طلاق کے بعد متعہ ميں نان و نفقہ

Egypt's Dar Al-Ifta

طلاق کے بعد متعہ ميں نان و نفقہ

Question

سال ٢٠٠٥ء مندرج استفتاء پر ہم مطلع ہوئے جو مندرجہ ذیل سوال پر مشتمل ہے:

متعہ ميں نان و نفقہ ، اس کی مقدار، اسکی مدت اور شوہر سے اس کے حصول کے شرائط و کیفیت کے بارے میں شرعی فتویٰ عنایت کیے جانے کی امید کرتا ہوں، معلوم رہے کہ شادی کی مدت تین سال ہے، ساتھ میں اس نان و نفقے کی قانونی حیثیت کو بھی بیان کیا جائے؟.

Answer

قانون نمبر پچیس بابت سال انیس سو انتیس کے ترمیم شدہ قانون نمبر سو بابت سال انیس سو پچاسی میں اضافہ کردہ دفعہ نمبر اٹھارہ میں آیا ہے: ''ایسی بیوی جس کے ساتھ درست شادی ہوئی ہو اور مباشرت بھی ہوئی ہو اگر اُسکا شوہر اس کی رضامندی کے بغیر اسے طلاق دے دے، اور عورت کی طرف سے طلاق کا کوئی سبب نہ پایا گیا ہو تو وہ عورت عدت کے نان و نفقہ کے علاوہ متعہ لینے کا بهى حق رکھتی ہے، اس نان و نفقہ کی مقدار کم سے کم دو سال کے نان و نفقہ برابر ہو لیکن طلاق دینے والے کی مالی حالت، تنگی یا فراخی، طلاق کی حالت اور ازدواجی زندگی کی مدت کا اعتبار کرتے ہوئے طلاق دینے والے کو یہ اختیار دیا جا سکتا ہے کہ یہ خرچ قسطوں میں ادا کرے. لہذا اس قانون کے مطابق طلاق شدہ عورت کا متعہ کم سے کم دو سال کے نان و نفقہ کے برابر کا مال ہونا چاہئے اور یہ ان کا بجا حق ہے بشرطیکہ شادی درست ہوئی ہو اور مباشرت بھی واقع ہوئی ہو اور اس کے شوہر نے اسکی رضامندی کے بغیر اسے طلاق دے دی ہو، اور عورت کی طرف سے طلاق کا کوئی سبب نہ پایا گیا ہو، اور یہ متعہ اس کی عدت کے نان و نفقہ کے علاوہ ہو گا. نيز اس قانون کے توضیحی نوٹ میں آیا ہے: ''جیسا کہ شریعت میں یہ امر طے شدہ ہے کہ طلاق دینا شوہر کا حق ہے اور مجریہ قانون مباشرت کے بعد مطلقہ کےلئے مالی متعہ لازم نہیں کرتا تھا کیونکہ عورت مباشرت کی وجہ سے کامل مہر کی حقدار بن جاتى ہے،اتنا اس کےلئے کافی ہے اس کےعلاوه وه عدت کا نان و نفقہ بھی حاصل كرتى ہے، رہی بات متعہ کی تو وہ ایک مستحب امر ہے اور قانون اس کے لزوم کا فیصلہ نہیں کرتا تھا، لیکن اب اس زمانے میں جب کہ انسانیت نام کی کوئی چیز باقی نہ رہی اور آدمیت مر چکی ہے خاص کر میاں بیوی کے درمیان جب کہ باہمی محبت کا دھاگہ ٹوٹ چکا ہو اور ظاہر ہے کہ مطلقہ عورت عدت کے نان و نفقہ کے علاوہ مزید امداد کی ضرورت مند ہوتی ہے تاکہ طلاق کے بعد رونما ہونے والے مسائل پر اس کی مالی مدد ہوسکے، اور اس متعہ میں مدد کا پہلو بھی ملحوظ ہے اور یہ متعہ بہت سارے لوگوں کو طلاق میں عجلت کرنے سے بھی روک سكے گا. اور جب متعہ وضع کرنے کا اصلی مقصد مطلقہ کی دل جوئی کرنا ہے تو اس کی دلجوئی کرنا اسی روادری میں شامل ہے جس کا شریعت نے حکم دیا ہے، اور اس کی مقدار کی بنیاد اللہ تعالی کا یہ ارشاد مبارک ہے: (وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدْرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ ) - اور ان کو خرچ دے دو وسعت والے پر اس کی استطاعت کے موافق ہے اور تنگ دست پر اس کی استطاعت کے موافق، یہ خرچہ مناسب طریقے پر دیا جائے، یہ احسان کرنے والوں کو لازم ہے - [سورہ بقرہ: ٢٣٦]، اور امام شافعی کا مذہب جدید بھی نفقہء متعہ کے وجوب پر تھا اور وہ مطلقہ کےلئے متعہ کو واجب قرار دیتے تھے بشرطيكہ مباشرت کے بعد طلاق واقع ہوئی ہو اور جدائی کا سبب عورت نہ رہى ہو، اور یہی امام احمد کا قول ہے اور اسی کو ابن تیمیہ نے بهى اختیار کیا ہے، اور ظاہریوں کا مذہب بھی اس کے وجوب کا ہے اور امام مالک بهى اسی كے قائل ہيں.
اس بنا پر اور ائمہ کرام کے اقوال کے پیش نظر قانون کی اٹھارہویں شق کو ترمیم کے بعد بھی اس امر كو بر قرار رکھا گیا ہے، لیکن قاضی کو چاہئے کہ اس کی مقدار کی تعیین کے سلسلے میں مذکورہ بالا بیان کے علاوہ طلاق کے احوال کو بھی مد نظر رکھے، تاکہ اس حق کو بجا طور پر استعمال کیا جائے اور بے جا استعمال نہ ہونے ديا جائے، بہرحال اس کی مقدار دو سال کے نان و نفقہ سے کم نہیں ہو گى لیکن قانون نے طلاق دینے والے کی سہولت کی خاطر قسطوں میں ادا کرنے کی رخصت دی ہے، لہذا طلاق دینے والا متعینہ مبلغ قسطوں کی شکل میں ادا کر سکتا ہے. ياد رہے کہ در اصل نفقہء متعہ پرعام نفقہ کا اطلاق عام غلطیوں میں سے ہے، ہونا تو یہی چاہئے کہ اسے صرف متعہ کہا جائے کیونکہ وہ نفقہ کی قسموں میں شمار نہیں کی جاتی ہے. اور اس کے وجوب کی دلیل مذکورہ بالا توضیحی نوٹ کے علاوہ اللہ تعالی کا یہ ارشاد مبارک ہے: (وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ) - اور طلاق یافتہ عورتوں کو بھی مناسب طریقے سے خرچہ دیا جائے، یہ ہر پرہیز گار پر واجب ہے - [سورہ بقرہ: ٢٤١]، پس اللہ تعالی کے کلام میں "متاعا ً" مفعول مطلق ہے اور اسی طرح يہاں ''حقاً''. اور ان دونوں امر کا اس حکم کی تاکید میں بڑا دخل ہے، علاوہ ازیں اس حکم کے عموم کا تقاضا یہ ہے کہ بغیر دلیل اس کی تخصیص نہ ہو، اور یہ حکم ہر مطلقہ کو شامل ہو خواہ طلاق مباشرت سے پہلے واقع ہوئى ہو یا بعد میں، چاہے اس کے طلاق دینے والے نے مہر مقرر کیا ہو یا نہ کیا ہو، لیکن جمہور فقہاء اسے مستحب قرار دیتے ہیں کیونکہ وجوب کے قول کےلئے صریح حکم کی ضرورت ہے. جب فقہائے کرام کے اقوال کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہو گئی کہ متعہ کے بارے میں قرآن مجید میں وارد نصوص کی دلالت کے بارے میں علمائے کرام کے درمیان اختلاف ہے اسی طرح اس کی تطبیق کے بارے میں بھی اختلاف ہے کہ واجب ہے یا مستحب ہے. کیونکہ یہاں دلالت ظنی ہے اس لئے حاکم کو اس میں اجتہاد کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے احکام کی تنظیم و ترتیب کےلیے باضابطہ قانونی لائحہ کے تحت اجتہاد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کے اصولی حقوق کو ثابت کیا جا سکے، اور اس کے مستحق ہونے کی شرطوں کو واضح کیا جاسكے اور اس کی تطبیقی صورتوں کو یکجا کیا جا سکے. اس متعہ کے استحقاق کی شرط یہ ہے کہ طلاق یافتہ عورت کا درست نکاح ہوا ہو اور مباشرت بھی ہوئی ہو، اور طلاق اس کی رضامندی سے نہیں ہوئی ہو اور نہ ہی وہ اس کا سبب بنی ہو، واضح رہے کہ یہ امور شریعت اسلامی کے عام دائرے میں داخل ہیں، اور اس کے بلند مقاصد کے خلاف نہیں ہيں. الغرض اس سے معلوم ہو گیا کہ متعہ کے نفقہ کی مدت دو سال سے کم نہیں ہو گی، مگر زیادہ کی کوئی حد متعین نہیں ہے اور اس میں طلاق واقع ہونے کے احوال کا لحاظ ہو گا، اور سالوں کی تعداد اور شوہر کی فراخی یا تنگی کا اعتبار کیا جائيگا، اور یہ کہ اسے قسطوں میں بھی ادا کیا جا سکتا ہے لیکن یہ عمل قاضی کی نگرانی میں ہونا چاہئے، اور اسی طرح یکمشت ادائیگی کی صورت میں بھی قاضی کی نگرانی ضروری ہے. اور یہ سارے احکام اس وقت کے ہیں جب مسئلہ عدالت میں پہونچ گیا ہو، ليكن اگر طرفین عدالت كا رخ کيے بغیر ہی کسی امر پر راضی ہو جائیں تو ان کا اتفاق شریعت ميں معتبر ہے، اور وہ دونوں مذکورہ بالا تفصیلی احکام سے مدد لے سکتے ہیں، لیکن یہاں عرف میں یہی جاری ہے کہ مرد اپنی مطلقہ کو اتفاق کے مطابق متعین مدت تک اپنی تنخواہ کی چوتھائی دیتا ہے.
امید ہے کہ مذکورہ بالا بیان جواب جاننے کےلیے کافی ہو.

باقی اللہ سبحانہ و تعالی زیادہ بہتر جاننے والا ہے.
 

Share this:

Related Fatwas