد احادیث سے واضح ہوتا ہے، ان میں سے ایک وہ حدیث ہے جو امام مسلم نے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘سیحان، جیحان، نیل اور فرات سب جنت کی نہریں ہیں۔’ نیز حضرت سہل بن سعدؓ کی اُحد کے بارے میں روایت پہاڑوں والی روایت کے لیے شاہد (تائید) ہے۔ لہٰذا واضح ہوا کہ اس حدیث میں کوئی قابلِ انکار بات نہیں ہے۔ ابن مردویہ نے اسے اپنی ''تفسیر'' میں روایت کیا ہے، اور اسے حضرت ابوہریرہؓ کی ایک دوسری روایت سے بھی تائید حاصل ہے۔”
امام ابن عراقؒ نے ''تنزیه الشريعة'' (1/195، دار الکتب العلمیة) میں اسی مفہوم کی بات ذکر کی ہے اور فرمایا: “یہ بات ظاہر ہو گئی کہ اس حدیث میں کوئی منکر (قابلِ اعتراض) بات نہیں، اور اس کی تائید حضرت ابوہریرہؓ کی ایک روایت سے ہوتی ہے جسے طبرانی نے ''المعجم الأوسط'' میں روایت کیا ہے۔”
پس حاصلِ کلام یہ ہے کہ اگرچہ یہ حدیث ضعیف ہے، مگر قابلِ قبول ہے اور اس میں کوئی بات ایسی نہیں جو شرعاً یا عقلاً ناقابلِ قبول ہو۔
جبل طور کی فضیلت کی ایک دلیل وہ دجال والی طویل حدیث ہے، جس میں آیا کہ یہ پہاڑ اللہ کے مومن بندوں کے لیے یاجوج و ماجوج کے فتنے سے حفاظت کا ذریعہ ہوگا، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
" وہ اسی عالم میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائے گا: میں نے اپنے (پیدا کیے ہوئے) بندوں کو باہر نکال دیا ہے، ان سے جنگ کرنے کی طاقت کسی میں نہیں۔ آپ میری بندگی کرنے والوں کو اکٹھا کر کے طور کی طرف لے جائیں۔ اور اللہ یاجوج و ماجوج کو بھیج دے گا۔" صحیح مسلم۔
اور جس طرح یأجوج و مأجوج کو طور پہاڑ میں داخل ہونے سے روکا جائے گا، اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں یہ بھی وارد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دجال پر بھی اس جگہ کو حرام قرار دیا ہے۔ چنانچہ امام احمدؒ نے ''المسند'' میں، امام ابن أبي شيبةؒ نے ''المصنف'' میں، اور نعيم بن حمادؒ نے ''الفتن'' میں روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دجال کے بارے میں فرمایا: “وہ چار مساجد کے قریب نہیں جا سکے گا: مسجدِ حرام، مسجدِ رسول ﷺ، مسجدِ اقصیٰ اور طور پہاڑ۔”
علامہ نورالدین ہیثمیؒ نے ''مجمع الزوائد'' (7/343) میں اس حدیث کے بارے میں فرمایا: “اسے امام احمد نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی صحیح کے راویوں میں سے ہیں۔”
بعض آثار میں یہ آیا ہے کہ پہاڑ نے اللہ تعالیٰ کے سامنے تواضع اختیار کی، اس کی قدرت کے آگے سرِ تسلیم خم کیا اور اس کے فیصلے اور مشیت پر راضی ہوگیا۔ جب اس پہاڑ نے اللہ تعالیٰ کے لیے عاجزی دکھائی تو یہی مناسب تھا کہ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اپنی تجلی اسی پہاڑ پر فرمائے اور اسی کے قریب ان سے کلام کرے، نہ کہ دوسرے پہاڑوں پر۔
چنانچہ امام احمدؒ نے ''الزهد'' میں، ابو نعیمؒ نے ''الحلية'' میں، عبدالرزاق صنعانیؒ نے ''التفسير'' میں اور ابو الشيخ اصفہانیؒ نے ''العظمة'' میں ایک حسن سند کے ساتھ نوف بکالیؒ سے روایت کیا ہے کہ: “اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کی طرف وحی فرمائی کہ میں تم میں سے ایک پہاڑ پر نازل ہونے والا ہوں، تو تمام پہاڑ تکبر سے بلند ہوگئے، سوائے طور پہاڑ کے؛ اس نے عاجزی کی اور کہا: میں اپنے لئے اللہ کی تقسیم پر راضی ہوں۔ تو اللہ تعالیٰ نے اسی کو منتخب فرما لیا ۔ پس اللہ کا فیصلہ اس پر نافذ ہوا۔
اور امام ثعلبی نے اپنی تفسیر (جلد 4، صفحہ 275، دار إحیاء التراث العربی) میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: لیکن تم پہاڑ کی طرف دیکھو، وہ مدین کا سب سے بڑا پہاڑ ہے جسے “زبیر” کہا جاتا ہے۔ جب پہاڑوں نے یہ سنا تو سب کے سب اس امید میں فخر کرنے لگے کہ شاید اللہ تعالیٰ ان پر تجلی فرمائے، مگر پہاڑ زبیر نے عاجزی و انکساری اختیار کی۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس کی یہ عاجزی اور انکساری دیکھی تو اسے تمام پہاڑوں میں سے بلند فرمایا اور اپنی تجلی کے لیے اسے خاص فرما لیا۔
یہ خوبیاں بھی اس عظیم فضیلت میں شامل ہیں جو قرآن کریم میں طور پہاڑ کے ذکر میں آئی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہم کلام ہونا، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَكَلَّمَ ٱللَّهُ مُوسَىٰ تَكۡلِيمًا﴾ ترجمہ: "اور اللہ نے موسیٰ سے براہِ راست کلام فرمایا۔" (سورۃ النساء: 164) اور اسی طرح فرمایا: ﴿فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَى صَعِقًا﴾ ترجمہ: "پس جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ (علیہ السلام) بےہوش ہوکر گر پڑے۔ (سورۃ الاعراف: 143) اور ارشاد فرمایا: ﴿وَنَادَيْنَاهُ مِنْ جَانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ وَقَرَّبْنَاهُ نَجِيًّا﴾ ترجمہ: ''اور ہم نے ان کو طور کی داہنی جانب سے پکارا۔'' (سورۃ مریم: 52)
خلاصہ
جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے اور سوال کے تناظر میں: اللہ تعالیٰ کا اپنی کسی بھی مخلوق کو کسی فضیلت یا امتیاز کے ساتھ مخصوص فرمانا محض اس کا فضل اور کرم ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے فضیلت دیتا اور منتخب کرتا ہے۔ اور جبلِ طور کو باقی تمام مقدس مقامات سے ممتاز کر کے اس پر اللہ کے تجلی فرمانے کا سبب یہی فضل، کرم اور ان میں پیش آنے والی نشانیوں کی یاد دہانی ہے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.
Arabic
Englsh
French
Deutsch
Pashto
Swahili
Hausa
