مناسک عمرہ سکھانے کے لئے کعبے کا مج...

Egypt's Dar Al-Ifta

مناسک عمرہ سکھانے کے لئے کعبے کا مجسمہ بنانے اور اس کے گرد طواف کرنے کا حکم

Question

سال ٢٠٠٥ء مندرج استفتاء جو عمرہ کے مناسک سکھانے کےلیے کعبہ کا ڈھانچہ بنانے، اور اس کے گرد طواف کرنے کے جواز کے بارے میں سوال پر مشتمل ہے.

Answer

اللہ تعالیٰ نے علمائے کرام کی شان کو بلند فرمایا، چنانچہ ارشاد فرمایا: (قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ) - آپ فرما دیجئے کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہیں - [سورہ زمر: ٩]. اورانہیں اپنے بندوں کو سکھانے کا حکم دیا، چنانچہ اس بارے میں اللہ جل شانہ نے فرمایا: (وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلاَ تَكْتُمُونَهُ) - اور جب اللہ نے ان لوگوں سے عہد لیا جن کو کتاب دی گئی کہ تم ضرور اس کو لوگوں سے بیان کروگے اور اس کو نہیں چھپاؤ گے - [ سورہ آل عمران: ١٨٧]. نیز ہم کو اللہ بزرگ و برتر نے حج و عمرہ کرنے کا حکم دیا چنانچہ ارشاد فرمایا: (وَأَتِمُّواْ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلّهِ) - اور حج اور عمرہ اللہ کےلیے پورا کرو - [سورہ بقرہ: ١٩٦]، يہاں انہیں ادا کرنے بلکہ پورا کرنے کا حکم فرمایا، اور یہ تو معلوم ہے کہ علم سے پہلے عمل نہیں ہو سکتا. امام بخاری نے اپنی صحیح كے"کتاب العلم" میں درج کیا ہے(١/٣٧)، "باب العلم قبل القول و العمل'' یعنی قول اور عمل سے پہلے علم کا باب. اور اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: (فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ( - جان لو کہ بے شک اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں - [سورہ محمد: ١٩]، تو يہاں علم سے آغاز ہوا. اور اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مختلف طریقوں سے سکھایا. انہیں طریقوں میں سے ایک وہ ہے جس کے بارے میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا: اے اللہ کے رسول! آپ پر کس طرح وحی آتی ہے؟ تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: ''کبھی کبھی میرے پاس وحی گھنٹی کی آواز کی طرح آتی ہے اور وہ مجھ پر زیادہ سخت ہوتی ہے، اور جب مجھ سے وحی کی کیفیت ختم ہوتی ہے توحال یہ رہتا ہے کہ جو کچھ انہوں نے کہا میرے علم و حفظ میں آچکا ہوتا ہے، اور کبھی کبھی فرشتہ آدمی کی شکل میں آتا ہے اور مجھ سے باتیں کرتا ہے تو میں ان کی کہی ہوئی بات کا استیعاب کرلیتا ہوں''۔ بخاری اور مسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اس کی روایت کی ہے.
نيز یہ بھی آیا ہے کہ غیب کی چیزیں آپ صلى الله عليه و سلم کے سامنے پیش کی جاتی تھیں، جیسا کہ حضرت انس بن مالک کی حدیث میں آیا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ابھی ابھی کچھ دیر پہلے جنت اور جہنم اس دیوار کی مسافت پر مجھ پر پیش کئے گئے اور میں نماز کی حالت میں تھا، تو خیر و شر میں آج کے دن کی طرح کوئی اور دن میں نے نہیں دیکھا''. بخاری اور مسلم نے اس حدیث کی روایت کی ہے، اور اسی جیسا واقعہ اسراء (معراج ) میں بھی پیش آیا۔ جب حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کافروں نے بیت المقدس کی نشانیوں کے بارے میں پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق فرمایا: ''جب مجھے قریش نے جھٹلایا تو میں حجر کعبہ میں کھڑا ہوا، تو اللہ تعالی نے میرے لئے بیت المقدس کومنکشف فرما دیا، لہذا میں ان لوگوں کو اس کی علامتوں کے بارے میں بتانا شروع کیا اور میں تو انہیں دیکھ رہا تھا''. بخاری اور مسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کی روایت کی ہے. اسی طرح حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو مختلف انداز سے علم سکھایا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کےلئے نقشہ بھی کھینچا تھا جو آج کل کی وضاحتی تختی سے مشابہ تھا، چنانچہ حضرت ابن مسعود کی حدیث میں آیا ہے انہوں نے بیان کیا، حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چوکور خاکہ کھینچا، اور اس کے درمیان میں سے اس کے باہر کو ایک لکیر کھینچی اور اس درمیان والی لکیر کے اندرونی جانب سے چھوٹی چھوٹی لکیریں کھینچی. اور فرمایا: ''یہ انسان ہے اور یہ اس کی اجل اسے گھیری ہوئی ہے۔ یا اسے بالکل گھیر چکی ہے۔ اور یہ جو باہر لکیر ہے اس کی امید ہے اور یہ جو چھوٹی چھوٹی لکیریں ہیں یہ حادثات ہیں، چنانچہ اگر وہ اِس سے بچ جاتا ہے تو وہ اسے نوچ لیتا ہے، اور اگر اُس سے بچ جاتا ہے تو وہ اسے نوچ لیتا ہے''. اس حدیث کی امام بخاری نے روایت کی ہے، اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکیریں کھینچی پھر فرمایا: ''یہ امید ہے اور یہ اس کی اجل ہے اور وہ اسی کشمکش میں ہوتا ہے کہ قریبی خط آپہونچتا ہے''. علاوه ازيں کبھی کبھی آپ جو ارشاد فرماتے تھے اس کو اداكارى سے دکھا بھی دیتے تھے جیسا کہ اس حدیث میں ہے جو گہوارے میں بولنے والوں کے بارے میں ہے، جس کو ابو ہریرہ نے بیان کیا ہے، اس میں آیا ہے''... اور بنی اسرائیل میں ایک عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی، اسی اثنا میں اس کے پاس سے ایک ہیبت ناک سوار آدمی گزرا، تو اس عورت نے دعا کی: اے میرے معبود میرے اس بیٹے کو اسی جیسا بنا، تو اس نے اس کا پستان چھوڑا اور سوار کی طرف متوجہ ہوا اور کہا: اے میرے اللہ مجھے اس جیسا نہ بنا، پھر پستان کی طرف متوجہ ہوا اور چوسنے لگا۔ حضرت ابو ہریرہ نے بیان کیا ۔ گویا کہ ابھی میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں کہ ا پنی انگلی مبارک کو چوس رہے ہیں''. اس حدیث کی امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کی ہے، لیکن یہ الفاظ بخاری کے ہیں، اور مسلم کے الفاظ یہ ہیں: گویا کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں کہ اس کے دودھ پینے کو آپ اپنی شہادت کی انگلی اپنے منہ میں رکھ کر اسے چوس کر دکھا رہے ہیں". اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر نے لکھا ہے: ''اس میں واقعے کو کرکے دکھانے سے صاف صاف اور بالکل واضح بیان کرنا مقصود ہے''.
کبھی کبھی صورت کی وضاحت کےلیے غائب کو حاضر کی مثال دیتے تھے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی پیغمبروں اور حضرت جبرئیل کی کئی صحابہ سے تشبیہ دی، اور مسیح دجال کی بھی تشبیہ دی گئی ہے، چنانچہ فرمایا ہے: ''جہاں تک ابراہیم ۔علیہ السلام ۔ کى شکل و صورت کا تعلق ہے تو اپنے جناب کی طرف دیکھ لو۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ۔...''، اور صحیح مسلم (١٦٦۔١٦٩) میں کئی صحابہ سے کئی روایتیں آئی ہیں، اور ان میں سے چند کی اصل بخاری میں بھی موجود ہے. بلکہ یہ بھی آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھانے کی غرض سے کچھ عبادتوں کو کرکے بھی دکھایا جیسا کہ حضرت سہل بن سعد کی حدیث میں ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما تھے جب فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ''اے لوگو! میں نے یہ عمل اس لیے کیا تاکہ تم میری اتباع کرو، اور تاکہ تم میری نماز سیکھو''. اس حدیث کی امام بخاری اور مسلم نے روایت کی ہے.
پھر یہ طریقہ ہمارے نیک اسلاف میں بھی منتقل ہوا، حضرت ابو قلابہ سے منقول ہے انہوں نے بیان کیا: ہمارے پاس ایک صحابی مالک بن حویرث نامي ہماری اس مسجد میں تشریف لائے اور کہا: میں تمہیں نماز پڑھاؤں گا لیکن اس نماز سے اصلی نماز پڑھانا مقصود نہیں ہے، میں اس طرح نماز اداکروں گا جس طرح میں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہےـ۔ امام بخاری نے اس کی روایت کی ہے، اوراس کا عنوان یہ رکھا: ''ان کے باب میں جنہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی تھی اور ان کا مقصد نماز ادا کرنا نہیں تھا بلکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور سنت سکھانا تھا''. اور شعبہ نے معاویہ بن قرہ سے، انہوں نے عبداللہ بن مغفل مزنی سے روایت کی ہے انہوں نے بیان کیا: میں نے فتح مکہ کے دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اونٹنی پر سوار سورہ فتح یا سورہ فتح کا کوئی جز تلاوت فرماتے ہوئے دیکھا، راوی نے کہا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونچی آواز میں تلاوت فرمائی. راوی نے کہا: پھر معاویہ ابن مغفل کی تلاوت بیان کرنے کےلئے تلاوت کرنے لگے، اور کہا :'' اگر مجھے تمہارے ہاں لوگوں کے جمع ہونے کا ڈر نہ ہوتا تو میں اسی طرح بلند آواز سے تلاوت کرتا جس طرح ابن مغفل نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل کرتے ہوئے کی تھی''، یہ سن کر میں نے معاویہ سے پوچھا: ان کی تلاوت کیسی تھی؟ تو انہوں نے جواب میں کہا: آآآ، تین مرتبہ.۔ امام بخاری نے اس کی روایت کی ہے.
واضح رہے کہ مشاہدے کا اثر نفس پر سننے کے اثر سے زیادہ ہوتا ہے جیسا کہ خود حدیث شريف میں بھی آیا ہے: ''کہ سنی سنائی مشاہدے کی طرح نہیں ہوتى، بےشک جب اللہ بزرگ و برتر نے حضرت موسی کو اُس بارے میں خبر دی جو ان کے قوم نے بچھڑے کے ساتھ کیا تو انہوں نے تختیاں نہیں پھینکی، اور جب خود آکر اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ان لوگوں نے کیا کیا تو فورا تختیاں پھینک دی اور وہ ٹوٹ گئیں''. اس کی روایت ابن حبان اورحاکم نے کی، طبرانی نے بھی الکبیر اور الاوسط میں اس کی روایت کی ہے اور اس کے الفاظ حضرت ابن عباس سے روایت کردہ انہی کے ہیں.
مذکورہ بالا بیان کی روشنی میں جاننا چاہئے کہ سوال میں بیان شدہ طریقے پر مناسک عمرہ سکھانے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ یہ عمل کبھی کبھی مستحب کے درجے کو پہونچ جاتا ہے، اور اگر یہ مناسک صرف اسی طرح سے سمجھ میں آئيں تو اس وقت یہ طریقہ واجب ہو گا، ہاں اس بات کا خیال رہے کہ یہ کام اس انداز سے ہو جس میں اللہ تعالى کی نشانیوں کی تعظیم ملحوظ رہے، (ذَلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ) - بات یہ ہے، اور جو الله کى نشانوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیزگاری سے ہے - [سورہ حج: ٣٢].
ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں اور سارے مسلمانوں کو نفع بخش علم سے نوازے اور دین پرعمل کرنے کی توفیق دے.

باقی اللہ سبحانہ و تعالی زیادہ بہتر جاننے والاہے.
 

Share this:

Related Fatwas